سلگتا بلوچستان ۔ ترانگ بلوچ

242

سلگتا بلوچستان

تحریر: ترانگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج میرا موضوع سر زمین بلوچستان پر ہے، جس کے فرزند روز مصائب اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، مسلسل درد اور تکالیف میں مبتلا ہیں، بلوچستان کے کونے کونے میں کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقع رونما ہو رہا ہے، آئے روز بلوچ فرزندوں کو لاپتہ کرنا، انہیں زندانوں میں بند کرکے انہیں طرح طرح کی ازیتیں دینے کے بعد مسخ کرکے انکی لاشوں کو پھینکنا معمول کی باتیں بن چکی ہیں۔

ان تمام غیر انسانی اور ناروا سلوک اور جبر واستبداد کے خلاف روڈوں اور چوراہوں پر آواز اٹھانے والی ہماری ماؤں اور بہنوں کو گھسیٹ کر انہیں یرغمال بنانا کہاں کا انصاف ہے؟

یہ بوسیدہ نظام جہاں نہ کوئی عدالت ہے اور نہ کوئی قانون، سارا نظام اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت چند چودھریوں اور حکمرانوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، دراصل نوآبادیاتی نظام کو قائم رکھنے اور انہیں مستحکم کرنے کیلئے نو آبادی اور محکوم لوگوں پر جبر و تشدد ایک لازمی جز ہے جنکے بغیر نوآبادیاتی نظام کو قائم کرنا ممکن نہیں۔ بلوچ سر زمین پنجاب کا ایک کالونی ہے جنکو بزور طاقت قبضہ کرکے پاکستانی فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہاکستانی فوج اپنے سامراجی ہتھکنڈوں کے زریعے روزانہ کے بنیاد پر بلوچ نوجوانوں کو زندانوں کی تاریک سلاخوں کے پیچھے بند کر رہا ہے۔

یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ سامراجی قوت اور کالونائزر کی کوئی عدالت نہیں ہوتی انکا سارا نظام طاقت اور جبر کے بل بوتے پر چلتا ہے، ایک جمہوری ملک میں عدالت عالیہ سب سے بالاتر ہوتا ہے جہاں اگر کسی سے کوئی جرم سرزد ہوجاتی ہے تو انہیں عدالت کے سامنے پیش کرکے جرم کے مطابق انہیں سزا دیا جاتا ہے، لیکن سامراجی ریاست میں سارا نظام حقائق کے برعکس ہے، کیونکہ مجرم تو ریاستی ادارے اور فوج خود ہیں، وہ اپنی غیر فطری ساخت کو قائم کرنے کیلئے لوگوں کو لاپتہ کرکے انکی آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں، جسطرح پاکستانی فوج نے آج بلوچستان کو ایک کالونی بنایا ہے، وہاں روزانہ فوج آپریشن، نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ پورے بلوچ سرزمین آگ میں سلگ رہا ہے۔

پارلیمانی پارٹیاں بلوچ قوم کو دھوکہ دینے کیلئے روز جھوٹے دعوے کر کے بلوچ قوم کو جھوٹی تسلیاں دے کر ہمدردی حاصل کرنے کے بعد اپنے ووٹ بینک کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ لاپتہ فرزندوں کے لواحقین کے ساتھ دھوکہ دہی ، فریب اور مکّاری کیا جارہا ہے، لیکن آج تک انہوں نے اپنے وعدوں پر عملدار آمد نہیں کیا ہے، ماما قدیر بلوچ جو کئی سالوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے جدوجہد کر رہا ہے، جنہوں نے کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک طویل لانگ مارچ کی لیکن مقتدرہ قوتوں کی طرف سے کوئی خاص اور اہم پیشرفت سامنے نہیں آیا اسکے برعکس معاملہ بگڑتا جارہا ہے، بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، یہاں تک کہ اب بلوچ عورتیں بھی قابض فوج کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔

ڈاکٹر مالک اور انکی کمپنی تو روز اوّل سے واضح طور پر اسٹیبلشمنت اور مقتدرہ قوتوں کے ہاتھوں واضح طور پر استعمال ہو رہا ہے لیکن اختر مینگل جوخود کو بظاہر قوم پرست سمجھ کر ڈرامہ بازی کرکے ڈرامائی انداز میں بلوچ قوم کو دھوکہ دے کر سامراجی آلہ کار کے طور پر انکی بنیادوں کو مضبوط کر رہا ہے۔ کبھی پانچ اور کبھی چھ نکات کے نام پر حسب ضرورت بلوچ قوم کو دھوکہ دے کر سامراج کی زنجیروں کو مضبوط بنا رہا ہے، آج تک نہ کوئی نکات پر عملدرآمد کیا گیا اور نہ ہی کوئی بلوچ فرزند کو بازیاب کیا گیا، ہاں ایک اسکرپٹڈ ڈرامے کو ضرور پیش کرکے ایک فرزند کو بازیاب اور دیگر پانچ کو لاپتہ کرکے “شکریہ اختر مینگل” کا ڈرامہ رچایا گیا اور لوگوں سے ہمدردی حاصل کرنے کیلئے ووٹ بینک کو کچھ حدتک برابر کیا گیا، اختر مینگل کو جب بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کرنے کیلئے بلوچ قوم کا ہمدرد بن کر لاپتہ افراد، بلوچ قومی وسائل، جیسے ڈرامہ بازی کرتی ہے جب انہیں کچھ ارب روپے دیئے جاتے ہیں تو وہ اسطرح خاموش ہو جاتا ہے جیسا کہ بلوچستان میں کچھ غیر معمولی واقع نہیں ہو رہا، ہر چیز معمول کے مطابق چل رہی ہو۔

بلوچ ماؤں اور بہنوں کی آنسوؤں کا سودہ لگانے والے اختر مینگل جنکو قوم کچھ حد تک بلوچ قوم کا ہمدرد سمجھتے تھے وہ اب ہیرو سے زیرو تک پہنچ گیا کیونکہ منافق اور مکاروں کو قوم کبھی قبول نہیں کرتی، آج کل قوم ان ڈرامہ بازوں کو اچھے طریقے سے جانتی ہے۔ اختر اور مالک سے کوئی گلہ نہیں۔
کرنل لئیق نامی شخص کو بلوچ قومی عدالت نے بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن، بلوچ نوجوانوں کو اغوا کرنے اور انکی مسخ شدہ لاشوں کو پھینکنے کی پاداش میں جرم عائد ہونے کے بعد جب انہیں ہلاک کیا تو ریاستی فوج نے اپنی ناکامی کو چھپانے کی خاطر مغوی بلوچ فرزندوں کو فیک انکاؤنٹر کے زریعے بے دردی سے انہیں شہید کیا، انکے لواحقین کا وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے عہدیداروں کے ہمراہ کئی دنوں سے کوئٹہ ریڈ زون میں دھرنا دے کر انصاف مانگ رہے ہیں، انکے ساتھ یکجہتی کیلئے لاپتہ افراد کا نعرہ لگانے والے ایکٹر اختر مینگل نے نہ کبھی کیمپ کا دورہ کیا اور نہ ہی اس غیر انسانی عمل کی مزمت کی۔ بلکہ زیارت آپریشن میں مرکزی کردار جنرل سرفراز کو مارنے میں اظہار افسوس کرکے پنجاب دوستی کا واضح ثبوت پیش کیا۔

بلوچ قوم کے ساتھ آج بدترین غیر انسانی سلوک کیا جارہا ہے، اس غیر فطری ریاست اور انکے عدلیہ سے کوئی امید نہیں، لاپتہ دین جان کی بیٹی سمی بلوچ، لاپتہ رہنما زاکر مجید کی ماں، لاپتہ رہنما شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کئی سالوں سے روڑوں پر دربدر ہیں، انصاف کے طلبگار ہیں، لیکن ان لواحقین کو انصاف دینے کے بجائے مسلسل فوج آپریشنز، بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لاپتہ افراد کو فیک انکاؤنٹر کے زریعے شہید کیا جارہا ہے، اس صورتحال میں بلوچ قوم کو ریاستی پارلیمانی پارٹیوں کے ساتھ کوئی امید نہیں کرنا چاہئے، پورا بلوچستان پاکستانی آگ میں سلگ رہا ہے، اور وہ اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔ واحد راستہ بلوچ قومی آزادی ہے، قومی آزادی کی تحریک ہی زریعہ نجات ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں