بلوچستان میں خودکشی کا بڑھتا رجحان – ٹی بی پی رپورٹ

1166

بلوچستان میں خودکشی کا بڑھتا رجحان

دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ

تحریر: آصف بلوچ

وہ لاغر بدن نوجوان، ہر وقت کتابوں میں کھویا رہتا تھا۔ اس نے اب تک عمر کی بہت کم بہاریں دیکھیں تھیں۔ ہر سال اپنے کلاس میں اول آنے کے باوجود، ہر مہینے کے شروعاتی دنوں میں اس کو کلاس سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور اسے جسمانی و نفسیاتی مشقت سے اس وقت تک گذرنا پڑتا، جب تک وہ اس ماہ کی فیس یہاں وہاں سے اکھٹا نا کردیتا۔ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کو ایک سال مکمل ہوئے ابھی صرف کچھ ہی یوم گذرے تھے۔ یخ بستہ جنوری کا آخری ہفتہ چل رہا تھا، بلوچستان کے سب سے بڑے ضلع خضدار میں بلوچ طالب علموں کے وٹس ایپ اسٹیٹس اور فیس بک والز پہ اس نوجوان کی تصویر آنسو بہاتی ہوئی، پریشان والی ایموجی کے ساتھ عیاں ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ وہ دن تھا جب اس لاغر بدن نوجوان عرفان بارانزئی نے امتحانی فیس نہ ہونے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہوکر اپنے گلے میں پھندا ڈال کر اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔

تین ماہ بعد سولہ اپریل کو رمضان کے دوسرے عشرے کو شروع ہوئے تین دن ہی ہوئے تھے، جب عمر بھر اپنے کندھوں پہ ذمہ داریوں کا بار اٹھانے والا غلام رسول بارانزئی سحری کرکے بعداز فجر قبرستان جاکر اپنے بیٹے عرفان بارانزئی کے قبر پر دیر تک رک کر اسے خاموشی سے تکتا رہتا ہے۔ آنسو بہانے اور دعا فاتحہ پڑھ کر واپس آتے ہی گلے میں پھندا ڈال کر وہی عمل دہراتا ہے، جو تین ماہ پہلے اس کے نوجوان بیٹے عرفان نے سرانجام دیا تھا۔

باپ بیٹے غلام رسول اور عرفان اس طویل فہرست میں صرف دو نام ہیں، جو بلوچستان میں روزانہ غربت اور مختلف نفسیاتی دباو کی وجہ سے اپنی زندگی کا خاتمہ اپنے ہاتھوں سے کرلیتے ہیں۔

بلوچستان میں خودکشیوں کے حوالے سے حکومتی سطح پر ایسے ادارے وجود ہی نہیں رکھتے، جو بلوچستان میں خودکشیوں کے واقعات پہ گہری نظر رکھے ہوئے ہوں۔ بلوچستان کے زیادہ تر علاقوں میں موبائل نیٹورک اور انٹرنیٹ کی سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے بیشتر واقعات میڈیا میں رپورٹ ہی نہیں ہوتے یا پھر لوگ خود ہی ایسے واقعات کو سماجی بدنامی سے بچنے کیلئے سامنے ہی نہیں لاتے۔ اس کے باوجود رواں سال بلوچستان میں ہونے والے خودکشیوں کے حوالے سے دی بلوچستان پوسٹ کی جمع کردہ اعداد و شمار کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو بلوچستان میں خودکشیوں کا رجحان ایک گھمبیرصورتحال اختیار کرچکی ہے۔ اس بات میں دو رائے موجود نہیں کہ جو اعداد و شمار مختلف ذرائع سے جمع کئے گئے ہیں، یہ پیش آنے والے واقعات کی انتہائی قلیل تعداد ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ کے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں سال ( تادم تحریر) خودکشی کے 42کیسزرپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سات خواتین بھی شامل ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق سب زیادہ کیسز ضلع کیچ میں رپورٹ ہوئے ہیں، اس کے علاوہ گوادر، خضدار ، کوئٹہ ، پنجگور ، ڈیرہ بگٹی ، مشکے، دالبندین، گڈانی، قلات، اوستہ محمد اور تمبو میں بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

بدقسمتی سے بلوچستان میں ہونے والی خودکشیوں کے حوالے سے بلوچستان حکومت کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے اداروں سمیت قوم پرست تنظیموں و پارٹیوں میں بھی ایک خاموشی دیکھنے کو ملتی ہے۔ خودکشی کے حوالے سے عوام میں ایک منفی رجحان پایا جاتا ہے، جہاں اس پر کھل کر بات کرنے کے بجائے، اسے بدنامی سے نتھی کرکے ایسے واقعات کو حتی الوسع چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ کو خودکشی کے ان واقعات پہ تحقیق کے دوران کئی مشکلات کا سامنا رہا ہے، کئی مقامات پر مصدقہ ذرائع سے تصدیق ہونے کے باوجود کہ کسی گھر میں خودکشی کا واقعہ پیش آیا ہے، رابطہ کرنے پر لوگ تردید کرکے ان اموات کو طبی یا حادثاتی قرار دیتے رہے۔

انسان خودکشی کب کرتا ہے؟

ماہرین نفسیات کے مطابق خودکشی کا تعلق ذہنی تناو (ڈپریشن) سے ہوتا ہے۔ خودکشی میں مختلف اقسام کی ذہنی الجھنوں (ملٹی ڈائمینشنل ڈس آرڈرز) کا بیک وقت عمل دخل ہوتا ہے۔ جن میں حیاتیاتی، جینیاتی، نفسیاتی اور ماحولیاتی الجھنیں شامل ہیں۔

خود کشی کے عمومی وجوہات میں ذہنی ونفسیاتی مسائل یعنی ڈپریشن، انگزائٹی، پرسنالٹی ڈس آرڈر، شیزو فرینیا، بائی پولرڈس آرڈر وغیرہ شامل ہیں۔ ان ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کو فروغ دینے میں بیرونی عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں۔ ان عوامل میں کوئی تکلیف دہ تجربہ جن میں جسمانی تشدد، جنسی تشدد، جنگ کا ماحول، کسی عزیز کی موت، مسلسل غنڈہ گردی کا شکار ہونا، منشیات کا استعمال، خوراک میں عدم توازن، بے روزگاری، تنہا پسندی، غربت، رشتوں میں عدم توازن، جینیاتی مسئلے، وجود کا بحران یعنی اپنی زندگی کو بے معنی سمجھنا، مہلک یا ناقابل علاج یا دائمی بیماری، دائمی درد، ادویات کا بے دریغ استعمال وغیرہ شامل ہیں۔

بلوچستان اور خودکشی:

بلوچستان میں اگر کسی گھر کا فرد خودکشی کرلے تو لوگ اسے اپنے لئے ایک بدنامی سمجھتے ہیں۔ زیر نظر رپورٹ میں ہم نے انتہائی کوشش کی کہ کسی خودکشی کرنے والے شخص کے اہلخانہ میں سے کسی سے بات کی جائے تاکہ ان حالات کو بہتر سمجھا جائے، جن کی وجہ سے متوفی نے خودکشی کا راستہ اپنایا لیکن کوئی بھی اس مسئلے پر بات کرنے پر راضی نہیں ہوا۔

بلوچستان میں خودکشی کے بڑھتے رجحان اور اس پر کھل کر بات کرنے میں ہچکچاہٹ جیسے رویوں کے بابت دی بلوچستان پوسٹ نے بلوچستان، بالخصوس مکران کے سیاسی و سماجی حالات پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اسد اللہ بلوچ سے بات کی تو انکا کہنا تھا کہ “خودکشی کے واقعات جس گھر یا علاقے میں پیش آتے ہیں، اس کو چھپانے کی حتی الوسع کوشش کی جاتی ہے کیونکہ لوگ اس کو اپنے لئے بدنامی سمجھتے ہیں۔ خاص طور پر اگر خود کشی کا واقعہ کسی لڑکی کا ہو تو لوگ لڑکی کے ساتھ اس بات کو بھی ہمیشہ کیلئے دفن کردیتے ہیں۔ اس کے پیچھے ایک اہم وجہ روایتی عزت اور غیرت کا معاملہ ہے۔ اہلخانہ سمجھتی ہے کہ اگر یہ بات عام ہوئی تو وہ سماج میں بے توقیر ہوں گے اور ان کی عزت پر حرف آئے گا۔”

اسد الله بلوچ مزید کہتے ہیں “بلوچستان میں خودکشیوں کے واقعات میں یہ ہوشربا اضافہ ایک نیا رجحان ہے۔ پانچ دس سال پہلے شاید ہی خودکشی کا کوئی کیس ریکارڈ ہوتا، حالانکہ غربت و بے روزگاری تب بھی تھی لیکن گذشتہ دو تین سالوں کے دوران ایسے کیسز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال تو یہ اضافہ خاصے خوفناک حالات کی نشاندہی کررہا ہے۔”

کیا خودکشی کے ان واقعات میں ہوشربا اضافے کی وجہ غربت ہے؟ اس بات سے اسد اللہ بلوچ اتفاق نہیں کرتے، انکا کہنا ہے کہ “اگرباریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو اس میں معاشی حالات کا دباؤ کا عنصر بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ اہم وجوہات جن پر بہت کم بات کیا جاتا ہے، وہ سماجی گھٹن، فرسودہ روایات، مذہبی عدم برداشت اور سب سے اہم بلواستہ یا بلاواستہ ریاستی جبر و استحصال جیسے وجوہات ہیں۔”

اسد الله بلوچ مزید کہتے ہیں “سماج کو جان بوجھ کر گھٹن زدہ بنادیا گیا ہے، جبری گمشدگیاں ہوں، قتل کے واقعات ہوں یا پھر پر تشدد مذہبی رجحان، ان سب پر بات کرنے کی بندش اور ایک غیر محسوس ڈر ہے۔ ان عوامل نے اندر ہی اندر سماج کو گھائل کردیا ہے۔ ہمارے اردگرد جو واقعات پیش آرہے ہیں یا روزانہ کی بنیاد پر بلوچستان سے ہمیں جو خبریں ملتی ہیں، ان میں ذہنی آسودگی، خوشی یا کوئی ایک مثبت خبر بھی شامل نہیں ہوتا۔ اکثر خبریں لوگوں کی جبری گمشدگیوں، قتل، دھماکوں، احتجاج، ریلی وغیرہ پر مشتْمل ہوتی ہیں۔ جب روزانہ آپ ایسے حالات سے گذر رہے ہوں تو یہ ایک فطری بات ہے کہ کسی حساس ذہن پر انکے گہرے منفی اثرات مرتب ہونگے۔”

خودکشی کے واقعات اور بلوچستان حکومت:

بلوچستان میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ بلوچستان بھر میں خودکشی کے حوالے سے آگاہی ورکشاپس یا دوسرے آگاہی مہم کا فروغ کسی سطح پر بھی نظر نہیں آتا۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ حکام، بلوچستان میں بڑھتے ہوئے خودکشی کے واقعات کے حوالے سے بیگانہ نظر آتے ہیں۔

دوسری طرف فرسودہ سماجی روایات کی وجہ سے عام لوگ مختلف نفسیاتی بیماریوں کے شکار ہونے کے باوجود، کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ماہر نفسیات سے رجوع کرنے یا اپنے ذہنی مسائل پر بات کرنے کو کمزوری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ بلوچستان میں کوئی بھی انسداد خودکشی کا سینٹر یا ” سوسائیڈ لائن” نمبر وجود ہی نہیں رکھتا، جہاں کوئی اچھا سا ماہر نفسیات دستیاب ہو، جو ان مسائل کو گہرائی سے سمجھے تاکہ ذہنی الجھن کا شکار کوئی شخص خودکشی کا خیال آتے ہی رابطہ کرسکے۔

اگر بلوچستان کے مستقبل کو ہمیں یوں پھندے پر جھولنے سے بچانا ہے تو سب سے پہلے نفسیاتی مسائل کے بابت سماجی رویئے بدلنے ہونگے۔ ذہنی مسائل اور خودکشی کے واقعات پر کھل کر بات کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی پڑے گی۔ سیاسی و سماجی تنظیموں کو ذہنی مسائل پر عوامی کچہریاں منعقد کرنی چاہئیں۔ حکومتی سطح پر جہاں غربت و بے روزگاری جیسے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئیں، وہیں یہ امر لازم ہے کہ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ایسے نفسیاتی ادارے قائم کیئے جائیں، جہاں ماہر نفسیات موجود ہوں اور مفت کونسلگ کی سہولت فراہم کی جائے۔ اسکے علاوہ چوبیس گھنٹے متحرک ایک ” سوسائڈ لائن ” قائم کی جائے، جہاں کوئی بھی نام ظاہر کیئے بغیر ماہرین سے بات کرسکے۔ سب سے اہم یہ کہ آپس میں نفسیاتی الجھنوں پر بات کرنے کی روایت عام کی جائے۔