لالا فہیم بلوچ کتاب کی اہمیت کو جانتا تھا ۔ عبدالواجد بلوچ

409

لالا فہیم بلوچ کتاب کی اہمیت کو جانتا تھا

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قلم کو تلوار سے زیادہ طاقت ور قرار دیا گیا ہے. ایک انگریز دانشور کا تاریخی جملہ ’’The Pen is Mightier Than Swordُُُُ‘‘ کسی فلم کا مشہور ڈائیلاگ ہے جو دنیا بھر میں معروف ہے کہ

‏’’True This!Beneath the rule if Men Entirely Great The Pen Is Mightier Than Sword,Behold The arch Enchanters Wand Its Self is Nothing!Take away The Sword State Can be saved Without it”

قلم سے تحریر کئے ہوئے الفاظ ابدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں جبکہ تقریر اور بیان میں کیے جانے والے الفاظ ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تحریری اعتبار سے آپ کسی کی تعریف یا تنقید کریں تو انتہائی محتاط انداز میں الفاظ کا انتخاب کیجئے کیونکہ آپ کی تحریر محققین اور آئندہ آنے والے افراد کے لئے ایک حوالے کی حیثیت رکھتی ہیں.اس میں دو رائے نہیں کہ قلم اور کتاب کی اہمیت سے دنیا آسمانوں میں کمندیں لگا رہا ہے کتاب اور قلم کا انسان سے رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود انسانی تہذیب و تمدن کا سفر اور علم و آگاہی کی تاریخ’کتاب و قلم ہی ہے جس نے ستاروں پر کمندیں ڈالنے،سمندروں کی تہیں کھنگالنے اور پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کا شوق انسان کے رگ و پے میں خون کی طرح شامل کیا ہے،لیکن کیا کریں ہم جس دیس میں رہتے ہیں وہاں کے معمورانِ دیس کو کتابوں اور قلم کی اہمیت کا نا تو اندازہ ہے اور نا ہی ان کا کتابوں سے واسطہ پڑا ہے ان کا تو رشتہ ہمیشہ کشت و خون بندوق کی گھن گھناہٹ سے تھا اسی لئے ان کو ہر چیز کی اہمیت انہی چیزوں میں دکھائی دیتی ہے. دنیا میں کتابوں سے محبت کرنے والوں نے ترقی کے منازل طے کئے ہیں اور اب آسمان پر زندگی کی راز تلاش رہے ہیں لیکن ہمارے سماج کے کتاب دوست ہستیوں کو جیل کی کال کوٹریاں اور عقوبت خانوں میں اذیتیں دے کر ہمارے معمورانِ وطن سکون حاصل کرتے ہیں.

یقیناََ لالافہیم بلوچ اس ملک کے ان دہشت گردوں میں شامل ہے جنہوں نے کتاب سے محبت اور قلم سے پیار کرنے کا درس عام کیا تھا، لالا جیسے انسانوں کی سزا تو یہی ہے کہ انہیں کال کوٹریوں میں ڈالا جائے کہ وہاں وہ ان تکالیف کو سہیں کہ جس سے انہوں نے دوسروں کی تکالیف دور کرنے کی کوشش کی تھی.

لالا فہیم اندھے سماج میں چراغ لیکر لوگوں کو شعور دینے کی غلطی تو کرچکا تھا لیکن یاد رکھیں کتاب سے نفرت کرنے والی قوتیں کتاب دوستوں کو طویل دورانیہ میں اپنے پاس رکھ ہی نہیں سکتے کیونکہ جنہوں نے لالا کو کال کوٹریوں میں ڈالا ہے وہ خود انہیں زیادہ دیر تک ان تنگ و تاریک قید خانوں میں نہیں رکھ سکتے کیونکہ کتاب اور قلم کے شیدائیوں نے دنیا کو ہمیشہ پیار سے جیتا ہے قلم کی جنبش اور کتاب کی اہمیت ہی ان کو واپس لے آئیں گے، جن سے دنز و دھول میں پڑی ہوئی کتابوں کو رونق مل جاتی تھی،ریگل چوک و اردو بازار کے دھواں سے لپٹی اور کیڑوں کی کھائی ہوئی ان بوسیدہ کتابوں کے ان اوراق کی نکلی دعائیں لالا کو واپس لے آئیں گی جن کو وہ چانٹتا تھا انہیں پڑھتا تھا اور دوسروں کو ان کتابوں سے دوستی کرنے کا ہنر سکھاتا تھا،

مجھے یقین ہے اگر انسان مرگئے ہیں تو کیا ہوا؟ اگر ان لوگوں کی ضمیر سوچکی ہے جو چپ سادھے ہوئے ہیں تو کیا غم ،کراچی سمیت بلوچستان کے ماہناموں رسالوں،شعراء کی شاعری ،ادیبوں کے نقاد سے بھری تحریریں سفید اوراق پر ڈالی گئی ان سیاہیوں کے رنگ لالا فہیم اور ان کے غمزدہ فیملی کے ساتھ ہیں کہ تا ابد حیات رہنے والی وہ تحریریں ،وہ شاعری،وہ نقاد سے بھری مکالمے اپنے ملنگ لالا کے لئے صدائیں بلند کریں گے جن کی جنبش ان قید خانوں میں معمور چوکیداروں کی نیندیں حرام کردیں گی.

لاال کو دنیا جانتی ہے لیکن اس دیس کے معموران کو چنداں غلطی ہوئی انہیں پہچاننے میں کہ انسانیت کا درس دینے،کتابوں سے محبت کرنے اور قلم سے پیار کرنے والے انسان کو مہذب دنیا پوجتی ہے نا کہ انہیں تنگ و تاریک قید خانوں کے نزر کیا جاتا ہے،

لیکن کیا کریں انگھوٹا چھاپ ایک چوکیدار کو کیا معلوم کہ کتاب کی کیا اہمیت ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں