شہادتیں آفریں آفریں، بے گواہوں کی جدائی الاماں الاماں ۔ شفیق الرحمٰن ساسولی

491

شہادتیں آفریں آفریں، بے گواہوں کی جدائی الاماں الاماں

تحریر: شفیق الرحمٰن ساسولی

دی بلوچستان پوسٹ

آج ایک شہید کی باہمت فرزند سے بات ہوئی۔ اس شہید کی جدّوجہد کا محور اس دھرتی کی بزّگ مخلوق اور یہی بلوچ وطن رہا۔ میری پہلی ملاقات اس عظیم شہید سے 2012 میں کسی عید کے موقع پر ہوئی تھی۔ بارش و برسات کا موسم تھا، بارش کی وجہ سے رات انہی کے ہاں ٹہرے۔ اس ملاقات میں بلوچستان کے ماضی حال اور مستقبل کے متعلق میرے سوال کے جواب میں ان کی تفصیلی کچہری کو یاد کرتا ہوں تو عظیم بلوچستان کے بے کس ولاچار عوام اور بےگواہ فرزندوں کیلئے میری نم آلود آنکھوں میں شہداء کے شہادتوں کا سفر ایک خواب کی مانند مجھے ایک عجیب انجانی خوشی اور پُرلطف میٹھے درد میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ جسے میں ہمیشہ بلوچ وطن کےلئے قربان ہونے والے تمام شہداء کیلئے محسوس تو ہر لمحہ کرتا ہوں مگر بیان نہیں کر سکتا۔

آج بڑی سی تمناہیکہ میں ایک ادنیٰ سٰی کوشش کروں۔ آج میں اس عظیم ترین بلوچ مٹی کی باتیں کروں جس میں شہیدوں کے خون کی خوشبو شامل ہے۔ ان دلوں کی باتیں کروں جن میں ان عظیم تر شہیدوں کی یادیں بستی ہیں۔ ان آنکھوں کی باتیں کروں جن میں آنسو نہ رکتے ہوں نہ بہتے ہوں۔ ان دریچوں کی باتیں کروں جو اپنے بے گواہوں کے انتظار میں کبھی بند نہیں ہوتے۔ ان ماؤں ‘ بہنوں‘ بیٹیوں اور والدین کی باتیں کروں جن کے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کی دھڑکن اپنی دھرتی ماں کی عزت پر قربان ہوگئے اور شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔

آؤ ان شہیدوں کو سلام کریں ‘ آؤ ان شہیدوں کو یاد کریں۔ آؤ یہ یاد کریں کہ ان شہیدوں کا خون اس قوم پر کیا قرض چھوڑ گیا؟ آؤ آج یہ بھی دیکھیں کہ بلوچ وطن کو ہمیں عطاء کرنے والے خداءِ برتر نے ان ہی شہیدوں کو اس مرتبے کے لئے کیوں چُنا؟

شہادت تو نصیب والوں کو ملتی ہے اور یہ لوگ چُنے جاتے ہیں اور ان کے ناموں پر نشان عرشِ معلّٰی پر لگتے ہیں اور وہیں پر ہی کہیں ان کے دلوں میں بھی شوقِ شہادت کا بیج رکھ دیا جاتا ہے۔ جو کہ زندگی کے سالوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا رہتا ہے اور موقع ملتے ہی وہ ایک خوبصورت پھول کا روپ دھار کر اپنی خوشبو اپنی سرزمین پر نچھاور کرجاتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے امید اور جذبے کی روشن مثال بنتے ہیں۔ نوری نصیرخان بلوچ کا وطن اپنے قیام سے لے کر آج تک لاکھوں ان جیسے پھولوں کا آنگن ہے۔

بلوچ دھرتی کے آنگن میں شانِ الہٰی سے پھول بھی کھلتے ہیں کانٹے بھی اُگتے ہیں۔ (کانٹوں کے ظلم کی داستان پھر کبھی بیان کریں گے) پھولوں کی بات کی جائے تو دل کش اور خوشنما پھول‘ اپنی شوخی‘ اپنی پروان کے ہر اُبھرتے سال کے ساتھ ساتھ پھولوں کے رنگوں میں عجیب کشش بھی ہوتی ہے۔ جو دیکھے وہ کھنچے چلے آئے۔ وطن پہ قربانی کیلئے تیار بلوچ زادوں کو دیکھ کر دوسرے کہتے ہیں کیا بات ہے۔ ذرا ان کی چال دیکھو‘ کچھ کہتے ہیں ذرا ان کی اٹھان دیکھو‘ کچھ کم فہم یہ سمجھتے کہ ناسمجھی ہے غرور ہے مگر ان کے دل میں بویا ہوا وہ بیج ہم نہیں دیکھ پاتے۔

کچھ کو پتہ نہیں چلتاکہ یہ کس راستے کے مسافر ہیں۔شہیدوں کے راستے متعین ہوتے ہیں۔ ان کی منزلیں مقرر ہوتی ہیں۔

کچھ پھولوں کا پتہ نہیں چلتاکہ ایک باپ کے اولاد ہونے سے لیکر وطن کیلئے قربان ہونے والے مضبوط سوچ کے حامل وطن زاد میں ڈھل چکے ہوتے ہیں۔ ان کے بچپن کا تجسس انہیں عملی شکل میں کب نظر آنا شروع ہوتاہے یہ بہت سے غُلام اور آرام پسندوں کو کبھی پتہ ہی نہیں چلتا۔ مگر ان کی سوچ اور عمل میں ایک نڈر خون اور دشمن کی جانب سے اپنوں پر اذیتیں شامل ہوتی ہیں۔ جو انہیں ایک دلیر بےخوف اور نڈر لیڈر بنا دیتا ہے۔ میں اس طرح کے وطن زادوں کو کسی فرد کا بیٹا یا رشتہ دار ہونے سے زیادہ اسے وطن کے ایک پُراعتماد اور پُرعزم فرزند کی نظر سے دیکھتاہوں جن کی آنکھوں میں اور دل میں اپنے دھرتی اور دھرتی واسیوں کے لئے کچھ عظیم کام کر گزرنے کی آرزو جنم لے چکی ہوتی ہے۔ اور وطن کے وہی پھول جن کو دشمن ہم سے جداء کرتی/ کرواتی ہے اور افسوس کہ ہم ان میں سے کئیوں کے نام لینے پر غدّار بھی ٹہرائے جاتے ہیں۔

مگر شہادتیں تمہیں آفریں آفریں، بے گواہوں کی جدائی الاماں الاماں۔ شہداءِ بلوچ تو اپنی منزل تو پاتے ہیں مگر بلوچ قوم ان کی شہادت کا حساب اور باقی بے گواہ فرزندوں کی بازیابی کا مطالبہ کرتی ہے۔

بلوچ قوم اپنی قومی حیثیت سے غافل لیڈروں سے بھی سوال کرتی ہیکہ تم نے بلوچیت کی کیا پاسداری کی؟ کیا تم نے علاقائی ‘گروہی‘ قبائلی اور فرقہ پرستی کی لعنت سے آزاد ہو کر صرف بلوچیت اور بلوچستان کو اپنایا؟ کیا تم نے اپنے دھرتی کی عزت کو اپنے خاندان اور عزت پر فضلیت دی؟ کیا تم نے اپنی حکومتوں میں انصاف اور میرٹ کو اپنایا؟ کیا تم نے کنبہ پروری کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا؟ کیا تمہاری حکومتوں نے رفاہِ عامہ کے کام قومی فرائض سمجھ کر کئے؟ کیا رشوت اور سفارش کی لعنت سے اپنی معیشت و معاشرے کو صاف کیا؟ کیا تم نے ان ہزاروں بیٹوں‘ بیٹیوں‘ ماؤں‘ بہنوں کے سروں پر ہاتھ رکھا‘ جن کے مردوں نے اپنی زندگیوں کی متاع اس قوم پر قربان کر دی؟ کیا غربت کی بھٹیوں میں بستے ہوئے اپنے غریب بلوچ خاندانوں کی خوشحال زندگی بسانے کی آرزو کو کسی حد تک پورا کیا؟ کیا تم کبھی بلوچ شہداء و بےگواہوں کے گھر کوئی تحفہ لے کرگئے یا ابھی بھی اپنے بینک اکاؤنٹ بھاری کئے جا رہے ہیں؟ اور کیا چوری چکاری‘ لوٹ مار‘ قتل و غارت‘ رشوت ستانی‘ جھوٹ‘ مکاّری اور بدامنی سے معاشرے کو پاک کیا یا پاک کرنے کی ایماندارانہ کوشش کی؟

نہیں نہیں بالکل بھی نہیں!

قارئین! اسی اگست کے مہینے کی تیرہ تاریخ کو دشمن کی بربریت کا نشانہ بننے والا شہیدحیات بلوچ پُرشباب چہرہ‘ وہی مسکراہٹ ‘ وہی شوخی ‘ بس جھلک دکھاگیا۔ ایک ہفتہ پہلے خواب میں کہہ رہا تھاکہ کیا ہمیں یاد کرنے پر خوف کی آوازیں آتی ہیں؟ جب اپنوں کی درد لکھتے ہوتو ” شوکاک ہولِرہ” (لومڑیاں آوازیں کستی ہیں)؟ اور کہاکہ ہمیں شہید لکھتے ہوتو کیا کچھ لوگ حقارت بھرے جملے کستے ہیں؟ سوتے ہوئے مٙیں پسینے سے شرابور اُٹھ بیٹھا۔ بے ساختہ میری آنکھ بھرآئے اور شہید بانک کریمہ بلوچ، شہیدحیات بلوچ و دیگر شہیدوں سے معافی مانگی۔ انہیں اپنے تئیں یقین دلایا کہ شہیدو تمہیں عظیم بلوچ وطن نے چنا ہے۔ کسی کی چاہت سے یہ رتبہ نہ ملتا ہے کسی کی حقارت بھرے جملے کسنے سے نہ چھینا جاتا ہے۔

” ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدروقیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر”

یہ وطن تم شہیدوں اور وطن پہ ہمہ وقت قربان ہونے کے لئے تیار رہنے والوں کی وجہ سے قائم ہے۔ اور انشاء اﷲ قیامت تک قائم و دائم رہے گا۔ بلوچ قوم ہر لمحے‘ ہر موقعے پر شہدائے بلوچ کو سرخ سلام پیش کرتی ہے اور آپ سب شہیدوں کے خون کی قسم کہ ہمیں امید ہیکہ یہ مظلوم سرزمین ایک نہ ایک دن اپنے تمام اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی ناپاک سازشوں سے پاک ہوکر رہیگی۔

وطن کے شہیدو! ہمیں تم پہ فخر اور اپنے بےگواہوں کے بازیابی کا انتظار ہے۔ ہماری مائیں تمہارے منتظر رہتی ہیں اور ہم سے پوچھتی ہیں کہ ہمارے بیٹے کب بازیاب ہونگے؟ شہداء کے برسیوں کے موقع پر ہم سے پوچھتے ہیں کہ آج شہداء تم سے ملیں گے نہ تو ان سے کہناکہ ہمیں تم پہ فخر ہے اور تمہارے زندہ بےگواہ بھائیوں کے بازیابی کا شدّت سے انتظار ہے۔

” شہیدوں کے لہو سے حُریت کے دیپ جلتے ہیں
انہیں کے فیض سے ہم بھی سر اونچا کر کے چلتے ہیں”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں