بدھ کے روز صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی میں بی ایس او کی جانب سے بامسار لٹریچر کے نام سے کتب اسٹال کو اہم موقع پر انتظامیہ نے منسوخ کردیا۔ جس کے خلاف بی ایس او کے کارکنوں نے احتجاجاً سریاب روڈ بلاک کیا۔ طلبا نے کتابوں کو سڑک پر رکھ کر احتجاج کیا ۔
اس موقع پر پولیس نے طلبا کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج اور شیلنگ کی، بعد ازاں اسٹال کو احتجاج کے طور پر مین گیٹ کے سامنے لگا دیا گیا۔
یونیورسٹی تاحال آمدورفت کے لیے بند ہے اس موقع پر بی ایس او کے کارکنوں نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ اندر اسٹال لگانے کی اجازت نہیں دیتے گیٹ ہر عام و خاص کے لئے بند رہے گا۔
بی ایس او کے ترجمان نے کہا کہ کتاب ہماری میراث ہے اور یونیورسٹی ہمارا ادارہ ہے، جس پر پہلا اختیار طلبا کا ہوگا۔ کسی مافیا کے حکم پر طلبا کو علمی و سیاسی سرگرمیوں سے نہیں روکا جاسکتا۔ بی ایس او کے بک اسٹال کو روکنا اور طلبا پر تشدد یونیورسٹی انتظامیہ کی علم دشمنی ہے، جس کے خلاف برسرِ پیکار رہیں گے۔ اس انقلابی روایت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور بک اسٹال یونیورسٹی میں ضرور لگایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بی ایس او شال زون کی کال پر آج بلوچستان یونیورسٹی میں بامسار لٹریچررز کے تحت بک اسٹال لگانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ بامسار لیٹریچز بی ایس او کے مرکزی آرگن بامسار کی توسط سے بلوچ نوجوانوں میں سیاسی شعور اور فکری بالیدگی کو بڑھانے کی کمپیئن ہے۔ اس کمپیئن میں بی ایس او بلوچستان بھر میں طلبا کو علمی و فکری رجحانات کا حصہ بنانے کی کوشش کرتی ہے، تاکہ کتاب دوستی اور علمی و فکری مباحث کی بنیاد پر قوم اپنی تعمیر کرسکے اور سماج کو مثبت تبدیلیوں کی جانب گامزن رکھا جائے۔ لیکن بلوچستان میں علمی و فکری کام کرنا یونیورسٹی انتظامیہ اور ان کے آقاؤں کو قطعاً پسند نہیں۔ اس پر طلبا کو ہراساں کرنا اور تشدد کا نشانہ بنانا ناقابل قبول ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی بی ایس او نے پروگرام کا انعقاد کیا تو یونیورسٹی انتظامیہ کے وردی پوش غنڈوں نے طلبا پر ھاوا بول دیا، تشدد اور گالیوں سے طلبا کا راستہ روکا گیا اور انہیں کتابیں اندر نہیں لے جانے دی گئی۔ جس پر طلبا نے احتجاجاً سریاب روڈ بلاک کردیا اور کتابیں اسٹال کی بجائے سریاب روڈ پر سجائی گئی۔ طلبا نے تمام کتابیں سریاب روڈ پر رکھ کر اپنی کمپیئن چلائی اور بلوچستان یونیورسٹی کی بقا کی خاطر سخت دھوپ میں روڈ پر احتجاج کر رہے ہیں۔ بی ایس او اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ایک کیڈر ساز قومی ادارہ ہونے کی نسبت سے قومی فکر میں اپنا انقلابی حصہ ڈالتی رہے اور نوجوانوں کو تنظیم سازی اور سائنسی علم سے مزین ایک لیڈر بنائے جو قومی جدوجہد میں اپنا کردار نبھا سکیں۔ اس سلسلے میں سٹڈی سرکلَز ہو یا ورک شاپز، نیشنل سکول ہو یا کونسل سیشن بی ایس او کے تمام ادارے کیڈر سازی کو مضبوط تر بنانے کا کام شاندار انداز میں کررہے ہیں، اسی طرح بامسار لیٹریچر کی تحریک بھی تنظیم کی اسی جہد کی کاوش ہے۔
اس علمی کاوش کے نتیجے میں طلبا نے آج پھر ڈنڈے کھائے پر ان کے جبر کے سامنے ڈٹے رہے۔ بلوچستان میں نوآبادیاتی نظام کی تباہ کاری نے علمی، معاشی و سیاسی اداروں کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے۔ بلوچستان کے تمام تعلیمی ادارے قبضہ گیروں کے ہاتھ میں ہیں، جو فقط یونیورسٹی کے وسائل لوٹنا چاہتے ہیں اور اسے شعوری سطح پر مفلوج رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی جو کہ بلوچستان کا مرکزی تعلیمی ادارہ ہونے کا درجہ رکھتی ہے، قبضہ گیروں کی وحشت کا اولین نشانہ ہے۔ یہاں انتظامیہ کے نام پر ایک فاشسٹ طرز حکمرانی چل رہی ہے، جس کا بنیادی مقصد یونیورسٹی کی علمی، فکری اور تنقیدی کردار کا خاتمہ کرنا ہے۔