زیارت واقعے کے بعد لاپتہ افراد کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے کے خلاف بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گورنر ہاؤس کے سامنے ریڈ زون میں دھرنا دیئے بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین نے میڈیا کو جاری کردہ اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ ہم پر امن جدوجہد اور طریقہ احتجاج پہ یقین رکھتے ہیں اور پچھلے 35 دنوں سے بلکل پر امن طریقے سے یہاں احتجاج پہ بیٹھے ہیں جہاں آج تک کوئی تک شیشہ نہیں ٹوٹا ہے، ہم سالوں سے اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کے غم میں نڈھال انتہائی درد اور تکالیف میں زندگی گزار رہے ہیں، ہمیں تکلیف کا احساس نہیں بلکہ ہم تکلیف میں زندگی گزار رہے ہیں، ہم کسی دوسرے کی تکلیف کیسے چاہتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ کل جب ہم نے مجبوراً روڈ بلاک کیا تھا تو شہریوں نے ہمارے مجبوریوں کو نا سمجھتے ہوئے ہمارے ساتھ تعاون نہیں کیا جو زبردستی چھوٹے بچوں اور بوڑھی عورتوں پہ موٹر سائیکل اور گاڑیوں کو چڑھانے کی کوشش کرتے رہیں اور زبردستی روڈ کھولنا چاہتے تھے، جبکہ ہماری شروع سے یہ کوشش رہی ہے کہ ہم پر امن رہیں اور ہم آئندہ بھی پر امن رہیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس دوران ہمیں گالیاں دی گئیں، ہمارے ہر امن احتجاج کو تشدد میں بدلنے کی کوشش کی گئی لیکن پولیس بجائے کہ حالات کو کنٹرول میں رکھتی یا ہمارے ساتھ تعاون کرتے بلکہ وہاں خاموش تماشائی بنی رہی۔
لواحقین نے کوئٹہ کے تمام شہریوں سے معذرت چاہتے کہا کہ ہمارے درد اور تکالیف کو سمجھنے کہ کوشش کریں، اور سوچ لیں کہ اگر آپ کیلئے چار گھنٹہ روڈ بند ہونا تکلیف دہ ہے تو ہمارے زندہ سلامت لوگ سالوں سے جبری گمشدہ کیے گئے ہیں اور ہم پچھلے ایک مہینے سے خیمہ لگا کر بیٹھے ہیں تو ہم کتنے درد اور تکلیف سے گزر رہے ہوں گے؟