میں اُجڑی دے ڈھولا ۔ محمد خان داؤد

133

میں اُجڑی دے ڈھولا

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ گزشتہ اٹھائیس دنوں سے اس راہ پر بیٹھی ہیں جس راہ پر جھنڈی والی گاڑیاں بہت تیزی سے گزر جا تی ہیں اور پیچھے رہ جا تی ہے دھول!
وہ راہ میں بیٹھی ہیں جس راہ میں بہت پروٹوکول ہے پنچھی بھی اس راہ سے نہیں گزرتے
وہ وہاں خیمہ زن ہیں جہاں آتے جاتے سے پہلے اس کی شناخت بعد میں نام پوچھا جاتا ہے
وہ وہاں درد کا دامن لیے بیٹھی جہاں سے وہ لیکر شروع ہو تی ہے جسے ”ریڈ زون“ کہتے ہیں
جہاں عام عوام بہت پیچھے رہ جا تی ہے اور صاحب لوگ بہت آگے بڑھ جا تے ہیں
شاید عام عوام اور صاحب لوگوں کے بیچ کی دوری کی لکیر کو ہی ”ریڈ زون“ کہتے ہیں
پر وہ”ریڈ زون“ کے مکین نہیں وہ تو ”درد“ کے اسیر ہیں
اور اس وقت وہ اپنا وہی ”درد“ ان“ریڈ زون“ کے مکینوں کو دکھانے آئے تھے جو بس فائلوں کی زبان پڑھتے ہیں اور پروٹوکول کی زبان جانتے ہیں۔اگر بہت پہلے ہی ان درد کے اسیروں کی زبان سنی جاتی تو وہ کیوں ”ریڈ زون“ کی لال پیلی دن رات جلتی بتیوں کے درمیان رہتے؟
جہاں دھول گاڑیوں کا شور بھی ہے۔ جہاں سرکار کی دھمکیاں بھی ہیں۔ جہاں چلتے پھرتے اہلکاروں کی گندی نظریں بھی ہیں۔ جہاں بس چیختے چلاتے وردی پوش نہیں پر شور مچاتی پروٹوکول گاڑیاں بھی ہیں۔جہاں دھول بھی ہے۔جہاں گرمی بھی ہے۔جہا ں برستی بارش بھی ہے۔جہاں بہت سا کیچڑ بھی ہے۔جہاں معصوم بچے بھی ہیں۔جہاں بوڑھی مائیں بھی ہیں۔جہاں رات کی تاریکی میں رتجگے بھی ہیں۔جہاں درد دامن گیر بھی ہے۔جہاں نم نینن بھی ہیں۔جہاں گیلے گال بھی ہیں۔جہاں دل بھی ہے۔اور اس دل میں بہت سا انتظار!
پھر بھی وہ گزشتہ کئی دنوں سے وہاں بیٹھی رہیں کہ کبھی تو اندر سے بلاوا آئے یایہاں کوئی آکر یہ پوچھے کہ ”کیا بات ہے؟
اور وہ بس انہیں اتنا کہہ سکیں کہ”میں اُجڑی دے ڈھولا!“(اے اُجڑی کے محبوب!)بس ان گم شداؤں کو مقتولین نہ بنانا جو پابند سلاسل ہیں۔جو زلتوں کے اسیر ہیں۔جو موت جیسے پھانسی گھاٹوں میں پڑے ہیں۔جو آنکھوں سے اوجھل ہیں۔جو ٹارچر سیلوں کے اسیر ہیں۔جو اندھی کال کوٹھڑیوں میں ڈال دیے گئے ہیں۔جنہیں ماؤں نے جنا اور ڈائن جیسی ریاست کھا گئی۔جو بہت سی کتابیں پڑھتے تھے اب جن کے نام گم شدہ افرادوں کی فہرست میں ہیں بس انہیں گم شدہ سے مقتولین نہ بنانا!
بس اتنی سے عرض لیے وہ گزشتہ کئی دنوں سے ”ریڈ زون“ میں موجود ہیں پر ان کے پاس اندر سے بلاوہ نہیں آیا اور نہ ان کے پاس کوئی آکر کچھ دیر بیٹھا۔قدوس بزنجو کیا پر ان کے پاس تو اختر مینگل بھی نہیں آیا۔اختر مینگل کیا پر ان کے پاس تو ثناء بلوچ بھی نہیں آیا ثناء بلوچ کیا پر ان کے پاس تو ڈاکٹر مالک بھی نہیں آیا۔قوم پرست کیا ان کے پاس تو کوئی حق پرست یا وطن پرست بھی نہیں آیا
بس وہ رئیسانی آیا جو جب خود وزیر اعلیٰ تھا تو اس کا کردار ایک مسخرہ سے زیادہ کچھ نہیں
اور مسخرہ کیا کسی کے دامن سے بندھے درد کو دور کر سکتا ہے؟
مسخرہ تو رفو گر بھی نہیں ہوتا کہ چلو دامن ہی رفو کر لے!
باقی ان کے پاس کون آیا؟کس نے ان کی بات سنی؟کس نے ان کے آنسو پونچھے؟کس نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا؟کس نے انہیں دلاسہ اور تسلی دی؟
ان کے پاس کوئی نہیں آیا اور ان کی حالت ایسی ہے جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”ڈینھن تتے میں بنجی سایو
کوبہ نہ آیو
کوبہ نہ آیو
کوبہ نہ آیو!“
وہ جو”میں اُجڑی دی ڈھولا“ہیں
آج انہوں نے وہ ریڈ زون چھوڑ شال کی گلیوں میں درد کے گیت گائے ہیں
آج وہ شال کے دامن سے اُلجھی ہیں
آج وہ شال کے چورہائے پر بیٹھ کر نوحہ خواں ہوئی ہیں
آج وہ ریڈ زون بہت پیچھے چھوڑ کے شال کی گلیوں میں صدائے تلاش رہی ہیں
گورنر ہاؤس سے تو کوئی نہیں آیا
پر شال کے مکین ان کے کہنے پر اُمنڈ آئے اور ان سے پوچھا
”کیوں روتی ہو؟“
”کیوں پیروں میں چپل نہیں؟“
”کیوں مانگ میلی ہے؟“
کیوں آنکھیں اشک بار ہیں؟“
”کیوں نیند آنکھوں سے دور ہے؟“
”کیوں رات بھر جاگتی رہتی ہو؟“
تووہ جواب دیتی ہیں ”میں اُجڑی دی ڈھولا“
وہ جو وطن کے پرچم جیسی ہیں
وہ جو وطن کے وچن جیسی ہیں
وہ جو پہلی بارش کے شوق میں ناچتی تھیں
وہ جو اب ہر بارش کی بوند میں روتی ہیں
وہ جو پھول جیسی تھیں
اب ان کے دامن میں ہر سو کانٹے ہی کانٹے ہیں
وہ جو وطن کی مہک جیسی تھیں
وہ جو شال میں برستی سفید گال جیسی تھیں
وہ جو چاند سے عشق کیا کرتی تھیں
اب چاند ان کے اس حال پر روتا ہے
اور شال میں اس درد سے داخل نہیں ہوتا کہ
وہ ان کا سامنا کیسے کریگا
جو درد لیے سوتی ہیں
درد لیے جا گتی ہیں.
اور درد لیے سفر کرتی ہیں
وہ اُجڑی دی ڈھولا
آج شال کی گلیوں سے گزریں
اور شال رات گئے تک رو رہا ہے
اور پوچھ رہا ہے
”کہاں ٹھہرے گا اے درد دل
کہاں رات بسر ہوگی؟“
اور چاند بھی انہیں تلاش رہا ہے
جو”اُجڑی دے ڈھولا!ہیں
پر ان بے خبروں کو خبر ہی نہیں
جو عوام اور صاحب کی لکیر کے درمیاں بستے ہیں
جن مکینوں کو ”ریڈ زون“ کہا جاتا ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں