لہوِ محراب، تخمِ اسلم، گلِ یاسمین؛ فدائی شاری بلوچ ۔ ڈاکٹر ہیبتان بشیر

1958

لہوِ محراب، تخمِ اسلم، گلِ یاسمین؛ فدائی شاری بلوچ

تحریر: ڈاکٹر ہیبتان بشیر

دی بلوچستان پوسٹ 

شہید محراب خان کی لہو سے سرزمین بلوچستان کو جو زرخیزی نصیب ہوئی، اس سے تخمِ اسلم جنم لیتے ہیں اور ان بیجوں سے جو گُل کھلتے ہیں وہ گلِ یاسمین بن جاتے ہیں، اور ان گُلوں سے جو دائمی خوشبو چار سو بکھرتی ہے، وہ فدائی ریحان جان، فدائی عمر جان اور فدائی شاری بن کر ہر دل و روح کو نور بخش کر معطر کر دیتی ہے۔

شاری جز کی وحدت سے نکل کر مہر زمین کو خود میں پیوند کر کے اپنی تمام ذاتی ہستی، خواہشات اور تمناوں کو زائل کرکے ایک اجتماعی نور بن کر ہر بلوچ کے دل میں دھڑکنے لگی ہے۔

شاری! تیرے بعد جب میری نظر اپنے خونِ جگر پہ پڑی تو وہاں تیرے محبت سے سرشار دل کو تنہا پایا، روح کو جسم سے جدا پایا، بہاروں کو خزاں کی ویرانگی میں پایا۔ تنہا دل، روح کے بغیر جسم اور خزاں سے پُر لمحے اور کیفیات یوں مجھ پہ وارد ہوئے جیسے کوئی سمندر خشک پڑ گیا ہو۔ لیکن جو مہر زمین تم نے خود میں پیوست کرکے ، جس گلشن اور کھیت کی آبیاری کے لئے تم نے خود کو فدا کیا، اس گلشن سے آنے والے پھولوں کی مہک نے میرے وجود کو اتنا توانا اور تازہ بنادیا کہ میرے خزاں کو بہاروں کے پھول لگنے لگے ہیں، میرے خالی جسم اور روح میں تم سے انتہاء عشق نہیں بلکہ ابتدائے عشق کے تاریک چراغ پھر سے روشن ہورہے ہیں اور اس تنہا دل کے خشک چشموں سے پھر سے روانگی ِ بہار پھوٹ پڑی ہے اور میرا ایمان ہے ان سرچشموں کی منزل اس گلشن کے کھیت ہوں گے، جنکی آبیاری کے لئے تم فدا ہوئے۔

‏یہ غم جو اس رات نے دیا ہے
‏یہ غم سحر کا یقیں بنا ہے
‏یقین جو غم سے کریم تر ہے
‏سحر جو شب سے عظیم تر ہے
فیض احمد فیض

شاری تیرے اپنے مادر زمین اور اسکی آزادی کے لئے قربان ہونے کے بعد بہت سے لوگ تمہیں پاگل،نفسیاتی ، زندگی سے بیزار ، نابالغ، جذباتی، پتہ نہیں کیا سے کیا کہتے اور سمجھتے رہے۔ مجھے بھی ان لوگوں کی باتوں پہ یقین تھا لیکن فرق بس یہ تھا وہ یہ سب تمہیں جہالت اور شعور سے دوری کے وجہ سے ان القابات سے نواز رہے تھے اور میں تمہیں شعور کی اونچائی پہ دیکھ کر یہ سب مان رہا تھا۔ تم واقعی پاگل تھی، دیوانی تھی، اس کا خبر شاید مجھے بھی نہیں تھا۔ کیا یہ پاگل پن نہیں کہ اپنے دو معصوم سے بچوں ماؤ اور میرو کو ممتا سے بے دخل کرکے اپنی مرضی سے ایک ایسی جگہ پہ چلے جانا جہاں سے انسان کبھی بھی واپس لوٹ کر نہیں آتا؟ کیا یہ دیوانگی نہیں کہ اپنے بنے بنائے گھر، اپنے ابو جان، پیاری بہنوں اور بھائیوں غرض ہر رشتے اور ذاتی ہر خواہش کو دفن کرکے جان پہ بارود باندھ کر اپنے جسم کے ہر ذرے کو بارود کے شعلوں سے اڑا دو؟

واقعی یہ پاگل پن اور دیوانگی کی انتہا ہے لیکن اس پاگل پن اور دیوانگی کی وجہ تمہاری نفسیاتی طور پر بے توازن ذہن ، تمہاری امیچورٹی یا جذباتی پن نہیں بلکہ یہ تمہاری شعور کی انتہا تھی۔ وہ شعور جو دھوکہ بازی، مکاری، فریب ، جھوٹ اور بزدلی سے دور سچ اور صداقت کی سر بلندی ہے۔ وہ شعور اورآگہی جو غلامی ، لاعلمی ، تاریکی،ظلم اور نا انصافی سے انکار اور ایک آزاد قوم، قومیت اور آزاد قومی ریاست کی تشکیل کی چاہت ہے۔ وہ علم و زانت، جس نے تمہیں بامقصد بنا کر معمولی سے غیر معمولی بنا دیا۔ واقعی بامقصد زندگیاں غیرمعمولی انسانوں کے لئے ہیں، اور شاری تم انہیں غیر معمولی انسانوں میں سے ہو۔ یہ سچ ہے تم جسمانی طور پر ہمیشہ کے لئے ہم سے کٹ گئی ہو لیکن تم نے اپنے محکوم اور غلام قوم کے لئے ایک ایسی تاریخ رقم کرلی ہے کہ بلوچ قومی آزادی کی جہد اس کے بغیر نامکمل ہوگی۔ تم ایسی خیالات چھوڑ کر گئی، جس نے تمہیں ہر مظلوم بلوچ کا آئیڈیل ماڈل بنادیا۔ جس سے دشمن شکست خوردہ اور بہت ہی خوف زدہ ہے۔ قبضہ گیر دشمن کی یہی شکست اور خوف تمہاری سچائی کی دلیل ہے۔

کیا علم و شعور انسان کو اتنا بھی اندھا ، خود پرست مطلبی اور ذاتی زندگی میں غرق کرسکتا ہے کہ اسے اپنے قوم اور اپنی زمین پر غیروں کا قبضہ محسوس نہ ہو؟ بڑے بڑے ڈگری ہولڈرز ، بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگ اور خود کو بڑے بڑے دانشور کہنے والے کونسے علم و شعور اور زانت کے مطابق غیر کے قبضے کو صحیح اور اس قبضے کے خلاف لڑنے والوں کو غلط کہتے ہیں؟ یہ کونسی شعور ہے کہ دھوکہ ، فریب، لالچ ، مکاری ، نفرت، تعصب ظلم ، جبر ، ناانصافی سے پرُ قبضہ گیر کے سامنے خاموشی سے سر خم کرکے اسکے ہر ظلم و جبر کو اپنی بزدلی اور ذاتی آسائش اور مراعات کے لئے تسلیم کرو؟ اور اپنے دلوں روحوں،اور سوچوں میں حق اور سچائی لئے اس دھوکہ ، فریب، لالچ، مکاری ، نفرت، تعصب،ظلم و جبر اور قبضہ گیر ی کے خلاف اپنی قیمتی جانوں کی بھی پروا نہ کرنے والے جہد کار کو رد کرو؟

سنو! تمام بلوچ اسکالر، علم و زانت کے ڈگری لینے والے ڈاکٹروں، فنکاروں، زندگی کے معنی ڈھونڈنے والے فلاسفرو اور سچائی کے متلاشیوں، غرض بلوچ کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے علم و شعور رکھنے والے لوگوں، اگر تمہارے دل ، دماغ اور روحوں میں غلامی اور آزادی، ظالم اور مظلوم، تاریکی اور روشنی میں فرق نہ ہو ، اور غلامی، ظالم اور تاریکی کے لئے نفرت اور آزادی، مظلوم اور روشنی کی لئے محبت نہ ہو تو تمہارا سارا علم ایک دھوکہ و فریب کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

تم سے اس شپانک کی علم ، زانت، شعور اور آگہی زیادہ بہتر ہے جو بلوچ قومی آزادی کے لئے اپنے دل میں یقین اور امید رکھتا ہو۔ علم ، شعور اور آگہی عمل کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ جہاں شعور اور آگہی ہوگی وہاں لازم یقین ، امید ،عمل اور ظلم و ناانصافی کے خلاف بغاوت ہوگی۔ امید، یقین اور عمل کے بغیر شعور اور آگہی بس لفاظی ہے، اسی لئے بے عمل لوگ بس اپنی ذات اور ذاتیات تک محدود ہوں گے، انکی نظر پسند اور نا پسند تک محدود ہوگی، انکی سوچوں کی حد ایک اجتماعی سوچ اور اجتماعی بقاء کے بجائے بس اپنی ذات تک منجمد ہوگی۔ وہ وقتی آزمائشوں،مصیبتوں،تکالیف اور ذات کے مٹ جانے کے خوف سے ڈر کر اپنی قومی بتاریخ، اپنی اسل ارتقائی شعور اور آگہی، اپنی قومی پہچان اور ثقافتی اور تہذہبی ترقی کو پس پشت ڈال کر اپنے اور اپنے آنے والی نسلوں کے لئے دائمی غلامی کو قبول کر لیتے ہیں۔ جو میرے نزدیک کسی بھی انسانی زندگی کی انتہائی نچلی سطح ہے، جو کیڑے مکوڑوں کی زندگی سے بھی بد تر ہے۔

یہ بات اور احساس ایک باعمل شعور والے انسان کے لئے کتنا تکلیف دہ ہوگا کہ تم میں سے کوئی ایسے قبضہ گیر ریاست سے امید لگا بیٹھے کہ جس کی بنیاد سازش پہ ہو، جسکا ایمان دھوکے پہ ہو اور اس میں ہر طرح کے فریب، مکاری، جھوٹ اور گندگی موجود ہو۔اس قبضہ گیر ریاست کے ہر ادارے، سیاست اور معاشرے کے ہر طبقاتی گروہ کو دیکھیں جہاں تمہیں دھوکہ ، فریب،ظلم ، نا انصافی ، جھوٹ میرٹ کی پامالی، شدت پسندی، ذاتی پسند نا پسند، جبر ہر طرف نظر دوڑائیں تمہیں گندگی اور گند نظر آئے گی۔

تم اس فریب ، دھوکہ اور گندگی کی بنیاد پر کون سے منطق اور دلائل سے کہوں گے کہ آنے والے وقت میں تم اور تمہاری قوم پر بہتر وقت آئیں گے؟ تمہاری قومی پہچان اور تمہاری قومی بستار باقی رہے گی؟ تم بھی علم ،شعور و آگہی اور سائنس و انسانیت کی خدمت کرسکو گے۔

کسی بھی ذی شعور انسان میں ذرہ برابر بھی شعور ہو وہ خود کو اس فریب کے پردوں کے پیچھے پناہ نہیں دیتا ، وہ ان وقتی چند سانسوں کی خاطر اپنی پوری قوم کے لئے دائمی غلامی کو قبول نہیں کرتا۔

انسانی شعور اور اسکی حقیقی سطحِ عقل ہر وقت غلامی، جبر اور ظلم کے خلاف ہر سطح پر بغاوت کرتی ہے۔ اسی لئے اپنی سوچوں،خیالوں اور اپنے شعور کو درست سمت دے کر، اس جابر اور ظالم قبضہ گیر کو اپنے پاک سرزمین اور اس کے نوآبادیاتی اثرات کو اپنے وجود سے مٹانے کے لئے با عمل ہوکر یقین اور امید کے ساتھ آگے بڑھکر اور آزادی اور انقلاب ہم سے جو بھی تقاضات کریں ہمیں ان پر پورا اترنا ہے۔ ہمارا مقصد بس جنگ نہیں بلکہ وہ انقلاب ہے جہاں ایک آزاد قوم جبر ظلم، نابرابری ناانصافی ، شدت پسندی ، دہشت،خوف ،طبقات ا ور غلامی سے آزاد ہوکر علم و شعور سے پُر ہوکر اپنی قوم اور پوری انسانیت کے لئے اپنا انسانی کردار ادا کرسکے۔

ہماری یہ جنگ جائز اور برحق جنگ ہے، ہم بلاجواز کسی بھی ناحق کو قتل کرنے کے خلاف ہیں، اور بس جنگ برائے جنگ کے فلسفے پہ عمل پیرا نہیں، ہم زندگی اور اس کے رنگینوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، اور ہر انسانی زندگی کی قدر کرتے ہیں۔ ہم علم ، شعور، آگہی ،منطق اور دلائل کے حامی ہیں۔ یہ ہماری خواہش ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں فلسفہ، نفسیات، آرٹ، موسیقی ، ادب، سائنس اور ٹیکنالوجی غرض ہر جدید علم سے آگاہ اور باقی ترقی یافتہ قوموں کی طرح ان میدانوں میں باعمل ہوں۔ لیکن قبضہ گیر پاکستان جو 75 سالوں سے ہماری قومی، ثقافتی تہذیبی ، اور علمی شعور اور ارتقاء کو منجمد کرکے، نوآبادتی حربوں سے ہماری سوچوں ، تخلیقی صلاحیتوں اور انسانی وقار کو ختم کرکے ظلم و جبر کے آخری حدوں کو پار کرچکا ہے اور ہماری قومی اور انسانی بقاء کو بزور طاقت خطرے میں ڈال کر ہم کو نیست و نابود کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے ، اور ان منصبوں کو مکمل کرنے کے لئے ہمارے ساتھ ایسی ظلم و جبر کی تاریخ رقم کرچکی ہے جو شاید ہی تاریخ میں کسی قوم کو زیر کرنے کے لئے کیا گیا ہو اور اسکے ساتھ اب عالمی سامراج چائینا بزور طاقت اور ناجائز طریقوں ،حربوں اور سازشوں سے ہماری قومی اور انسانی بقاء ختم کرنے کے لئے اور اپنی قومی طاقت اور معشیت کو مضبوط کرنے کے لئے قبضہ گیر پاکستان کے ساتھ برابر اس جرم میں شریک ہوچکی ہے۔

عالمی سامراجی طاقت چین اور قابض پاکستان کا راستہ روکنے کے لئے بلوچ قوم کے باشعور لوگ بھی اپنی جائز آزادی اور بقاء کے لئے قربانی کے آخری حدوں تک جانے کو تیار ہوگئے ہیں، جہاں وہ اپنی قومی آزادی، اپنے پاک زمین کی حفاظت اور قومی بقاء کے لئے خود مرگ کا انتخاب کرچکے ہیں۔

آج ہمارا یہ انتخاب مرگ اس انقلاب کے لئے ہے جہاں تاریکی کو روشنی نصیب ہوگی، جہاں ظالم کو شکست اور محکوم اور مظلوم کو آزادی اور برابری ملے گی۔ جہاں طبقات اور زیادتی سے پاک معاشرے کی تشکیل ہوگی۔ جہاں ہر ابھرتے سورج کی ابتدا مسرتوں ے پُر نغموں سے ہوگی، ہر ڈوبتے سورج کا انتقام امن اور شانتی سے ہوگی۔ ہر انسانی وجود علم و آگہی سے پرُ، اور اسکا رہنما محبت ہوگی۔ ہر نکلتی ہوئی سانس آزادی کا احساس دلائے گی اور ہر اندر جاتی ہوئی سانس سے انسانی وجود میں رقص ہوگی۔ ہر وجود آزاد، ہر سانس آزاد۔۔۔

اسی لئے یہ مرحلے دکھ، افسوس پشیممانی ، تھکاوٹ اور رکنے کے نہیں ہیں، بلکہ یہ مرحلے ہمت جرت اور حوصلوں کو اور باہمت کرنے کے ہیں۔ اپنے دل اور روح کو ایسی طاقت بخشنے کے ہیں کہ کائنات کی ہر طاقت تمہاری طاقت ہمت، یقین ،حوصلہ اور دلیری پہ ناز کرے۔ میرا ایمان ہے بلوچ کا یہ جہد، حق اور سچائی کی جہد ہے ، ہر لحاظ سے جائز اور برحق جہد ہے۔ اس حق اور سچائی کی جہد میں جو بھی قربانیاں ہمارے حصے میں آئیں، ہمیں ہمت ، جرت اور دل و روح کے خوش اور حسین نغموں کے ساتھ ان کا استقبال کرنا ہے۔ اگر اپنی ذات کو کیسی عظیم مقصد کے لئے قربان کرنے سے کوئی مرتا تو آج سقراط زہر کا پیالہ پی کر امر نہیں رہتا، حضرت ابراہییم آگ میں گر کر بس راکھ بن جاتی، حضرت امام حسین شہادت کے بعد داستانوں میں گمنام ہوتے، حضرت عیسی صلیب پہ بس ایک ڈھانچہ بن جاتے، چے بولیویا کے جنگلوں میں گمنام دفن ہوتے، خان محراب خان آج ہماری یاداشتوں میں نہیں ہوتے۔ حق ، سچائی اور جائز حق کے لئے قربان ہونے والے زندہ اور حق اور سچائی سے ڈرنے والے مردوں میں بھی شمار نہیں ہوتے ہیں۔ حق اور صداقت کی سربلندی کے لئے خود کو عظیم مقصد کے لے قربان کرنا ،عظیم انسانوں کا ہی کام ہوتا ہے۔بس تمہیں اب اس عظیم مقصد کے لئے اپنے سوچوں ، خیالوں اور عمل کو عظیم بنانا ہے۔ میرا ایمان ہے جو سرچشمے جانبِ سمندر ہیں وہ منزل پر ہی پہنچ کر خود سمندر بن جائیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں