بیلہ رو رہا ہے – محمد خان داؤد

330

بیلہ رو رہا ہے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

بارشوں سے پہلے بیلہ سُلگ رہا تھا۔ اب بیلہ رو رہا ہے۔ پہلے بیلہ ایسے سُلگ رہا تھا جیسے بہت سا دکھ دل میں ہو، پر وہ کسے کہے، کسے بتائے؟اب متوقع بارشیں بہانہ بن کر بیلہ پر اُتری ہیں اور بیلہ رو رہا ہے، سوال یہ نہیں ہے کہ بیلہ کیوں روتا ہے؟
پر سوال یہ ہے کہ بیلہ کیوں نہ روئے؟
پوچھنے والے بیلہ سے یہ نہ پوچھیں کہ بیلہ کیوں رورہا ہے؟پر دیکھنے والے دل اور محسوس کرتا من یہ کہے کہ بیلہ بھلے روئے۔ ویسے تو بیلہ کو کسی بھی چیز میں کوئی آزادی نہیں۔ نہ تو بیلہ کو سیاست میں آزادی ہے اور نہ ہی بیلہ کو یہ آزادی میسر تھی کہ وہ کسے ووٹ دے اور کسے ووٹ نہ دے!
بیلہ کو تو خبروں میں بھی آزادی نہ تھی۔

جس پتر کار کا جو دل کیا اس نے اپنی خبروں میں بیلہ کے ساتھ ریپ کیا، ریپ تو کیاپر گینگ ریپ کیا اور بیلہ سُلگتا رہا۔اگر ایسا نہیں تھا تو وہ پتر کار کہاں ہے جس نے بیلہ کے حوالے سے اس خبر کو بریک کیا تھا کہ بیلہ کفر پہ اُتر آیا ہے اور ایک معصوم بچی کو سنگسار کیا گیا ہے جب کہ سچ یہ تھا کہ اس بچی پر کھیلتے کیں پہاڑ کا بھا ری پتھر گر گیا تھا اور وہ بچی ہلاک ہوئی تھی۔جب بیلہ رونا چاہتا تھا پر نہیں رویا
اس سے بڑا ظلم تو یہ تھا کہ جس بوڑھے والد کی تیزی سے جوان ہو تی بچی ہلاک ہوئی پولیس نے اسے پہلے بہت سے گالیاں دیں،پھر لاک اپ کیا اور پھر کورٹ میں پیش کیا،یہ بھی نہیں پر وہ ماں جس نے ابھی دل کھول کر اپنی بچی کو رویا بھی نہ تھا وہ بھی اپنی گود میں ایک بچی کو لیے پولیس کے ہاتھوں تذلیل کا شکار ہو تی رہی۔کبھی تھانے،کبھی جرگے کے پاس،کبھی لاک اپ میں۔کبھی مجسٹریٹ کے پاس اور کبھی کورٹ میں
جب بھی بیلہ رونا چاہتا تھا پر بیلہ نہ رویا۔

جب مورو کا عظیم استاد طالب پالاری اپنے مورو سے دلوں کی رفو گیری کیا کرتا تھا اور بیلہ کے من میں بیٹھ کر بیمار دکھی انسانوں کے دل طنبورے کی تاروں سے سیتا تھا تو صدا سے کئی آنکھیں اشک بار ہو جایا کرتی تھیں اور وہ ان گیلے نینوں کو دیکھ کر ان بلند وہ بالا پہاڑوں کو دیکھتا تھا جو بیلہ کا درد لیے اداس اداس خاموش کھڑے رہتے اور اپنے سروں سے سورج کو ڈوبتے دیکھا کرتے تو انہیں دیکھ کر مورو کا استاد طالب پالاری ان لوگوں سے کہتا
،،سنو بیلہ بھی رونا چاہتا ہے
دعا کرو یہ سُلگتا بیلہ کبھی نہ روئے!،،
آج وہ بیلہ رو رہا ہے
پہاڑ رو رہے ہیں۔کھائیاں رو رہی ہیں۔میدان رو رہے ہیں۔ندی نالے رو رہے ہیں۔پربت آبشار رو رہے ہیں اور سب کو ملا کر بلوچستان رو رہا ہے۔
اور بیلہ کیوں نہ روئے؟
بیلہ کو رونا چاہیے اور اتنا ہی رونا چاہیے جتنا وہ آج رو رہا ہے جس سے بیلہ کی دل میں ایک بڑا آنسو ٹھہر گیا ہے جس آنسو نے سب کو گیلا گیلا کر دیا ہے!
بیلہ کیوں نہ روئے
جب پہاڑوں پر بلڈوزر چلا دیے جائیں!
جب مقامی لوگوں کے راستے بند کر دیے جائیں!
جب بہت سے پیسے والے بہت ہی مسکین لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر لیں
جب سردار معمولی معمولی باتوں پر جرگہ بٹھائیں اور بدلے میں جوان ہو تی لڑکیاں اور زمینیں ہڑپ لیں!
جب مقامی سردار دلال بن جائے!
جب زمینوں پر بلڈوزر چلتے دیکھ کر سانپ بلوں میں گھس جائیں اور کبوتر اُڑنا چھو دیں
جب درختوں اور ہریالی پر ٹریکٹر پھیر دیا جائے اور پرندے ہجرت کر جائیں
جب درخت کٹ جائیں اور گھونسلے میں رکھے انڈے ٹائروں کے تلے کچلے جائیں اور اوپر اُڑتی فاخرہ پاگل ہو جائے!
جب ندی نالوں اور کھائیوں کو بلڈر ایسے بھرتے نظر آئیں کہ جیسے کسی غریب کی میت دفن ہو رہی ہو!
جب گھر تو گھر پر پرانی قبروں پہ بھی بلڈوزر چلا دیے جائیں
اور پرانی ہڈیاں بہت شور سے ٹوٹتی رہیں!
جب غریبوں کے کچے گھر ایسے اُڑادیے جائیں کہ جیسے وہ دھرتی پہ کالک تھے!
اور غریب پر آئے الزام کی ماند دھرتی پہ قبضہ بڑھتا ہی جائے
تو بیلہ کیوں نہ روئے
بیلہ رو رہا ہے!
بیلہ کو سردارو،دلالوں،جاگیر داروں۔منتخب نمائیندوں۔وفاق پرستوں اور قوم پرستوں نے،سب نے نظر انداز کیا ہے اور ادیبوں،دیداوروں،شاعروں اور دانشوروں نے بھلانے کی ناکام کوشش کی ہے
بیلہ کا دُکھ بس طالب پالا ری نے دردوں کی ز باں میں پیش کیا ہے اور پھر طالب پالاری کا طنبورہ بھی خاموش ہوگیا!
طالب پالاری رفو گر تھا وہ رفو گیری کرتا رہا۔پہلے بیلہ کے باسیوں کی پھر بیلہ کی اور پھر اس کا دامن تار تار ہوا۔آج بیلہ ایک خبر کے ساتھ ساتھ بہت بڑا آنسو بنا ہوا ہے جس آنسو میں بچے ہی کیا،جانور ہی کیا،پر وہ گھر بھی ڈوبے ہوئے ہیں جن گھروں میں بیلہ کا درد سُلگتا تھا!
اب بیلہ کا آنسو حد نظر تک پھیلا ہوا ہے۔دیکھنے والے تو بس یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ برستی بارشوں کا سیلاب ہے پر محسوس کرنے والے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ یہ بیلہ کا درد بھرا آنسو ہے
وہ آنسو جس آنسو میں ہر بار بیلہ کو نظر انداز کیا گیا ہے
بیلہ کو بھوکوں مارا گیا ہے!
بیلہ کو وباؤں کی نظر کیا گیا ہے
بیلہ کو بیمار اور بے روگار رکھا گیا ہے
بیلہ کو تنگ دست اور جاہل رکھا گیا ہے
بیلہ کو پیاسا رکھا گیا ہے
بیلہ کی ندی نالوں اور زمینوں پر قبضہ کیا گیا ہے
بیلہ کا مقامی سردار اپنی فیملی کے ساتھ کراچی منتقل ہوچکا ہے
جب کہ بیلہ،بیلہ باسیوں کے ساتھ رو رہا ہے!
سوال یہ نہیں ہے کہ بیلہ کیوں رو رہا ہے؟
پر سوال یہ ہے کہ بیلہ کیوں نہ روئے؟
مقامی پتر کار بیلہ میں ہوتی ہلاکتوں کو کاری اور سنگساری قرار دے کر اپنے آفیسوں میں خبر بھیجتے ہیں
پر وہ بد نصیب یہ نہیں جان پا تے کہ بیلہ کیوں رو رہا ہے؟
جب بلوچستان کا نصیب میں پھٹی ہوئی اجرک جیسا ہو جائے اور بلوچستان کا لیڈر اپنے منھ پر اجرک کاماسک لگا کر بیلہ کے دردوں پر اداکاری کرتا رہے
تو پھر بیلہ روتا ہے
اور اس وقت بلوچستان میں پہاڑوں کے دامنوں میں بیلہ رو رہا ہے!
بارشوں سے پہلے بیلہ سُلگ رہا تھا!
اب بیلہ رو رہا ہے!
پہلے بیلہ ایسے سُلگ رہا تھا جیسے بہت سا دکھ دل میں ہو پر وہ کسے کہے،کسے بتائے؟
اب متوقعہ بارشیں بہانا بن کر بیلہ پر اُتری ہیں اور بیلہرو رہا ہے،
سوال یہ نہیں ہے کہ بیلہ کیوں روتا ہے؟
پر سوال یہ ہے کہ بیلہ کیوں نہ روئے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں