بلوچ آزادی پسند رہنما اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن کی جانب سے بلوچوں کو مسلح جدوجہد سے دور رہنے کی تلقین پر ردعمل کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی کے بارے میں بلوچ قوم پرستوں کے خدشات وقت کے ساتھ ساتھ درست ثابت ہورہے ہیں کہ یہ جماعت پاکستانی فوج کی بی ٹیم ہے اور بلوچستان میں بنگلہ دیش والی تاریخ دہرانا چاہتی ہے۔ اب اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ یہ قوتیں پاکستانی فوج کی پالی ہوئی ہیں اور وہ انہی کے کہنے پر اپنا بیانیہ بناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے سب سے بھیانک کردار جماعت اسلامی نے ادا کیا تھا۔ جب بلوچستان کے سیکولر معاشرے میں جماعت اسلامی جڑ نہیں پکڑ سکی تو مولانا ہدایت الرحمن کو بلوچ لبادہ اوڑھا کر حق دو تحریک کے سیکولر روپ میں بطور مسیحا پیش کیا گیا تاکہ سادہ لوح بلوچ کے دل میں جماعت اسلامی کے لئے بالواسطہ جگہ بنائی جائے۔ یوں ہدایت الرحمن کو میدان میں اتارا گیا۔ چونکہ وہ ایک سیکولر انداز میں بلوچ کا درد بیان کر رہا تھا تو بہت سے حلقوں نے اس پر اعتبار کیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سیکولر بلوچ نعرے پس پشت چلے گئے اور جماعت اسلامی کا مذہبی انتہا پسندانہ اور عسکری بیانیہ سامنے آگیا۔ آج نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان سرعام بلوچ نوجوانوں سے کہہ رہے ہیں مسلح جدوجہد کسی مسئلے کا حل نہیں، نوجوان اس سے دور رہیں۔ ہم اسے یاد دلانا چاہتے ہیں کہ یہ جدوجہد سڑک اور نالیوں کی صفائی کیلئے نہیں بلکہ یہ ایک عظیم مقصد کیلئے ہو رہی ہے جس کیلئے بلوچ قوم کے ہزاروں فرزندوں نے قربانی دی ہے۔ یہ جماعت اسلامی یا دوسری پارلیمانی جماعتوں کی طرح مراعات یا بلدیاتی نظام میں سڑکوں کی صفائی کیلئے جانوں کا نذرانہ نہیں پیش کر رہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ کچھ بلوچ ”حق دو بلوچستان“ کے نام پر مولانا کے ساتھ ہیں لیکن اسے وہ اپنی اختیار اور حق تصور کرکے بلوچوں کو بندوق اُٹھانے اور مسلح جدوجہد سے دور رہنے کا سبق دینے سے پرہیز کریں۔ یہ بلوچوں کا بنیادی اور انسانی حق ہے کہ وہ اپنی آزادی کیلئے کسی بھی قسم کی جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔
بلوچ رہنما نے کہا کہ جماعت اسلامی کے بارے میں بلوچ کسی غلط فہمی کا شکار نہیں لیکن اس قدر جلدی جماعت اسلامی بلوچ کے مدمقابل آئے گا یہ ہمیں توقع نہیں تھا۔ اچھا ہوا کہ جماعت اسلامی بے صبری کا شکار ہوا۔ اب مزید بلوچ ان کے دام میں پھنسنے سے محفوظ رہیں گے۔ یہ لوگ ”الشمس“ اور ”البدر“ کی پیداوار ہیں۔ مولانا مودودی سے لیکر سراج الحق تک، سب ریاست کے پیدا کردہ پُرزے ہیں۔ ریاست انہیں ضرورت کے مطابق استعمال کرتی رہتی ہے۔ جس طرح ضیاالحق نے انہیں استعمال کیا، اسی طرح بعد میں مختلف اوقات میں مختلف حکومتوں نے انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کی ہے۔ بلوچ قوم کو ان کی دوغلی پالیسیوں کا ادراک ہونا چاہیئے۔ ان کااصل چہرہ لوگوں کے سامنے آشکار کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔