مہر گڑھ سے تشکیل ریاست تک – ظہیر بلوچ

613

مہر گڑھ سے تشکیل ریاست تک

تبصرہ: ظہیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مہر گڑھ سے تشکیل ریاست تک ڈاکٹر شاہ محمد مری کی تخلیق ہے جو سنگت اکیڈمی سے شائع ہوئی. اس کتاب کے تین ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں. پہلا ایڈیشن 1999 دوسرا 2010 اور تیسرا ایڈیشن 2016 میں شائع ہوچکا ہے. اس کتاب کا دیباچہ عبداللہ جان جمالدینی نے تحریر کیا ہے.

اس کتاب میں کل آٹھ ابواب ہیں، جو بلوچستان کی جیالوجیکل ساخت سے شروع ہو کر ریاست کی تشکیل تک ختم ہوتی ہیں.

مصنف کا تعارف؛
شاہ محمد مری23 نومبر 1954 کو بلوچستان کے ضلع کوہلو کے ایک علاقے ’’ماوند‘‘ میں پیدا ہوئے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے مکمل کی اس کے بعد مڈل کی تعلیم بارکھان اور میٹرک کے لیے لورالائی کی تحصیل دکی کا رُخ کیا۔ 1979 میں بولان میڈیکل کالج کوئٹہ سے ایم بی بی ایس کی سند حاصل کی۔

باب اؤل میں تاریخی شواہد کو بیان کیا گیا ہے کہ کیسے تیرہ ارب سال قبل کائناتی دھماکے کے بعد دنیا کا وجود ہوا. کہکشاں وجود میں آئے. سورج بنا زمین اور دیگر ستارے سورج کا حصہ تھے. سورج کے گرد چکر لگاتے ہوئے یہ ٹکڑے سیاروں کی حیثیت سے ٹھوس بن گئے جس میں ہماری زمین بھی شامل ہے. شروع میں زمین کی سطح پر نہ کوئی براعظم موجود تھا اور نہ ہی سمندر موجود تھا لیکن بعد میں حرارت اور گیسوں کی وجہ سے سمندر اور فضاء بن گئے. آج کی جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اس کا ستر فیصد حصہ سمندر اور تیس فیصد زمین پر مشتمل ہے.

مصنف صفحہ نمبر 34 میں کہتے ہیں کہ ہمارا بلوچستان دو بلوچستان سے مل کر بنا ہے ملینوں سال قبل زمین کا ایک بڑا ٹکڑا قطب جنوبی والی برف سے منجمند زمین سے علیحدہ ہوگیا اور کچھوے کی رفتار سے یوریشیاء کے سمندر کے جنوبی ساحل پر موجود گرم اور دھوپ بھرے مغربی بلوچستان سے ملنے چل پڑا. اس نے آکر زمین کے ایک بڑے ٹکڑے کو ہزاروں میل پرے دھکیل دیا اور خود مشرقی بلوچستان بن کر مغربی بلوچستان کے پہلو میں پیوست ہوگیا.

مشرقی بلوچستان کو دیوتا جبکہ مغربی بلوچستان کو دیوی قرار دیتا ہے. مشرقی بلوچستان ایک زمانے میں انڈیا، امریکہ، افریقہ، آسٹریلیا اور انٹارکٹیکا کے ساتھ موجود تھا لیکن تبدیلیوں کی وجہ سے یہ علاقے دور ہوتے چلے گئے. زمین اتنی گرم تھی کہ جس پر جاندار کا زندہ رہنا بہت مشکل تھا.

اس دور میں بلوچستان گھنا اور سرسبز جنگل ہوا کرتا تھا جہاں ہاتھیوں کے باقیات کے علاوہ ڈائنوسار، وہیل مچھلی اور بلوچی تھیریم کی ہڈیاں نکلی ہیں لیکن موسم کی تبدیلی سے بلوچی تھیریم ختم ہوگئے، جنگلات خشک ہوگئے.

باب دوم میں مصنف یہی بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بلوچستان کے کوکھ سے ہی زندگی نے جنم لیا ہے کیونکہ بلوچستان میں نئی سائنسی دریافت نے تحقیق کی سمت میں بڑی تبدیلی پیدا کی ہے. بلوچستان کی زمین خشک اور بنجر نہیں تھی بلکہ بارشوں کا میدان تھا، ساری زندہ مخلوق یہیں ہی پیدا ہوئی.

وہیل مچھلی کے دریافت فاسلز اس زمین سے ہی دریافت ہوئے. وہیل مچھلی جو آج سے پانچ کروڑ سال قبل خشکی کا جانور تھا اور پیروں پر چلتا تھا، وہیل کا خشکی سے سمندر کا سفر ارتقائی تھا.

بلوچستان وہ سرزمین ہے جہاں دو کروڑ اسی لاکھ قبل کے بلوچی تھیرم(بلوچستان کا درندہ) نامی ممالیہ رہتا تھا جس کی لمبائی ستائیس فٹ اور اونچائی 18 فٹ تھی جو روزانہ دو ٹن خوارک نوش فرماتا تھا ان کا ایک پورا ریوڑ تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان کی سرزمین کتنے گھنے جنگلات پر مشتمل ہوتی تھی.

تیسرا باب انسانی ارتقاء سے متعلق ہے کہ جس نے انسان کو ایک جانور سے انسان میں تبدیل کردیا اور یہی انسان بعد میں اشرف المخلوقات کے درجے پر فائر ہوا. انسان اور جانور میں بنیادی فرق یہی ہے کہ انسان اپنے عقل سے ایجادات کرتا ہے اور اسی ایجادات کی بنیاد پر اپنے جینے کا سامان پیدا کرتا ہے.

مھر گڑھ تہذیب تک بلوچستان جنگلات سے بھرا وطن تھا جہاں خوب بارشیں ہوتی تھیں اور ان جنگلات کی درختوں پر انسانوں کا بسیرا تھا.
شکار اور خوراک کے لئے دوسرے جانوروں سے لڑائی ہوتی تھی، سردی سے بچنے اور جسم کو گرم رکھنے کے لئے ریچھ کو مار کر اس کی کھال کو ڈھال بنا کر استعمال کیا جاتا.

عدم تحفظ اور لاعلمی نے جنگل کے قانون کو جنم دیا جس کے مطابق طاقتور اور کمزور کا وجود میں آنا ہے.

اس زمانے میں انسان ماہی گیری اور مکمل شکار پر انحصار کرتا تھا لیکن انسان کے دماغ نے اس کو پتھر کے استعمال کا صحیح طریقہ اور ہاتھ کو استعمال کرنے کا طریقہ سکھایا یعنی یہ وہ دور تھا جب انسان دنیا کے دیگر مخلوقات سے افضل رتبے تک پہنچنے کے دور میں داخل ہوچکا تھا. پتھر سے انسان نے اوزار بنایا، لکڑی کو ہتھیار بنایا، بلوچستان کے علاقے موسی خیل میں موجود قدرتی غاروں سے انسان کی سنگ تراشی اور مصوری کے شاہکار بھی سائنس دانوں کی نظر میں آگئے. یہی نہیں بلکہ کینیا اور ایتھوپیا کی طرح مہر گڑھ کے لوگ بھی بغیر دستے والی کلہاڑی استعمال کرتے تھے. تیر کمان کی ایجاد نے انسان کو گوشت خور بنادیا، انسان نے گاؤں بسائے جس کی وجہ سے اشتراک عمل کو فروغ ملا. یہ انقلابی زمانہ تھا جانور پالنا ان کا دودھ اور گوشت استعمال کرنا پودوں کا کاشت کرنا معمول تھا زندہ بھینس کی کھال سے جوتے بنانے کا فن اسی دور کی دریافت ہے. گیارہ ہزار سال قبل کا مھر گڑھ اناج اگاتا تھا.

شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ مھر گڑھ آگ کے استعمال سے آشنا تھا آگ کے استعمال کو سیکھنے کے بعد جانوروں کو ڈرانا اور موسموں کے فرق کی محتاجی ختم ہوگئی، مھر گڑھ تہذیب زراعت کا دور کہلاتا ہے.
باب چہارم مھر گڑھ کے ادوار کی تقسیم کے متعلق ہے مصنف کے مطابق ماہر آثار قدیمہ کی نظر میں مھر گڑھ پانچ مختلف ادوار سے گزرا ہے۔

سبی سے 26 کلو میٹر اور ڈھاڈر سے 10 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع دنیا کی قدیم ترین آبادی اور قدیم ترین دندان سازوں کا ٹھکانہ بلوچستان ہے. اس کا پہلا دور 9000 قبل مسیح سے لیکر 6000 ق. م تک ہے جس میں نیم خانہ بدوشی کی زندگی گزاری ہے جس میں ذراعت کی نشانیاں ملی ہیں. اس دور کا انسان کجھور، اناج، گندم اور جو کی کاشت کرتا تھا یہ دور بلوچستان کی عورت کے انقلاب کا دور تھا.

دوسرا دور 5000 قبل مسیح سے 4000 ق. م تک کا ہے. اس دور میں وہاں رہنے والے لوگ وہی تھے لیکن انکے رہن سہن میں تبدیلی اور ترقی کے آثار پیدا ہوگئے تھے، زراعت کی ترقی کے آثار وہاں کٹائی کے اوزاروں اور آبپاشی کے نظام سے ہی ہوتی ہے. کہتے ہیں کہ جب دنیا پشم پوش کپڑے پہنتی تھی اس وقت مہر گڑھ کے باسی سوتی کپڑے زیب تن کرتے تھے.

گوشت کے علاوہ دودھ اور مال برداری کا کام جانوروں سے لینے کا فن انسان نے حاصل کیا اور ان جانوروں کے گوبر سے کھاد کا کام لیا گیا یہ دور کاشت کاری کی بالادستی کا دور تھا.

مھر گڑھ دوئم کے لوگ موت کے بعد زندگی پر یقین رکھتے تھے وہ لوگوں کو ان کے اوزار اور زیورات کے ساتھ ہی دفن کردیتے تھے جبکہ مردے کو دفنانے وقت پاوں سیدھا کرنے کے بجائے ٹیڑھے اور سر مغرب کے بجائے مشرق کی طرف کرتے تھے. ان کے ذبح کئے ہوئے جانور بھی ان کے ساتھ دفن کئے جاتے تھے. آرٹ اور برتن سازی کا فن بھی موجود تھا. بلوچستان میں اس وقت بھی قدرتی آفات آتے رہتے تھے، قدرتی آفات، قحط، موسمی شدت اور ٹڈی دل کے حملوں نے کاشت کاری کو شدید متاثر کیا، یہ وہ دور تھا جب ایک خدا کا تصور نہیں تھا.

فطرت کے رحم و کرم پر ہونے کی وجہ سے اس دور کے انسان نے سیاروں کا علم بھی حاصل کرلیا کیونکہ یہ اس وقت کی ضرورت تھی. انسانی ضرورت ہونے کی وجہ سے یہ علم سائنس کے درجہ تک پہنچ گیا.
مہر گڑھ کا تیسرا دور 4000 قبل مسیح سے 3200 قبل مسیح تک کا دور ہے جس میں اس سرزمین سے تانبا دریافت ہوا.

مصنف صفحہ 93 میں امیر توکل کمبوزیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تانبا سب سے پہلے دریافت اور استعمال بلوچستان میں ہوا اور وہیں سے ان کی تجارت بحری راستے سے عراق ہوئی. زراعت کان کنی کی پیداوار میں اضافہ ہوا، تانبا کے دور میں صنعت اور تجارت کو فروغ حاصل ہوئی، کچھ شواہد کے مطابق مہر گڑھ کے تیسرے دور میں آبادکاری ہوئی تھی اور یہ مغرب سے نقل مکانی کی صورت میں ہوئی.
ورکشاپس کی زہریلی ہوا اور صفائی کے فقدان کی وجہ سے شرح اموات میں اضافہ ہوا خاص کر پانچ سال کے بچوں کی شرح اموات نے عورتوں کو بچے پیدا کرتے رہنے کا دباؤ بڑھا دیا. اس دور میں باقی سماجی صورتحال وہی تھیں، بس مردوں کو قبروں میں اکیلا دفن کیا جانے لگا. فطرت پر قابو نہ ہونے کی وجہ سے انسان دیوی دیوتا کو خوش کرنے کے لئے قربانی دینے لگا جس کی وجہ سے عقائد نے سائنس پر قبضہ کرلیا جسکی وجہ سے ایجاد و جدت کو خطرہ سمجھا جانے لگا.

چوتھا دور 3800 قبل مسیح کا ہے اس میں لاش کا چہرہ مغرب کی طرف کیا جانے لگا. یہ وہ دور ہے جب مھر گڑھ کی آبادی سندھ، ہڑپہ، موئن جوڈرو اور نوشہرو کی طرف ہجرت کرگئی یہ آریاؤں کی آمد کا زمانہ تھا جس نے ہمارے ارتقاء کو ڈسٹرب کیا اور ہم میں گھل مل جانے کی وجہ سے بلوچ تشکیل کے عمل میں شامل ہوتے ہیں. آریاؤں کی آمد بلوچ تہذیب کے عروج کا دور تھا. ہمارے لوگوں کی اپنی زبان تھی، تحریر کے لیے اپنا رسم الخط تھا، یہ تجارت کرتے تھے اور ترقی یافتہ لوگ تھے.

آبادی وسیع تھی شاہ محمد مری کہتے ہیں کہ ستکغین ڈور، مکران کے علاقے میں ساحل سمندر سے تیس میل دور واقع ہے. مگر یہ اپنے عروج کے وقت سمندر کے ساحل پر تھا. یہ بہت بڑی بندرگاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا. یہ قلعہ والا اور فصیل دار شہر تھا. ستکہ کوہ پسنی سے آٹھ میل شمال کی جانب ہے. مزید کہتے ہیں ایک اور بندرگاہ بالاکوٹ تھی جو سونمیانی کے قریب تھی، یہ تجارت کے لئے استعمال ہوتی تھی. دوسرے ممالک کے بحری حملوں سے بچنے کے لئے یہاں چھاؤنی موجود تھی.

صفحہ نمبر 101مھر گڑھ کا تسلسل پیرک تہذیب بلوچستان کا پانچواں دور کہلاتا ہے جسے لوہے کا دور کہا جاتا ہے، مھر گڑھ کے لوگوں کی نقل مکانی اور دیگر علاقوں میں آباد ہونے کے کافی ثبوت ملے ہیں.

مصنف کہتے ہیں کہ مھر گڑھ کا دور لوہے کے دور کی ابتدا ہے جس کی کھدائی نے انکشاف کیا ہے کہ یہاں ملنے والی 80 فیصد اشیاء لوہے کے عہد کی ہے. یہاں انسان نے پتھر اور ہڈی والے زمانے کو دفن کرکے اور لوہے کے استعمال کی ابتدا کردی.

صفحہ نمبر 103پر مزید کہتے ہیں 4000 سال قبل مسیح مکران میں باقاعدہ ایک تہذیب موجود تھی، زاہدان کے قریب شہر سوختہ 3000 سال قبل مسیح کا ہے.

103 پانچواں باب آریاؤں کی آمد اور ان کے بلوچ قبائل سے مل کر ایک نئی تہذیب کی تشکیل کا زمانہ تھا. آریا کسی قوم کا نام نہیں بلکہ آریا وہ لوگ ہیں جو ازبکستان، تاجکستان اور دیگر علاقوں سے موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ہجرت پر مجبور ہوئے اور یہاں آکر آباد ہوئے.
آریہ ویجہ وطن کے لوگوں کی آمد کے زمانے میں بولان اور حب سے ساحل سمندر کا علاقہ گدورشیا کہلاتا تھا جبکہ کوہ سلیمان کا مشرقی دامن سے دریائے سندھ کا کنارہ یوناس کہلاتا تھا. یہ آریا جہاں بھی آباد ہوتے وہاں کے لوگوں میں جذب ہوجاتے اس لیے شاہ محمد مری کہتے ہیں کہ آج کا مھر گڑھ بلوچ بھی ہے اور آریا بھی ہے.

مظاہر قدرت کی پوجا کرنے والے آریا اپنے وطن کو بھارتا ورش کہتے تھے یہ ہندوستان کو براہما ورتا جبکہ افغان کو گندھارا کہتے تھے، آریا ایک مرتبہ یہاں نہیں آئے بلکہ مختلف قافلوں کی شکل میں مختلف ادوار میں آئے اس لئے ان کے درمیان آپس میں 1400 صدی قبل مسیح بڑی جنگ لڑی گئی.

ان آریاوں کی آمد سے بلوچ کا مادر سری نظام تباہ ہوا جبکہ پدرسری نظام میں داخل ہوا.

باب ششم بلوچ کے خلاف حملہ آور اور ان کے خلاف مزاحمت کی داستان بیان کیا گیا ہے. بلوچ قوم کبھی یکجا و متحد نہیں ہوئی لیکن جب کوئی بیرونی حملہ آور جارحیت کرتا تو یہ قوم بن جاتے.

سائرس اعظم جب بلوچستان پر حملہ آور ہوا تو اسے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور اسی مزاحمت نے اسے تباہ و برباد کر ڈالا. سکندر اعظم بھی بلوچستان آیا لیکن بلوچستان کی سرزمین اور اسکے فرزندوں نے اسے بے حال کردیا، سکندر اعظم کے سپہ سالار نہر کوس نے بلوچستان کی معاشی و سماجی زندگی کو اپنے سفر نامے کا حصہ بنایا ہے جس میں وہ بلوچوں کو ماہی خور کا نام دیتا ہے. سکندر نے بلوچستان میں لسبیلہ کے مقام پر سکندری نام کا شہر بھی بسایا تھا.

بلوچستان میں عرب بھی آئے، سندھ کے حکمران بھی آئے اور عزنوی جیسا لٹیرا بھی آیا، نوشیروان عادل ہو یا محمود غزنوی بلوچوں نے مزاحمت کی تاریخ رقم کردی منگول جن سے بلوچوں نے ڈش سجی سکیھی تھی ، یہ بھی 1223 میں مکران کے علاقے میں وارد ہوئے. یہ تاریخی حقیقت ہے کہ بلوچوں نے مزاحمت کرکے ہر قابض کو پسپا ہونے پر مجبور کیا اور اکثر شکست اپنوں کی غداری اور دشمن کی عیاری کی وجہ سے ان کا مقدر بن گئی.

مصنف صفحہ 162 میں اسماعیل دشتی کے کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ محمود غزنوی کو جب لشکر کشی کرنی پڑی تو اسے یقین تھا کہ بلوچ اسے شکست فاش دینگے اس لیے انہوں نے سیبوں کو زہر آلود کرکے تجارتی قافلے کے ساتھ روانہ کیا، بلوچوں نے پکڑ لیا اور سیب کھالئے اسکے بعد محمود غزنوی بغیر کسی مزاحمت کے بلوچستان پر قابض ہوگیا.

صفحہ نمبر 164 میں مارکوپولو کے مطابق بلوچستان ایک آزاد خطہ ہے اور یہاں کے باشندے تجارت سے وابسطہ ہیں، ان کی معشیت کا انحصار درآمد و برآمد پر ہے.

کتاب کا ساتواں باب رند و لاشار دور کے متعلق ہے.

رند و لاشار دور بلوچ قومی زبان کے عروج کا دور تھا ہم کہہ سکتے ہیں کہ لسانی محبت کا نقطہ آغاز تھا. شاہ محمد مری کہتے ہیں کہ یہ زبان آسمان سے نہیں اتری بلکہ ارتقائی عمل سے گزر کر اس مقام تک پہنچی. مزید کہتے ہیں کہ بلوچوں پر کی گئی شاعری تو قدیم زبان سے ملتی ہے مگر خود بلوچوں کی اپنی شاعری تاریخ کی دھند میں گم ہوچکی ہے ہمیں بس رند و لاشار کے دور کی شاعری ملتی ہے کیا زبردست شاعری ہے وہ. بالغ لٹریچر کا جھلکتا جام ہےیہ. اس قدر امیر اس قدر متنوع، اس قدر پر معنی، رنگین اور متنعرل کہ جی خوش ہوجائے.

صفحہ نمبر 169 اس باب میں رند و لاشار کی تاریخ، ان کی فتوحات کے متعلق بیان کیا گیا ہے. وہ کس طائفے سے تعلق رکھتے تھے، ان کی آپسی رشتہ داری، سیر و سیاحت اور شکار کے متعلق بھی بیان کیا گیا ہے. بلوچ کنفیڈریسی کے مضبوط ستون تیس سالہ امن سے رہے لیکن بعد میں ایک ایسے خانہ جنگی کا شکار رہے جسے کبھی بلوچ تاریخ فراموش نہیں کریں گے.

جنگ کے علاوہ تفریح اور شاعری کے شوقین تھے ان کی شاعری زیادہ تر بہادری سے متعلق ہوتی تھی. مہمان نواز اور سخی تھے. ان کی یہ خوبی تھی کہ وہ اپنے باہوٹ کے لئے جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے. بلوچ تاریخ کے اس سنہرے دور میں بلوچ کلاسیکل داستانوں کا عروج تھا. ان کی دفتری زبان فارسی جبکہ شعر و شاعری کے لئے بلوچی زبان استعمال ہوتی تھی. عشقیہ داستان ہو یا بالاچ گورگیج کی بہادری یا مردانہ سماج کے خلاف جدوجہد کی علامت مہناز کی داستان سب اسی دور کا حصہ ہے. اس دور کے متعلق مصنف کہتے ہیں ایسا خوبصورت عہد جو اب تک بلوچ آسمان پر قطب کے ستارے کی مانند دمکتا رہے گا، بلوچ کو صرف اس وقت تباہ کیا جاسکے گا جب پندرہویں اور سولہویں صدی کا ادب اسکی زندگی سے حذف کیا جائے.

صفحہ 180 امن سے رہنے کے بعد سبی اور گندھاوا کی ذرخیز زمین کی تقسیم اور دیگر وجوہات کی بناء پر ایک ایسی خونریزی شروع ہوئی جس نے نہ صرف بلوچ کو برباد کیا بلکہ باہر کے لوگوں نے بھی یہاں قبضہ کرنا شروع کردیا. قوم دربدری اور ہزیمت کا سامنا کرنے پر مجبور ہوئی اور چاکر خود مہاجر چاکر کی صورت میں سامنا آیا. 1504 میں بابر کی ہندوستان پر قبضے کے بعد ہمایوں بادشاہ بنا اور اسکی سلطنت شیر شاہ نے چھین کر اسے ملک بدر کیا لیکن بلوچوں کی مدد سے ہمایوں نے ایک بار پھر اپنی سلطنت حاصل کرلی.

آٹھواں باب سرقبیلوی نظام کے پیٹ میں فیوڈل ازم کا فروغ ریاست کی باقاعدہ تشکیل کے متعلق ہے.

بلوچستان میں باقاعدہ ریاست کی تشکیل کا سہرا نصیر خان نوری کے سرجاتا ہے جنہوں نے باقاعدہ ایک ریاست تشکیل دی اور ایک عسکری فوجی تنظیم قائم کی. پندرہویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک بلوچستان کا سماج ایک تبدیلی سے گزرا کیونکہ بلوچ قوم سولہویں صدی سے ہی اس زمین پر آباد ہونا شروع ہوئی. مغلوں کی حکومت کے خلاف میرواڑیوں کی جدوجہد سے بلوچستان میں خانیت کا دور شروع ہوا دراصل خان کا خطاب منگولوں سے آیا ہے.

میر احمد نے 29 سال حکومت کی اس نے اپنے دور اقتدار میں مستونگ، کوئٹہ اور پشین مغلوں سے چھین کر اپنی ریاست میں شامل کیا اسکے بعد اس کا بیٹا محراب خان آیا اور دو سال حکومت کی پھر سخی سمندر خان جو محراب خان کا بھتیجا تھا نے 18 سال حکومت کی.
سخی سمندر خان کے بعد عبداللہ قھار نے بیس سال حکومت کی، بلوچستان اس وقت بین الاقوامی تجارت کی گزر گاہ تھی تجارتی قافلوں کی ریل پیل تھی اور اسی ریل پیل کے لئے جنگیں ہوئی. عبداللہ نے کچھی پر حملہ کرکے ڈھاڈر کو فتح کرلیا لیکن جنگ اور کشمکش میں مارا گیا. اسکے بعد محبت خان آیا. یہ دور احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ کا دور تھا، نادر شاہ نے مشہد پر قبضہ کرکے خراسان کو ابدالیوں سے آزاد کردیا، اس دوران نادر شاہ کبھی ترکوں اور کبھی بلوچ بغاوتوں کو کچلتا رہا، 1736 میں نادر شاہ نے بلوچستان پر حملہ کیا محبت خان نے مزاحمت ترک کرکے نادر شاہ کے دربار میں سلامی دی، 1738 تک بلوچستان مکمل زیر نگین آچکا تھا. 1739 میں نادر شاہ نے گوادر گچکیوں کے حوالے کردیا اور دہلی کو فتح کرکے لاڑکانہ آیا جہاں اس نے کچھی اور سیوی کا علاقہ محبت خان کے حوالے کردیا جس نے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا.

نصیر خان اس وقت نادر شاہ کے دربار میں یرغمالی تھا جہاں اس نے اپنے بھائی کو قتل کردیا لیکن نادر شاہ نے اسے معاف کردیا، وہ کئی سفر اور مہمات میں نادر شاہ کے ساتھ رہا، احمد شاہ ابدالی کے تجربات نے اسے کندن بنادیا. نادر شاہ کے قتل کے بعد وہ بلوچستان آیا اور تخت پر براجمان ہوا. اس نے بلوچستان پر 45 سال حکومت کی یہ دور بلوچستان اور بلوچوں کے عروج کا دور تھا. اٹھارہویں صدی تک بلوچستان میں کئی ریاستوں کی تشکیل ہوئی یہ دور کنفیڈریشن کا عہد تھا جس کا مرکز قلات تھا. یہ کنفیڈریشن اتحاد اور جنگی کارروائیوں کی وجہ سے ممکن ہوئی.اسکی حکومت مغرب میں بمپور، جاسک، دیزگ ،شمال میں شال، شمال مشرق میں ڈیرہ غازی خان، داجل اور دھڑند جبکہ جنوب میں لسبیلہ اور کیچ تک تھی جبکہ کراچی کی بندرگاہ بھی اس کی ریاست کا حصہ تھی. یہ اپنے دور کا طاقتور حکمران تھا جس نے فوج تشکیل دی جسے دستہ سراوان، جھالاوان اور دستہ خاص کے نام سے جانا جاتا ہے. وہ ایک مذہبی شخص تھا جس نے اقدار اور عقیدے کی آمیزش اس طرح کی کہ اس کی حکومت برقرار رہے، اس نے مکران پر نو حملے کئے، مکران کے سربراہ دینار کو نماز نہ پڑھنے کی سزا پر سر قلم کرنے کی صورت میں دی، ذکریوں کو مارا. اس کے اقدامات کی وجہ سے ترکیہ نے اسے غازی دین اور ناصر ملت محمدیہ کے خطابات دئیے.

بلوچستان میں غلامی اور غلاموں کی تجارت عام تھی وہ محلات کے محافظ تھے، سفر میں ساتھ رہتے تھے. 1950 تک صاحب حیثیت گھرانوں میں غلام رکھنے کا رواج عام تھا. مصنف کہتے ہیں کہ مغل (چاکری عہد) سے پہلے بلوچوں میں غلام نہیں تھے کیونکہ وہ جنگی قیدی قتل کردیتے تھے.

اس نے ابدالی کی بالادستی سے نکل کر آزادی کا اعلان کیا اور تین دفعہ ابدالی کو شکست دیکر مذاکرات پر مجبور کیا لیکن معاہدہ کے مطابق ابدالی کی جنگوں میں نصیر خان نے اسکی مدد کی. اس کی ریاست میں درباری زبان فارسی جبکہ بلوچی عوامی زبان تھی جھنڈے کا رنگ اوپر کی طرف سرخ اور جنوب کا حصہ سبز تھا جو جنگ اور آزادی اور امن و انصاف کے نشان تھے. اس نے باقاعدہ کنفیڈرینسی کی شکل میں سیاسی نظام تشکیل دیکر پارلیمنٹ بنائی اپنے وطن کا نام بلوچستان رکھ کر آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے تسلیم کروایا.

نصیر خان کے دور میں بلوچ ریاست زراعت اور تجارت کے شعبے میں خوب ترقی کرتا گیا, بحر ہند کی کئی بندرگاہیں اور تجارتی راہییں قلات اور وہاں سے قندہار تک تھی، قلات بحر بند اور وسطی ایشیاء کے لئے ایک تجارتی مرکز تھا، سونمیانی کی بندرگاہ عالمی بندرگاہ کی حیثیت حاصل کرچکا تھا. اس نے شہر کی خوب صورتی پر توجہ دی شاہ ایران نے اسے شاہ بلوچستان کا خطاب دیا لیکن 1795 میں اسکی موت کے بعد فیوڈل ریاستوں کے ارتقا نے بلوچ ریاست کو شدید نقصان سے دو چار کیا کیونکہ فیوڈل ریاستوں کے حکمرانوں کی خواہش تھی کہ ان کا حصہ بڑھا کر خان کا کم کردیا جائے جبکہ کراچی بندرگاہ پر سندھ کے امیروں نے قبضہ کرلیا اور ٹیکس کی زیادتی اور دیگر وجوہات کی بناء پر تاجر دوسرے جگہوں کا رخ کرنے لگے اور یہ بلوچستان کے عروج کے بعد زوال کی نمودار نشانیاں تھی.

نصیر خان کے متعلق پوٹنگر 1810 میں کہتا ہے وہ ایک سپاہی اور حکمران کی حیثیت سے وہ تمام فرائض کے لئے ضروری خوبیوں کا غیر معمولی مجسم مجموعہ تھا، اسے دولت کی خواہش دانوں ڈول نہیں کرسکتی تھی. اس لیے اس نے اپنے خادموں زیادہ بہتر لائف اسٹائل نہیں گزارا اسے خزانے کی کوئی پرواہ نہیں تھی سوائے اس کے کہ اسکی رعیت کی حالت بہتر بنائی جائے۔ صفحہ نمبر 221 ایک اچھے رہنما، حکمران اور کمانڈر کی کامیابی استحکام اور ہر دلعزیزی کی اساس ہے. اس نے دور حکومت میں اندرونی و بیرونی قوتوں کے درمیان توازن برقرار رکھا جو اسکی کامیابیوں کو استحکام اور خوشحالی میں بدلنے کا موجب بنا صفحہ نمبر 222۔

اس کتاب کے مطالعے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ کتاب بلوچ طالب علموں کے علاوہ ہر اس طبقہ فکر کے لیے ضروری ہے کہ وہ بلوچ کی تاریخ کو جان سکے، بلوچ کے دور عروج اور جنگ سے بھرپور زندگی کا مطالعہ کرسکیں اور جان سکیں کہ اس دنیا کے قدیم بلوچ آج کس درد ناک زندگی سے گزر رہے ہیں اس کتاب میں آپکو ان چپقلشوں کی کہانی بھی دستیاب ہے جو بلوچ کو آج بھی بھگتنا پڑرہا ہے.

اس کتاب میں شاہ محمد مری کے سائنسدان، ایک سماجی کنسلٹنٹ، ایک تاریخ نویس، ایک قوم دوست، ایک مارکسٹ اور ایک ناول نگار کا کردار ادا کررہے ہیں ان کی مختلف کردار کی وجہ سے تاریخی کتاب کو داستان سمجھ کر پڑھنے کا مزا ہی کچھ اور ہے اور تاریخ کے بوریت سے بھرپور مضمون کو داستان کی شکل میں مطالعہ کرنے سے یہ کتاب آسان اور دلچسپ معلوم ہوئی.

لیکن اس کتاب کے مطالعے سے ذہن میں کچھ سوالات نے بھی جنم لیا. کیا بلوچوں کی ساری زندگی جنگ و جدل اور رزمیہ کہانیوں کے گرد گزری؟
کیا بلوچ صرف جنگجو تھے یہ صرف عشقیہ شعر و شاعری کے ماہر؟
کیا تاریخ میں بلوچ صرف بہادری اور مزاحمت کار اور پراکسی کے نام سے جانا جاتا ہے اسکے علاوہ بلوچ کی کیا پہچان ہے؟
بھارت اورچین اسکے علاوہ دنیا کے دیگر قدیم ممالک کی تاریخ میں جنگ و جدل کے علاوہ کئی علمی شخصیات اور علمی اداروں کا تذکرہ موجود ہے لیکن بلوچ کے پاس نہ کوئی ارسطو کنفیوش اور نہ ہی چانکیہ اور نہ ہی تعلیمی اداروں کا ذکر آخر کیوں؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں