بالاچ جان بہت جلد گلابی ہونٹ تیرا نام چومیں گے
تحریر:محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
جاپانی کہاوت ہے کہ”ڈوبتے بچوں کے لیے مت رو وہ محبت بن کر لوٹ آئیں گے“
پر ہم نہیں جانتے کہ وہ ڈوبتے بچے محبت بن کر کب اور کیسے لوٹتے ہیں؟
پر کیا وہ بلوچ ماں اس بچے کا وچھوڑا برداشت کر پاتی جو شال کی گلیوں میں پانی کی نظر ہو رہا تھا
نہیں ہر گز نہیں! وہ بچہ پانی کی نظر ہوتا تو ماں کا زندگی بھر کا چین پانی کے نظر ہوجاتا
تو کیا بالاچ!نے بس ایک بچے کو پانی پانی ہونے سے بچایا؟
نہیں بالاچ جان نے ایک بلوچ ماں کے بے قرار دل کو بچایا۔اس چین کو بچایا جس چین کو ایک ماں بہانوں میں لیے کچے چھولے پر روٹیاں بھی بنائے گی اور اپنے بچے کا منہ بھی چومتی!
اپنے ہاتھوں سے بھیڑ بھی دھوئے گی اور معصوم بچے کا منہ بھی چومے گی
اور جب اپنے سارے کام کاج کر کے رات کو سوئے گی تو محبت جیسے بچے کو اپنی بانہوں میں لیے سوئیگی
بالاچ جان نے بلوچ دھرتی کا توازن بچایا!ایسا توازن جو جب کھونے لگتا ہے تو دھرتی دہل جاتی ہے
مائیں دھرتی کا توازن ہی تو ہیں
ویسے بھی بلوچ دھرتی اور بلوچ ماؤں نے کیا کیا عذاب نہیں جھیلے؟بلوچ ماؤں نے بارشوں سے بھی زیا دہ رویا ہے۔ یہ بارشیں تو اب پتھروں کو دھو تی ہیں پر ماؤں نے تو اپنے نمکین آنسوؤں سے پہاڑوں کے پہاڑ دھو دیے ہیں۔ بارشیں تو اب ندی نالوں میں طغیانی لا رہی ہیں پر کیا بلوچ ماؤں کے آنسو ریلہ بن کر پہاڑوں سے نہیں اترے؟بلوچ مائیں اتنا روئی ہیں کہ ان کے آنسوؤں سے اگر دیوان نہ لکھے جائیں تو لکھے دیوان حروف بہ حروف مٹائے ضرور جا سکتے ہیں۔پھول جیسا بچہ شال کی گلیوں میں ڈوب جاتا۔ایک اور ماں دیوانی ہو جاتی۔راہوں میں رُل جاتی۔سوالیہ(؟) نشان بن جاتی۔بے چین ہو جا تی۔بہت روتی۔پہلے بچے کی شبعی بھول جاتی۔پھر نام بھول جاتی اور پھر آپ پتھریلی مٹی میں سو جا تی۔
پر برستی بارش میں۔گیلی زمیں پر اور بھپرے نالے کے درمیاں بالاچ جان بلوچ ماں کے سکھ کو ڈوبنے نہیں دیا۔بالاچ نے ایک ماں کو آنسوؤں کے ریلے سے بچا لیا۔ایک ماں کو بارش کے دنوں میں ماتم سے دور کر دیا۔ایک ماں کو اس دید بھرے انتظار سے دور کر دیا جس دید میں بچے دفن ہو جا تے ہیں اور مائیں یتیم ہو جا تی ہیں۔بالاچ جان نے ایک ماں کو یتیم ہونے سے بچالیا۔ایک ماں کو مصلوب ہونے سے بچالیا۔ایک ماں کو مریم ہونے سے بچایا۔جب بلوچ بچہ ہو بہ ہو یسوع بنا بیٹھا تھا!قیامت پاس سے گزری بالاچ جان نے اس قیامت سے ہاتھ بڑھا کر اس ماں کو بچالیا جو اس وقت اپنے معصوم بچے کو صبح کا ناشتہ دے کر اس کا منھ چوم رہی ہے!
تو بالاچ کہاں گیا؟
بالاچ جان کا منھ دھرتی چوم رہی ہے۔بالاچ کو دھرتی نے اپنی بہانوں میں لے لیا ہے۔اب پانی کا ریلہ اوپر سے گزر رہا ہے اور دھرتی نے بالاچ کو ایسے بہانو ں میں لیا ہوا ہے جیسے محبوبائیں اپنے محبوب کو پہلی ملاقات پر بہانوں میں جکڑتی ہیں۔رات بھر چاند منتظر رہا ہے۔اور اب چاند تھکا ماندہ لوٹ رہا ہے۔سورج کی پہلی کرنوں نے بالاچ جان کو نمستے کیا ہے۔اور بلوچ دھرتی کے تمام پنکھ اسے سلامی دینے آئے ہیں۔ہوائیں منتشر ہیں۔برستی بارش سوچ رہی ہے وہ ٹھہر جائے؟برسے؟برس برس کر ٹھہرے؟ٹھہر ٹھہر کر برسے؟پہاڑوں پر پڑے پتھر سوچ رہے ہیں کہ کوئی تو سسئی ہو جو انہیں سفر کرانے پر اُکسائے اور وہ سفر کر کے بالاچ کے قدموں میں آئیں!جب سسئی نہیں تو جب بھی وہ پہاڑوں سے سرک رہے ہیں۔پہاڑوں نے بالاچ کے لیے سر جھلا دیے ہیں۔اس دھرتی پر گلاب کھل آئے ہیں جس دھرتی پر بالاچ کو دھرتی نے اپنی بہانوں میں لیا ہوا ہے۔دیس کی تمام محبوبائیں اپنے پستانوں پر آنسوؤں سے لکھ رہی ہیں ”بالاچ جان!“
دیس کے تمام شہدہ اسے دیکھنے آئے ہیں
کیوں؟
اس لیے کہ بالاچ جان نے ایک بلوچ ماں سے قیامت کو دور کیا
اسے ماتم کے دنوں میں خوشی سے ہمکلام کیا
اسے معصوم بچے کا مسکراتا چہرہ دیا جسے اب وہ ماں چوم رہی ہے
تو کیا بالاچ جان کو بلوچ دھرتی فراموش کر دی گی؟
دھرتی نے محبت کو کبھی فراموش نہیں کیا
اور بالاچ محبت کا
عظیم محبت
محبت کا وچن
جو جب کیا جاتا ہے جب کسی کے من میں محبت کھاٹ مارتی ہے
دھرتی نے کبھی محبت کو فراموش نہیں کیا
ابھی تو پہاڑوں،جھرنوں،ندی نالوں،برستی بارشوں،مٹیالے پانیوں میں بالاچ کا نام لیا جا رہا ہے
شال کی گلیوں میں بالاچ کا نام لیا جا رہا ہے
شاعر محبت کی نظموں میں بالاچ لکھیں گے
محبت۔محبت سے بالاچ کو تصور میں چوم لے گی
پر بہت جلد گلابی ہونٹ محبت سے بالاچ کا نام لے گیں
گلابی ہونٹ بالاچ کا نام چومیں گے
اور دیس کی گلیاں محبت سے بھر جائیں گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں