بلوچ اور بلوچستان لاوارث ہیں؟
تحریر: آسیہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سر زمین بلوچستان ساحل وسائل سے مالا مال ایک وسیع و عریض امیر خطہ ہے۔ یہ سرزمین دنیا میں قدرتی وسائل اور جیوگرافک اہمیت پر حامل ایک الگ حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن اس سرزمین کے وارث آج بھی ایک نوالہ روٹی کیلئے تڑپ رہے ہیں، بھوک، پیاس اور دیگر تمام مسائل ان کے باسیوں کا مقدر بن چکے ہیں، اگر ہم ان کے مسائل کو لکھنا چاہیں تو کئی کتابیں لکھ سکتے ہیں، ان میں طویل وقت بھی درکار ہوتی ہے لیکن پھر بھی ان مسائل کے انبار مکمل طور پر بیان نہیں ہو سکتے۔
بلوچستان کے لوگوں کو ہر طرح کے بنیادی حقوق اور سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ اگر انکے علاوہ بلوچ فرزندوں پر ہونے والے ظلم و جبر اور نا انصافیوں پر سیمینار منعقد کیا جائے تو بلوچ قوم پر تسلسل کے ساتھ جاری ظلم و جبر اور جارحیت کی ایک داستان بھی کامل بیان نہیں ہو سکتا، گویا ظلم و جبر صرف بلوچ قوم کے حصّے میں آیا ہے۔
اس بات کا اعتراف سابقہ حکومتوں اور عسکری قیادت نے خود کیا ہے کہ بلوچستان کے عوام پر ظلم و زیادتی ہوئی ہے انکو حق وحقوق سے محروم کیا جا چکا ہے، لیکن ہر عسکری اور سیاسی قیادت خود کو بری الزمہ قرار دے کر سابقہ قیادت پر الزام تراشی کرتا ہے ، لیکن اپنی دور حکومت میں جاری ظلم و بربریت انکے آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔
جنرل ضیا، زوالفقار علی بھٹو، نواز شریف، آصف زرداری، جنرل مشرف سے لیکر عمران خان اور موجودہ حکومت یہ اعتراف ضرور کرچکے ہیں کہ بلوچستان پر ظلم وزیادتی ہوا ہے۔ لیکن یہاں سوالات کے انبار زہن میں ابھر جاتے ہیں کہ آخر وہ کونسی قوت ہے جو ان کے درمیان رکاوٹ بنی ہوئی ہے؟ وہ کونسا رشتہ ہے جو ظلم و بربریت ڈھانے پر انہیں مجبور کرتی ہے؟
عمران خان کی دور حکومت میں اپوزیشن سیاسی پارٹیوں کا ایک اتحاد پی ڈی ایم بنائی گئی جس میں بلوچستان کے قوم پرست پارٹی بھی شامل تھے، جنکے قائدین اپنے تقاریر میں بلوچ لاپتہ افراد کی باتیں کیا کرتے تھے، مریم نواز نے کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین کو بلا کر گمشدہ افراد کے تصاویر اٹھاکر فوٹو سیشن کی، ملتان میں احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا، لیکن یہ سب ڈرامے تھے، یہ سب بلیک میلنگز تھے، اپوزیشن موجودہ حکومت کو بلیک میل کر رہے تھے۔
کل تو عمران خان کی حکومت تھی لیکن آج انکی اپنی دور حکومت میں بلوچ قوم کی حالت زار پہلے سے ابتر ہوتا جا رہا ہے، یونیورسٹیز میں بلوچ طلباء کی پروفائلنگ جاری ہے، تعلیمی اداروں، چوراہوں پر بلوچ طلباء کو تشدد کا نشانہ بنا کر انکو لاپتہ کیا جا رہا ہے، 34 دنوں سے سمی دین بلوچ، سیما بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کوئٹہ ریڈ زون پر احتجاجی دھرنا دیئے بیٹھے ہیں، لیکن کچھ لفاظی لیڈر جو صرف تقاریر کرنے میں مشہور تھے، آج تک انہوں نے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے کیمپ کا دورہ نہیں کیا، بی این پی کے سربراہ جنہوں نے چند نکات پیش کئے تھے، ان نکات میں لاپتہ افراد کی بازیابی کا نکات شامل تھا لیکن نکات پر عملدرآمد تو دور کی بات ہے اختر مینگل نے آج تک احتجاجی کیمپ کا دورہ تک نہیں کیا بلکہ آج وہ باپ پارٹی کا سیکنڈ ترجمان کی حیثیت سے احتجاج ختم کرنے کی درخواست کر رہے ہیں، گزشتہ جزباتی تقاریر محض لفاظی تھے، بلوچ قوم کی جزبات سے کھیل کر انکو اپنی طرف متوجہ کرنے کے ڈرامے تھے۔
افسوس کا مقام ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان اور وزیر داخلہ ضیا لانگو پریس کانفرنس کر کے کہتے ہیں کہ ریاست کے برداشت کا پیمانہ ختم ہوچکا ہے لواحقین احتجاج کو ختم کریں۔ حکومت کی غیر سنجیدگی پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ریاست بلوچ قوم پر کتنا مہربان ہے۔
حالیہ بارشوں نے بلوچستان میں تباہی مچا دی ہے، لوگوں کے گھر و مکانات منہدم ہو چکے ہیں، بھوک، پیاس وبا اور سْیالبی ریلوں کے سبب انسانی جانیں ضائع ہو رہے ہیں لیکن آج تک حکومت کی طرف سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ نہ ریاستی میڈیا نے ان تباہ کاریوں کو کوریج دی اور نہ ہی ریاستی فلاحی اداروں نے لوگوں کو ریسکیو کیا۔
ایک سال قبل ایک کوہ پیما کیلئے 20 دن تک فضائی اور زمینی آپریشن کی گئی، یہ ملک کا سب سے بڑا ریسکیو آپریشن تھا، جنکو پاکستانی میڈیا نے کوریج دیکر ملک کے کونے کونے میں یہ خبر پہنچایا گیا۔ لیکن افسوس کی بات ہے دو مہینوں سے بلوچستان سیلاب زدہ ہے، ندی نالوں کے قریب لوگ پھنس چکے ہیں، سیلابی ریلوں سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہو چکے ہیں، لیکن حکومت کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی، نہ کوئی فضائی ریسکیو آپریشن کی گئی اور نہ ہی زمین میں کوئی امدادی ٹیم بھیجا گیا۔ البتہ دیگر غیر سرکاری فلاحی اداروں، اور لوگوں نے اپنی مدد آپ آفت زدہ لوگوں کی حمایت کی لیکن حکومت سمیت بلوچستان کے نام نہاد قوم ہرست پارٹیوں کے کردار زیرو رہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان لاوارث ہے؟
شاید مقتدرہ قوتیں بلوچستان کو لاوارث سمجھتے ہیں، لیکن میں نہیں سمجھتی کہ بلوچ سرزمین لاوارث ہے، بلوچستان میں مزاحمت کی تاریخیں رقم ہیں، بلوچ نوجْوانوں، بزرگوں اور خواتین نے قربانیاں دی ہیں اور ہنوز قربانیاں دے رہے ہیں، ظلم وجبر، تشدد اور مختلف مشکلات سہہ رہے ہیں جو کہ بلوچستان کے حقیقی وارث ہیں، بلوچستان لاوارث نہیں۔
ہاں البتہ بلوچستان سیاسی اور پارلیمانی پارٹیوں کے طور پر یتیم ہے، یہ پارلیمانی پارٹیاں بلوچستان کے وارث نہیں، ان لوگوں نے بلوچستان کے ساحل وسائل کا سودہ لگایا ہے، ان کے نظریات انکے اپنے مفادات پر وابستہ ہیں۔ انکو قوم پرست نہیں بلکہ مفاد پرست کہا جائے تو درست ہوگا۔
اب سب سے بڑی زمہ داریاں بلوچ نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ اپنی دھرتی کو ان مفاد پرست پارٹیوں سے کیسے چھٹکارہ دلائیں گے، خود کو موجودہ حالت میں ہونے والی ظلم و جبر کے اندر کیسے مضبوط کریں گے۔ اب یہ زمہ داری نوجوان سیاسی قیادت پر ہے کہ وہ قوم کے اندر شعور پیدا کرکے ان مفاد پرست پارٹیوں اور پیٹ پرست لیڈروں کے جزباتی تقاریر سے انہیں آگاہ کریں تاکہ وہ مزید دھوکہ میں نہ رہیں۔
ری ایکشنری اور ایموشنل سیاست سے نکل کر شعوری سیاست کا حصہ بنیں، خود کو فکری اور نظریاتی حوالے سے پختہ بنائیں، گزشتہ پالیسیوں اور غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے خود تنقیدی کی گنجائش پیدا کریں، گزشتہ غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے خود احتسابی عمل سے گزریں اور آئندہ لائحہ عمل طے کرنے کیلئے بہترین حکمت عملی کی بناکر سائنسی بنیادوں پر سیاسی اداروں کو مضبوط کر کے اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں