امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کابل میں القاعدہ کے مارے گئے رہنماء کی موجودگی، طالبان اور افغان سینٹرل بینک کے رویے کے باوجود افغانستان کے غیر ملکوں میں موجود اربوں ڈالر کے منجمد اثاثوں کے اجراء سے متعلق مذاکرات اور بات چیت کو آگے بڑھائے گی۔
رپورٹس کے مطابق افغانستان کی تباہ شدہ معیشت کو بحال کرنے میں مدد کرنے کے اقدام پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ انسانی بحران سے متعلق واشنگٹن کے بڑھتے ہوئے خدشات کو نمایاں کرتا ہے جب کہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ موسم سرما کے قریب آتے ہی ملک کی تقریباً 4 کروڑ آبادی میں سے نصف افراد کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
رائٹرز کی گزشتہ ماہ کی رپورٹ کے مطابق امریکی کوششوں کا بنیادی نکتہ یہ منصوبہ ہے کہ غیر ملکی قبضے میں موجود افغان مرکزی بینک کے اربوں ڈالر کے اثاثوں کو مجوزہ سوئس ٹرسٹ فنڈ میں منتقل کیا جائے۔
منصوبے کے تحت رقوم کا اجرا عالمی بورڈ کی مدد سے کیا جائے اور اس عمل میں طالبان کو نظر انداز کیا جائے جن میں سے بہت سے رہنماؤں پر امریکی اور اقوام متحدہ کی پابندیوں عائد ہیں۔
طالبان نے جون کے آخر میں دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں ان تجاویز پر جوابی تجاویز پیش کیں۔
افغانستان میں معاشی اور انسانی بحران اس وقت مزید بدتر شکل اختیار کر گیا جب واشنگٹن اور امداد فراہم کرنے والے دیگر ممالک نے 15 اگست 2021 کو کابل پر طالبان کی حکومت آنے کے بعد اپنی امداد روک دی۔
یہ بیرونی امداد افغان حکومتی بجٹ کا 70 فیصد حصہ بنتی تھی، طالبان نے ملک پر دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جب کہ 20 سال کی جنگ کے بعد امریکا اور اس کے اتحادی ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے تھے
واشنگٹن نے مختلف پابندیوں کے ذریعے افغان کرنسی اور افغانستان کے بینکنگ نظام کو مفلوج کردیا تھا جب کہ امریکی فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک میں اس کے 7 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے تھے، فروری میں جو بائیڈن نے اس رقم میں سے افغانستان کی بحالی کے لیے نصف رقم مختص کرنے کا حکم دیا تھا۔
امریکی فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک میں افغانستان کے 7 ارب ڈالر کے اثاثوں کے علاوہ دیگر ممالک کے پاس اس کے 2 ارب ڈالر کے اثاثے ہیں۔
ابتدائی طور پر، جو بائیڈن انتظامیہ کے اس مجوزہ منصوبے کے تحت منجمد 3.5 ارب ڈالرز کے اثاثے مجوزہ ٹرسٹ فنڈ میں جاری کیے جائیں گے۔