افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کمانڈر مولوی مہدی منگل کی رات کو ایران داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے، ہرات اور ایران کے درمیان سرحدی علاقے میں مارا گیا۔
طالبان کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ طالبان سے بغاوت کے بعد مہدی اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ گذشتہ دنوں فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہرات اور ایران کے سرحدی علاقے میں گذشتہ رات مارا گیا ہے۔
تاہم وزارت دفاع نے اب تک میڈیا میں اس کے جسد خاکی یا دوسرے شواہد پیش نہیں کئے ہیں کہ جس سے تصدیق ہوسکے کہ حقیقت میں وہ مارے گئے ہیں یا نہیں۔
انڈیپنڈنٹ فارسی کے مطابق ایک باخبر ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مولوی مہدی پیر کو زمینی راستے سے ایران میں داخل ہوئے اور منگل کو ایرانی فورسز نے اسے گرفتار کر کے طالبان کے حوالے کر دیا۔
ذرائع نے مزید کہا کہ مہدی زندہ ہے اور طالبان اس سے اس کے مسلح گروپ کے بارے میں تحقیقات کررہے ہیں جو اب بھی بلخاب کے پہاڑوں میں موجود ہیں انہیں ختم کرنے کے بعد اسے پھانسی دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ذرائع نے مزید کہا کہ اسلام قلعہ اور تائباد کے درمیان سرحدی مقامات پر تعینات فورسز کے کمانڈروں نے منگل کے آدھی رات کو وزارت دفاع، وزارت داخلہ اور طالبان انٹیلی جنس کو اطلاع دی کہ انہوں نے مولوی مہدی کو ہلاک کر دیا ہے۔ ان میں سے کچھ کمانڈروں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اسے گرفتار کر لیا ہے اور اسے کابل منتقل کررہے ہیں۔
طالبان کے بعض ارکان نے ٹوئٹر پر مولوی مہدی کی تصویر پوسٹ کی اور لکھا کہ انہیں زندہ پکڑا گیا ہے۔
دوسری جانب مولوی مہدی کے قریبی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ طالبان کی طرف سے شائع کی گئی ایک تصویر میں اب تک وہ طالبان کے قید میں ہیں۔
ایران کے حکام نے پہلے ہی مولوی مہدی اور بلخاب کی جنگ کو “امریکہ کی فتنہ” کہا تھا۔
ایرانی صدر کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان حسن کاظمی قمی نے تقریباً ایک ماہ قبل ایک ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ بلخاب کی جنگ امریکہ نے ترتیب دی تھی اور اس کا مقصد افراتفری پھیلانا اور خانہ جنگی شروع کرنا ہے۔
مہدی مجاہد، جو مولوی مہدی کے نام سے جانا جاتا ہے، جولائی کے اوائل میں اپنے درجنوں مسلح ساتھیوں کے ساتھ طالبان کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں الگ ہوکر پہاڑوں پہ چلے گئے تھے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ طالبان حکومت نے افغانستان میں ہزارہ اور شیعوں کے حقوق کو نظر انداز کیا ہے اور وہ طاقت کے زور پر شیعوں کی پوزیشن کو کمزور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جولائی کے اوائل میں بلخاب کے پہاڑی علاقوں میں سے مولوی مہدی کی تصویر شائع ہوئی تھی جس میں ان کے ساتھ افغانستان کی سابقہ حکومت میں اطلاعات و ثقافت کے وزیر اور بامیان کے گورنر طاہر ظاہر کو دکھایا گیا تھا۔ افغانستان پر طالبان کی حکومت کے باوجود ملک نہیں چھوڑنے والے طاہر ظاہر ایک ماہ قبل تک بلخاب میں تھے لیکن اب یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں۔