خود تکلیف میں ہیں، کسی کو تکلیف دینے کا سوچ نہیں سکتے – لواحقین لاپتہ افراد

252

زیارت واقعے کے بعد لاپتہ افراد کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے کے خلاف بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گورنر ہاؤس کے سامنے ریڈ زون میں دھرنا دیئے بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین نے میڈیا کو جاری کردہ اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ ہم پر امن جدوجہد اور طریقہ احتجاج پہ یقین رکھتے ہیں اور پچھلے 35 دنوں سے بلکل پر امن طریقے سے یہاں احتجاج پہ بیٹھے ہیں جہاں آج تک کوئی تک شیشہ نہیں ٹوٹا ہے، ہم سالوں سے اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کے غم میں نڈھال انتہائی درد اور تکالیف میں زندگی گزار رہے ہیں، ہمیں تکلیف کا احساس نہیں بلکہ ہم تکلیف میں زندگی گزار رہے ہیں، ہم کسی دوسرے کی تکلیف کیسے چاہتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ کل جب ہم نے مجبوراً روڈ بلاک کیا تھا تو شہریوں نے ہمارے مجبوریوں کو نا سمجھتے ہوئے ہمارے ساتھ تعاون نہیں کیا جو زبردستی چھوٹے بچوں اور بوڑھی عورتوں پہ موٹر سائیکل اور گاڑیوں کو چڑھانے کی کوشش کرتے رہیں اور زبردستی روڈ کھولنا چاہتے تھے، جبکہ ہماری شروع سے یہ کوشش رہی ہے کہ ہم پر امن رہیں اور ہم آئندہ بھی پر امن رہیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس دوران ہمیں گالیاں دی گئیں، ہمارے ہر امن احتجاج کو تشدد میں بدلنے کی کوشش کی گئی لیکن پولیس بجائے کہ حالات کو کنٹرول میں رکھتی یا ہمارے ساتھ تعاون کرتے بلکہ وہاں خاموش تماشائی بنی رہی۔

لواحقین نے کوئٹہ کے تمام شہریوں سے معذرت چاہتے کہا کہ ہمارے درد اور تکالیف کو سمجھنے کہ کوشش کریں، اور سوچ لیں کہ اگر آپ کیلئے چار گھنٹہ روڈ بند ہونا تکلیف دہ ہے تو ہمارے زندہ سلامت لوگ سالوں سے جبری گمشدہ کیے گئے ہیں اور ہم پچھلے ایک مہینے سے خیمہ لگا کر بیٹھے ہیں تو ہم کتنے درد اور تکلیف سے گزر رہے ہوں گے؟