سربلندی کی رِیت ۔ میرک مرید

378

سربلندی کی رِیت

تحریر:میرک مرید

دی بلوچستان پوسٹ

قلم اور کتاب سے محبت کرنے والا انسان کبھی بھی اپنے اوپر ظُلم اور جبر کے خلاف خاموش نہیں رہ سکتا۔ ہم کو یہ بات شہید سربلند نے اپنی کم عمری میں ایک علمی اور شعوری فیصلہ کرکے، خود کو وطن کی مٹی اور چاہت میں قربان کرکے بتلا دیا۔ ہمیں اِس بات کی سبق دی کے قلم کو اتنا مضبوط بناؤکے وہ دُشمن پر گولیوں کی برسات بن جائے اور کتابوں کی الفاظ کو ایسی الاو بخشو کے دُشمن کے لیے ایک آگ بن کر اُس پر گولے برساۓ۔

سربلند جان کو بچپن ہی سے علم کا شوق اور کتابوں سے انتہائی لگن تھا۔ وہ ایک زہین اور ہونہار طالبعلم تھے۔ وہ ہمیشہ اپنے کلاس میں اولّ نمبر پر آتے تھے۔

اُنہیں اِس بات کا بھی علم تھا کہ یہ تعلیم آج میں حاصل کررہا ہوں، یہ کسی کی نوکری کرنے کے لیے نہیں بلکہ آنے والے وقتوں میں غلامی کے سامنے اپنا سر ایک پہاڑ کی طرح کھڑا کرنے کیلئے ہے تاکہ دشمن کو یہ بات بتادیا جائے کہ تُم نے بلوچ کے بچے سے تعلیم ، روٹی ، مکان ، کپڑا سب چھین لیا لیکن اُس نے اِسی غربت کی حالت میں پڑھ لکھ کر اپنا فیصلہ کرلیا ہے اور آپ کے نہ قابل قبول ریاست کو جُھٹلا کر آپ کو بلوچ کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی ہمت اور جذبہ رکھتا ہے اور اپنی جان کی قربانی پیش کرسکتا ہے۔

سربلند جان نے ایک اسکالر شِپ کا ٹیسٹ بھی دیا تھا، لاہور کے کسی اسکول کے لیے ، بعد میں اُس نے اُس ٹِیسٹ کو پاس بھی کردیا تھا لیکن کسی دوست نے بتایا کہ اُس نے لاہور جانے سے انکار کردیا اور یہی بات کہہ ڈالا کہ میں اپنی سرزمین پر ٹھیک ہوں مجھے کوئی پنجاب جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

آپ اِس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کے سربلند بنا تھا اِسی کام کے لیے کے اُس کا سر دُنیا کے سامنے ہمیشہ کے لیے بُرز و بالا اور بلند رہے۔

سربلند کے شعور نے اُس کو اتنا مضبوط کردیا کہ وہ اپنے جسم کو بارود میں لپیٹ کر دُشمن کی میناروں کو پسپا کردے اور اُس کے دل میں بلوچ کی آزادی کا خوف ڈال دے۔

قلم اور کتاب آپ کو سوچنے کی صلاحیت عطا کرتے ہیں لیکن یہ آپ کے اوپر ہے کہ آپ میں برداشت کرنے کی قوّت کتنی ہے۔ آپ اپنے اوپر ظُلم اور سِتّم کو کوئی ڈھانچہ دے سکیں اور آپ غلامی کی تحریروں کو اِس میں قید کرسکیں۔

سربلند کو فدائی بننے کے لیے کئی سالوں کی محنت اور مشقت کرنی پڑی۔ سربلند نے ہزاروں مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد یہ مقام پایا اور بلوچ کی تاریخ میں لہو سے عبارت ہوکر سربلند نے سربلندی کا تاج اپنے سر پر سجایا۔

حیرانی مجھ اِس بات سے ہوئی کے تین سال تک کوئی انسان اپنے مقررہ وقت کے انتظار میں کیسے بیٹھا ہوگا لیکن داد سربلند جیسے نوجوان کو جِس نے تاریخ کو اپنے نام کردیا۔

آج کچھ لمحوں کے لیے میں سربلند کی یادوں میں گُم ہوکر آسمان کو دیکھ رہا تھا اور دیکھا کہ آج یہ چمک اور گرجنے والے بادل بھی سربلند کو یاد کررہے ہیں، یہ پرندوں کی پروں پر جیسے کسی نے بارود باندھ دیا ہواور وہ آزادی کے نعرے کے ساتھ سربلند کا نام لے رہے ہوں، ہواؤں کی رفتار مجھے سربلند کی لہو کی مہک محسوس کرا گئے اور وہ بھی سربلند کی زُلفوں کو لہراۓ ہوۓ جھونک رہے تھے، زمین جیسے برسوں سے اپنے سینے کے اندر سربلند کو چھپاۓ رکھا ہوا تھا اور اچانک سربلند کی ایک پکار سے پھٹ پڑا، عشق ، مہر اور مُحبت کی داستان میں سربلند کا نام سر فہرست ہے۔

گلی کوچوں میں مجھے سربلند سُرخ حروف کے ساتھ لکھا مِلا، ہر بچے کے مُنہ سے بس سربلند کا ہی وِرد ہو رہا تھا، ماں کی دعاؤں میں سربلند ، بہن کی نازینکوں میں سربلند ، باپ کا حوصلہ سربلند اور منزل پہ گھڑا سربلند۔

سربلند نے اپنی قربانی کو قوم کا حیات سمجھا اور آنے والی نسل کے لیے خود کو ایک راستہ بنا گیا اور تین سالوں کے مستقل جدوجُہد کے بعد اُس نے اِس راستے کو ہمارے لیے چمکتی ہوئی ستاروں سے بھر دیا۔

وہ اِس وقت جِسمانی طور پر ہمیں نظر تو نہیں آرہا ہے لیکن روحانی طور پر وہ ہمارے ساتھ کھڑا ہے اور ہمیں اِس بات کی یقین دہانی کرا رہا ہے کہ میرے بعد تمہارے اندر میں یہی جذبہ اور حوصلہ دیکھنا چاہتا ہوں۔

سربلند ایک خواب کی تعبیر ہے اور وہ خواب آزادی ہے۔ سربلند نے بلوچ کی آنکھوں کو روشن کرکے اِس خواب کو ہر کسی کو دکھایا کے وہ صبح دور نہیں جب تُم اُٹھ کے خود کو آزاد پاؤگے۔

بلوچ نوجوان اپنے غلامی کی حقیقت کو سمجھیں اور سربلند جان کے لہو کو دُشمن کے لیے ایک طوفانی سمندر بنا دیں، یہ سمندر ہر اُس مکار ، ظالم اور قاتل کو اپنے ساتھ بہا لے جاۓ گا جو بلوچ کی سرزمین پر قبضے کو تقویت پہنچا رہے ہیں اور اس ناپاک ریاست پاکستان کا قبضہ ٹوٹ جاۓ گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں