تعلیم اور تحقیق
تحریر: بلال احمد محمد حسنی
دی بلوچستان پوسٹ
آج کے اس پرآشوب اور جدید ترین دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کا حامل ہے۔ چاہے زمانہ کتنا ہی ترقی کرے حالانکہ آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے۔ایٹمی ترقی کا دور ہے سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے۔ مگر اسکولوں میں بنیادی عصری تعلیم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضہ ہے۔
اس جدید دور میں تعلیم سے انکار کرنا اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے جیسا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک تعلیم کے میدان میں عربوں کے سبک رفتار گھوڑے کی طرح دوڑ رہے ہیں۔ اور اس دوڑ میں ہماری مثال ایک کچھوے کی ہے۔ آج دنیا کے تمام ممالک تعلیم کے میدان میں ہم سے میلوں دور جا چکے ہیںاور وہ تمام ممالک ہمارے لئے ایک مثال بن چکے ہیں۔
تعلیم اور حکمت کے پیش نظر اگر بلوچستان کی شرح خواندگی دیکھیں تو ہمیں کوئی خاطر خواہ نتیجہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ پاکستان کے حالیہ رپورٹس کے مطابق ماسوائے کوئٹہ مکران ڈویژن اور کچھ شہروں کے بلوچستان کی شرح خواندگی پر رونے اور ماتم کرنے کے سوا ہمارے پاس کچھ نہیں بچتا۔اس رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی شرح خواندگی میں پاکستان کے تمام اضلاع میں سب سے پیچھے ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جو صوبہ تعلیم میں اتنے پیچھے ہے تو ذرا آپ سوچیں وہ صوبہ تحقیق میں کتنا پیچھے ہوگا۔
آج کے اس جدید دور میں تعلیم کے حصول کے لیے تحقیق بے حد ضروری ہے۔کیونکہ تحقیق کے بغیر تعلیم کی مثال ایک زندہ لاش جیسی ہے۔تعلیم میں تحقیق سے انکار کرنا زمین میں خدا کی موجودگی سے انکار کرنے جیسا ہے۔تعلیم میں تحقیق سے انکار ممکن نہیں۔کیونکہ تحقیق ہی تعلیم کا سرچشمہ ہے۔تحقیق ہی ہے جو میں پوشیدہ چیزوں سے آشنا کراتی ہے اور تعلیمی خلل کو پورا کرتی ہے۔ پر بدقسمتی سے ہمارے یہاں تعلیم میں تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر ہے بھی تو اونٹ کے منہ میں زیرا جتنا۔
جامعہ بلوچستان جو کہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں واقع ہے۔جس کو بلوچستان کا سب سے پرانا جامعہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔جامعہ بلوچستان دو سو ایکڑ پر بنا ہوا ہے جو کہ رقبے کے لحاظ سے بلوچستان کا دوسرا بڑا جامعہ ہے۔ جامعہ بلوچستان میں پچاس سے زائد ڈپارلیمنٹس ہیں۔ جامعہ بلوچستان کے مزید پانچ شاخیں ہیں جو صوبے کے مختلف علاقوں میں تعلیمی سرگرمیاں سرانجام دے رہے ہیں۔اور اگر تحقیق کے حوالے سے بات کی جائے تو جامعہ بلوچستان بہت پیچھے ہے ۔تحقیق کے حوالے سے ابھی تک جامعہ بلوچستان نے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا۔ صرف جامعہ بلوچستان کا ہی نہیں پورے پاکستان کے یونیورسٹیز کا یہی حال ہے۔ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی کا نام دنیا کے 100 اول یونیورسٹیز میں نہیں۔ ہم ان رپورٹس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم دنیا سے کتنے پیچھے ہیں اور یہ بات ہمارے تعلیمی نظام کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے اور اگر یہی صورتحال رہی تو معاشرے میں تخلیق کار ذہن بنانے کے بجائے صرف طوطے ہی پیدا کرتے رہیں گے۔جو صرف دوسرے کے تحقیق رٹتے رہیں گے، جو کہ ہم برسوں سے کرتے آ رہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں