رواں مہینے پاکستانی فوج نے بلوچستان میں 7 افراد کو براہ راست فائرنگ کرکے قتل کیا – بی این ایم

202

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ  مستونگ میں پاکستانی فوج نے حملہ کرکے ایک خاندان کے 8 افراد کو جبری لاپتہ کیا جن میں دو کو موقع پر شہید کرکے ان کی لاشیں لاپتہ کی گئی۔ مستونگ میں شہری کے گھر پر پاکستانی فوج کا حملہ ریاستی سفاکیت کا تسلسل ہے۔ رواں مہینے یہ تیسرا واقعہ ہے جس میں پاکستانی فوج نے نہتے شہریوں پر حملہ کرکے لوگوں کو قتل اور جبری لاپتہ کیا۔

انہوں نے کہا یہ واقعات بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں جس کی بی این ایم شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور انسانی حقوق کے اداروں سے تقاضا کرتی ہے کہ اسے پاکستان کے داخلے معاملے کے طور پر دیکھنے یا نظر انداز کرنے کی بجائے اسے انسانی مسئلے کے طور پر دیکھیں اور فوری مداخلت کریں۔

انہوں نے کہا کلی شادی خان پڑنگ آباد مستونگ میں ایک پڑھے لکھے اور سماج میں معتبر خاندان پر بدھ اور جمرات کی درمیانی رات کو پاکستانی فوج نے بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ ان کے گھر پر خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی اور مارٹر گولے داغے گئے۔

’ اس حملے میں مستونگ کالج کے سابق پرنسپل و ممتاز ادیب پروفیسر صالح محمد شاد، معروف سیاسی شخصیت چیف عطاء اللہ بلوچ ایڈوکیٹ ان کے والد محمد گل شاہوانی، ان کے بھائی نجیب اللہ شاہوانی ، سیف اللہ شاہوانی ، مجیب الرحمان شاہوانی، براہمدگ شاہوانی، صلاح الدین شاہوانی اور سلمان شاہوانی کو تشدد کا نشانہ بنا کر جبری لاپتہ کیا گیا۔‘

ترجمان کے مطابق صلاح الدین شاہوانی اور سلمان شاہوانی فوجی یلغار کے دوران زخمی ہونے کی وجہ سے شہید ہوگئے ہیں جن کی لاشیں کافی تاخیر کے بعد شہریوں کے احتجاج کی وجہ سے مقامی بااثر افراد کی تحویل میں دی گئیں۔ اسی دوران پروفیسر صالح محمد شاد اور عمر رسیدہ محمد گل شاہوانی کو شدید زخمی حالت میں ٹراما سینٹر شال منتقل کیا گیا جو شدید زخمی حالت میں بھی سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہیں اور ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہیں۔ متاثرہ خاندان کے دیگر چار افراد تاحال جبری لاپتہ ہیں۔

انہوں نے کہا رواں مہینے 2 اگست کو خاران میں جنگل روڈ پر واقع حاجی ثناء اللہ شاہوانی کے گھر پر بھی پاکستانی فوج اور ان سے منسلک اداروں نے حملہ کرکے نہتے لوگوں کے خلاف خودکار اور بھاری ہتھیار استعمال کیے۔ ان کے دو بیٹوں عامر شاہوانی اور عمران شاہوانی کو تشدد کرکے قتل کردیا گیا جبکہ ایک بیٹے عرفان شاہوانی کو جبری لاپتہ کردیا گیا۔

ترجمان نے بتایا کہ پاکستانی فوج بلوچستان میں تمام تر جوابدہی سے خود کو بالاتر سمجھتے ہوئے عوام کے خلاف غیرضروی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو بے دریغ قتل کر رہی ہے۔ 14 اگست کو خوست ہرنائی میں ایف سی رویے کے خلاف عوام نے احتجاجی مظاہرہ کیا جن پر براہ راست فائرنگ کی گئی اس کے نتیجے میں خالقداد بابڑ موقع پر شہید ہوئے جبکہ بچوں سمیت دیگر افراد زخمی ہوگئے۔

انہوں نے کہا شال میں جبری لاپتہ افراد کے قتل اور ہرنائی میں براہ راست نہتے لوگوں پر فائرنگ کرکے قتل کرنے کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہے۔ نام نہاد حکمران ان احتجاجی مظاہرین کو جھوٹی تسلیاں دے رہے ہیں لیکن فوج کو آئین و قانون کی تابع بنانے میں ناکام ہیں۔ پاکستانی فوج نے جبری گمشدگیاں کم کرنے کی بجائے شہریوں کے گھروں پر حملے شروع کیے ہیں۔

ترجمان نے کہا 21 اگست کو ڈنڈار کے علاقے نگور میں پاکستانی فوج کے کیمپ کے قریب پاکستانی فوج کے آلہ کار ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا جس میں ایک حاملہ خاتون بھی سوار تھیں جنہیں ڈنڈار میں علاج کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔پاکستانی فوج کے ڈیتھ اسکواڈ نے اندھا دھند فائرنگ کیا جس کے نتیجے میں حاملہ خاتون اپنے پیٹ کے بچے سمیت موقع پر شہید ہوئیں جبکہ ایک بچہ اور دیگر دو افراد شدید زخمی ہوئے۔

’24 اگست کو پشتون آباد شال سے عنایت اللہ غبیرزہی کو سی ٹی ڈی اہلکاروں نے دو دیگر افراد کے ساتھ حراست میں لیا اور اسی شام عنایت اللہ کو قتل کرکے ان کی لاش لواحقین کے حوالے کی۔‘

انہوں نے کہا صرف رواں مہینے 7 افراد کو پاکستانی فوج اور اس کے ماتحت اداروں نے براہ راست فائرنگ کرکے قتل کیا جبکہ درجنوں افراد کو جبری لاپتہ کیا گیا ہے اور بعض پر جعلی مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔

ترجمان نے کہا ایک طرف بلوچستان تباہ کن سیلابی صورتحال سے دوچار ہے۔ نصف سے زائد بلوچستان سیلاب سے مکمل تباہ ہوگیا ہے اور دوسری طرف پاکستانی فوج طاقت کا بے دریغ استعمال کرکے لوگوں کو قتل کر رہی ہے۔ پاکستانی فوج نے اپنی سفاکانہ کارروائیوں سے بلوچستان کو مقتل گاہ بنا دیا ہے اور یہاں پاکستانی فوج روازنہ شہریوں کی لاشیں گرا رہی ہے۔