افغانستان: سامراجی پشت پناہی میں طالبان کے قبضے کا ایک سال ۔ زلمی پاسون

230

افغانستان: سامراجی پشت پناہی میں طالبان کے قبضے کا ایک سال

تحریر: زلمی پاسون

دی بلوچستان پوسٹ

افغانستان پر طالبان کے سامراجی پشت پناہی میں خونریزی اور بربادیاں پھیلانے والے قبضے کو ایک سال پورا ہو چکا ہے۔ گزشتہ سال 15 اگست کو طالبان کے افغانستان پربا آسانی قبضے نے خود طالبان کے وحشی درندوں سمیت دنیا بھر کے لوگوں کو سکتے میں ڈال دیا اور امریکی پشت پناہی میں اشرف غنی کی ریت پر بنی ہوئی ریاست اور ان کے کرپٹ اداروں کو معمولی سا طوفان اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ حالانکہ امریکی سامراج کے ڈرامائی انخلاء کے وقت وہ اپنے بنائی گئی افغان آرمی کو مرحلہ وار ایک سال تک اور پھر چھ اور تین مہینوں تک طالبان سے نبردآزما ہونے کا عندیہ دے رہے تھے، مگر محض گیارہ دن کے دورانیے میں طالبان نے پورے افغانستان پر قبضہ مکمل کرلیا۔ جس پر طالبان رہنماء ملا غنی برادر نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتنی آسانی سے فتح ملنے کا ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

امریکی سامراج کے ڈرامائی انخلاء اور طالبان کے سامراجی پشت پناہی میں قبضے پرسابق افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنے حالیہ تازہ ترین انٹرویو میں امریکی سامراج اور اپنی کابینہ کو موردِ الزام ٹہرایا جبکہ افغان نوجوانوں سے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا۔ یہ سب کہتے ہوئے ڈاکٹر اشرف غنی نے خود کو بری الذمہ قرار دیا۔ جبکہ حقائق بالکل اس کے برعکس ہیں۔ کیونکہ ڈاکٹر اشرف غنی کی کوئی عوامی بنیادیں ہی نہیں تھیں اور نہ ہی وہ ایک خود مختار سیاستدان اور آزاد نمائندہ تھا بلکہ وہ امریکی سامراج کے بلاواسطہ ایجنٹ کا کردار ادا کر رہا تھا۔ ایسے میں امریکی سامراج کو موردِ الزام ٹھہرانے کا مقصد اپنے آپ کو بھی کوسنا ہوتا ہے۔

نائن الیون کے بعد امریکی سامراج کی مداخلت کے وقت صرف مارکس وادیوں نے ہی وہ حقیقی تناظر تخلیق کیا تھا جوکہ اُس وقت لبرلز کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا۔ امریکی سامراج اور اس کے نیٹو اتحادیوں کی سربراہی میں کی جانے والی سامراجی مداخلت اور ممکنہ شکست کے حوالے سے مارکسیوں نے شروع سے پیش گوئی کی تھی۔ 2001ء میں کابل کے سقوط کے فوراً بعد، ایلن ووڈز نے لکھا:

”طالبان، اگرچہ زخمی ہیں مگر وہ تباہ نہیں ہوئے، اور دوبارہ واپسی کر سکتے ہیں، کیونکہ کابل میں نئی حکومت سے مایوسی پیدا ہو گئی ہے۔“ یہ پیش گوئی 20 سال بعد سو فیصد درست ثابت ہوئی۔

امریکی سامراج اور اس کی نام نہاد عالمی و علاقائی سامراجی قوتوں کی دو عشروں پر محیط اس نام نہاد ”دہشتگردی مخالف جنگ“ پر ایک اندازے کے مطابق 2.313 ٹریلین ڈالر خرچ کیے گئے۔ اس میں افغانستان اور پاکستان دونوں میں آپریشنز شامل ہیں۔ نوٹ کریں کہ اس مجموعی رقم میں وہ فنڈز شامل نہیں ہیں جو امریکی سامراج اس جنگ کے دوران متاثر ہونے والے امریکی سابق فوجیوں کی تاحیات دیکھ بھال پر خرچ کرنے کا پابند ہے، اور نہ ہی اس میں جنگ کی مالی اعانت کے لیے ادھار کی گئی رقم پر مستقبل میں سود کی ادائیگی شامل ہے۔ افغانستان پر خرچ ہونے والا یہ 2.313 ٹریلین ڈالر نائین الیون کے بعد کی جنگوں کی کل تخمینہ لاگت کا ایک حصہ ہے۔ اس نام نہاد جنگ کے براہ راست نتیجے میں 2 لاکھ 43 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں بیماری کی وجہ سے ہونے والی اموات، خوراک، پانی، بنیادی ڈھانچے تک رسائی، اور جنگ کے دیگر بالواسطہ نتائج کی وجہ سے ہونے والی اموات شامل نہیں ہیں۔ افغانستان میں خرچ شدہ رقم کے اعداد و شمار نائین الیون کے بعد کی امریکی جنگوں کے بڑے اخراجات کا حصہ ہیں، جو عراق، شام، یمن، صومالیہ اور دیگر جگہوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ جبکہ اس طویل سامراجی مداخلت کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے تو یہ تحریر محض تعارف ہی سمجھی جا سکتی ہے۔

طالبان کے قبضے کے بعد سے لے کر اب تک افغانستان کی سامراجی بیساکھیوں پر کھڑی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ اس قبضے کے بعد افغانستان کو عالمی بینکنگ سسٹم سے الگ کرتے ہوئے ان کے غیر ملکی ذخائر کو منجمد کر دیا گیا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران معیشت ایک تہائی گر گئی ہے۔ ملک کی بیشتر آبادی بھوک اور قحط سے دوچار ہے۔ افراط ِزر میں پچاس فیصد اضافہ ہو چکا ہے جبکہ بیس میں سے صرف ایک خاندان کے پاس کھانے کے لیے کچھ غذائی اشیاء موجود ہیں۔ طالبان نے اقتدار پر قبضے کے لیے نام نہاد”دوحہ معاہدہ“ کیا، جس میں جھوٹ پر مبنی وعدوں کا اعادہ کیا گیا تھا کہ وہ بدل گئے ہیں، اور افغان عوام کیلئے”بہتر مستقبل“ کے خواہاں ہیں مگر طالبان کے اب تک کیے گئے اقدامات مکمل طور پر افغان عوام دشمنی پر مبنی ہیں جن میں خواتین کے حقوق سمیت تمام تر بنیادی اور جمہوری حقوق پر قدغنیں لگانا شامل ہیں۔

طالبان نے کابل پر قبضے کے بعد جس نظام کو اپنایا ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے جو امریکہ اور یورپ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں موجود ہے۔ صرف اس پر مذہب کا خود ساختہ نقاب چڑھایا گیا ہے جبکہ حقیقت میں سود خوری اور بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی حاکمیت پر مبنی سرمائے کا نظام ہی موجود ہے۔ بینکاری کے نظام میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی بلکہ بینکوں میں خالی تجوریوں کو بھرنے کے لیے امریکی سامراج سے ہی ڈالروں کی بھیک مانگی جا رہی ہے تاکہ سود خوری پر مبنی اسی سرمایہ د ارانہ نظام کو چلایا جا سکے۔ اسی طرح مختلف بینکوں کے سربراہان کو تبدیل کر کے اپنے گماشتے لگا دیے گئے ہیں جو مذہبی لباس پہنے وہی کام کر رہے ہیں جو پہلے ٹائی سوٹ پہن کر امریکی گماشتے کیا کرتے تھے۔ بیرونی سرمایہ کاری اور تجارت پر بھی کوئی قدغن نہیں اور سرمایہ داروں کی جانب سے مزدوروں کے استحصال پر بھی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی اور نہ ہی معدنی وسائل، زرعی پیداوار اور معیشت کے دیگر کلیدی شعبوں کو مزدوروں کے اجتماعی کنٹرول میں لیا گیا ہے۔ بلکہ طالبان کی خونریزی اور جبر کی وجہ سے مزدوروں کااستحصال کئی گنا بڑھ چکا ہے اوروہ پہلے سے بھی کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں جبکہ لاکھوں لوگ بیروزگاری اور بھوک سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

ایک سال قبل موجود حکومت اور اب میں فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے تمام معدنی وسائل اور تعمیرات کے بڑے ٹھیکوں سے امریکی کمپنیاں اور کابل میں موجود ان کی گماشتہ حکومت کمیشن وصول کرتی تھی اور اب طالبان کی قیادت میں موجود عالم دین اور ”مجاہد“ اپنا کمیشن وصول کرتے ہیں۔ اکثر جگہوں پر تو ٹھیکیدار بھی تبدیل نہیں ہوئے اور وہی قبائلی سردار، ڈکیت اور قاتلوں کے جتھوں کے سربراہ جو پہلے امریکی گماشتہ حکومت کے دور میں کاروباروں کے مالک تھے اب طالبان کے ساتھ مل کر لوٹ مار کرتے ہیں۔

سماجی پیداوار کے بنیادی نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ سے لے کرچین اور پاکستان تک کے حکمران طبقات سے طالبان کا کوئی بھی نظریاتی اختلاف نہیں۔ محض وقتی طور پر کچھ سٹریٹجک اور سیاسی حوالوں سے اختلافات موجود ہیں جو وقت کے ساتھ ختم بھی ہو سکتے ہیں۔

افغانستان کا معاشی بحران

کسی بھی سماج یا ملک کے اندر معیشت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ معیشت ہی کے بل بوتے پر سماج کے اندر تمام تر مظاہر اپنا اظہار کرتے ہیں۔ افغانستان کی معیشت کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو اس وقت افغان معاشی صورتحال تاریخ کی بدترین حالت سے گزر رہی ہے۔ جہاں ایک طرف جی ڈی پی 34 فیصد سکڑ گئی ہے جبکہ 90 فیصد لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں اور اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق 2.2 کروڑ یعنی نصف آبادی سے زیادہ لوگ غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ افیون کی کاشت پر بظاہر پابندی لگائی گئی ہے، جبکہ اندرونی طور پر حالات اس کے برعکس ہیں۔ کیونکہ طالبان کے پاس اس وقت اپنے قدرتی ذرائع اور افیون کی کاشت کے بغیر معیشت کو چلانے کے لیے کوئی اور متبادل نہیں ہے۔ زلزلے، سیلاب اور قدرتی آفات نے افغان سماج کو مزید تباہ کر دیا ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق اس وقت بھی افغانستان میں بچوں کی خرید و فروخت کے ساتھ لوگ اپنے مختلف اعضاء بیچنے پر مجبور ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق ایسے اوقات بھی دیکھنے کو ملے ہیں کہ لوگ بچوں کو معمولی قیمت پر بیچتے ہیں مگر لوگوں کے پاس خریدنے کے لئے معمولی پیسے بھی نہیں ہوتے۔ ملک کے مختلف شہروں میں روٹی بنانے والے نان بائیوں کی دکانوں پر خواتین کا رش لگا رہتا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں محض روٹی لے کر جائیں۔ علاج معالجے کے حوالے سے افغانستان میں سوچنا خواب ہی سمجھا جاسکتا ہے۔

افغانستان کی معیشت 15 اگست 2021ء کو طالبان کے ملک پر قبضے سے پہلے ہی خراب ہو رہی تھی، شدید خشک سالی، کرونا وبا، پچھلی حکومت پر اعتماد میں کمی، امریکی اور دیگر غیر ملکی فوجیوں کے جانے کے بعد بین الاقوامی فوجی اخراجات میں کمی، ہنرمند افراد اور سرمایہ کاری کی بیرونِ ممالک میں پرواز، اور طالبان کی میدان جنگ میں پیش قدمی کی وجہ سے شدید دباؤ میں تھی۔ طالبان کے قبضے کے فوراً بعد سویلین اور سیکورٹی امداد (8 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ، جو افغانستان کی جی ڈی پی کے 40 فیصد کے برابر ہے) کی اچانک کٹوتی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ دنیا کا کوئی بھی ملک اتنی بڑی معاشی گراوٹ نہیں جھیل سکتا تھا۔ عالمی پابندیوں کی وجہ سے افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کے منجمد ہونے اور غیر ملکی بینکوں کی افغانستان کیساتھ کاروبار کرنے میں ہچکچاہٹ کی وجہ سے حالات بدترین شکل اختیار کرچکے ہیں۔

طالبان کے پاس ان مسائل کے حل کے حوالے سے کوئی سنجیدہ فارمولا نہیں بلکہ وہ صرف خواتین کے پیچھے پڑے ہیں جہاں اقتدار پر قابض ہونے سے لے کر اب تک خواتین کے حقوق پر قدغن لگانے کے لئے 24 احکامات صادر کر چکے ہیں۔ لڑکیوں پر اب تک تعلیم کے دروازے بند ہیں جن کی وجوہات وہ کچھ اور بتا رہے ہیں مگر درحقیقت اس ضمن میں طالبان کے اندرونی تضادات ہی حتمی شکل اختیار کر لیتے ہیں جہاں طالبان کے رجعتی اور ایک حد تک اعتدال پسند دھڑوں کے درمیان اس مسئلہ پر جھگڑا ہے۔ خواتین کے حوالے سے اگر وہ دباؤ میں آ کر کوئی عوامی فیصلہ کرتے ہیں تو اس کی وجہ سے ان کے تضادات کو معیاری جست مل سکتی ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ وہ ایک اور حوالے سے بھی اس فیصلے کو دیکھ رہے ہیں؛ وہ ہے جبر اور بربریت۔ یعنی کہ خواتین سمیت دیگر جمہوری حقوق پر قدغن لگانے اور ایک مطلق العنان حکومت کے نفاذ کے حوالے سے خود کو مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ بات تو واضح ہے کہ طالبان کے پاس جبر اور بربریت کے علاوہ عوام کو دینے کے لئے اور کچھ بھی نہیں۔

افغانستان اور عالمی صورتحال

افغانستان اس وقت جن مشکلات کا شکار ہے، سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی بحران کی وجہ سے کم و بیش ایسی ہی صورتحال تقریباً ہر ملک میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ہر طرف پراکسی جنگیں، دہشت گردی، بربریت، استحصال اور مہنگائی نے محنت کش طبقے کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ سرمایہ داری کے زوال کی وجہ سے آج افغانستان بربریت کے اس مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں ہر طرف انتشار کی کیفیت ہے۔ کروڑوں لوگ فاقوں کا شکار ہیں۔ سامراجی پشت پناہی میں قابض طالبان پر عالمی پابندیاں ہیں اور اس وقت طالبان چاہتے ہیں کہ پابندیاں ختم ہو کر ان کی حکومت کو عالمی طور پر تسلیم کیا جائے مگر ظواہری کے قتل کے بعد بالخصوص اور طالبان کی طرز حکومت کی وجہ سے بالعموم نام نہاد عالمی برادری کو طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ نہ ہی وہ کسی جلد بازی کا مظاہرہ کریں گے کیونکہ انہیں ٹکے کی پرواہ نہیں کہ افغانستان میں عام عوام پر کیا گزر رہی ہے۔ نام نہاد عالمی برادری کیلئے تو اپنے سامراجی عزائم اہم ہیں۔

طالبان کی واپسی کے حوالے سے پاکستان کا حکمران طبقہ ایک وقت تک ڈھول پیٹتا رہا مگر طالبان کے ساتھ تعلقات میں سردمہری آنے سے اب اس ڈھول کے پردے بھی پھٹنے لگے ہیں۔ تعلقات کی سرد مہری کی وجوہات میں پاکستانی ریاست کا اپنا بحران اور عالمی طور پر امریکی سامراج کے آشیرباد کا ختم ہونا اہم ہیں۔ اس وقت پاکستان معاشی دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہے، جس کی وجہ سے ریاستی اداروں کے آپسی تضادات اب پھٹنا شروع ہو چکے ہیں اور ایک خوفناک ریاستی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ چند ایسے مزید عوامل کارفرما ہیں جہاں افغانستان پر قابض طالبان کے حوالے سے پاکستانی ریاست کی دھڑہ بندیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ پاکستان اور طالبان کے درمیان ٹی ٹی پی سمیت دیگر مسلح جتھوں اور نام نہاد ڈیورنڈ لائن پر کشیدگی اور اس لائن کو عالمی بارڈر قرار دینے کے حوالے سے کافی مسائل موجود ہیں۔ ڈیورنڈ لائن پر کشیدگی کے حوالے سے بھی دو اہم محرکات کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے جہاں ایک طرف طالبان کو افغانستان کی عوام کی جانب سے پاکستان کے ایجنٹ قرار دینے کی تاثر کو زائل کرنے کے لیے طالبان کو پاکستان مخالف رویہ اپنانے پر ڈھونگ کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ افغانستان کے 98 فیصد مظلوم عوام پاکستانی ریاست کے سامراجی کردار کی وجہ سے یہاں کے حکمرانوں اور فوجی اشرافیہ سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ اس وقت ریاست پاکستان کا ایک دھڑا افغانستان میں مداخلت کے خلاف ہے اور ایک حد تک برادارانہ تعلقات کے حق میں ہے۔ جبکہ ایک دھڑا جوکہ افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بھی سمجھتا ہے، ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کے حق میں نہیں ہے جس کی وجہ سے کبھی کبھار ہمیں تھوڑی بہت کشیدگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مگر خطے کی بدلتی ہوئی عمومی صورتحال کے ساتھ ان تمام تر حالات کا بار بار جائزہ لینا پڑے گا۔

طالبان میں صرف ایک تبدیلی آئی ہے کہ اب وہ خطے میں تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال کے ساتھ خود کو بھی مجبوراً تبدیل کررہے ہیں۔ جہاں طالبان نے پہلی بار انڈیا کے ساتھ اعلیٰ سطح پر تعلقات کی بحالی کے لیے کوشش شروع کر دی ہے، جس میں ہندوستان کا افغانستان میں سفارت خانہ دوبارہ فعال کرنے اور معطل شدہ پراجیکٹس پر کام کا آغاز کرنے کا عندیہ شامل ہے۔ یہ عنصر بھی طالبان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی سرد مہری میں اضافے کی ایک اور وجہ ہے۔ جبکہ حقانی نیٹ ورک پر اب تک پاکستانی اثرورسوخ کے کم ہونے کا شائبہ نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ طالبان چین کیساتھ بھی پینگیں بڑھا رہے ہیں، مگر چین آج قطعاً وہ کردار ادا نہیں کر سکتا جو امریکہ کر رہا تھا اور کسی صورت بھی امریکہ کا متبادل نہیں بن سکتا۔ کیونکہ چین اب بھی عالمی سطح پر معاشی، تکنیکی اور فوجی طاقت کے حوالے سے امریکہ سے کئی گنا پیچھے ہے۔ اس کے علاوہ چین کے اپنے اندرونی اور بیرونی بحرانات بھی موجود ہیں، جس کی وجہ سے وہ افغانستان جیسے تباہ حال ملک کے خرچوں کو بالکل بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ وہ صرف خام مال کی حد تک افغانستان کی لوٹ مار کرنے کی کوشش کرے گا۔

اس کے علاوہ امریکہ اور طالبان کے درمیان تعلقات ابھی کشیدہ ہیں گوکہ دونوں جانب سے اس کشیدگی کو کم کرنے کی متعدد کوششیں ہو رہی ہیں اور عین ممکن ہے کہ دونوں عوام دشمن قوتیں دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات استوار کر لیں او ر ایک دوسرے کی اتحادی بن جائیں۔ امریکہ کی طالبان سے ناراضگی کی وجہ ان کی مذہبی بنیاد پرستی یا کوئی دوسری وجہ نہیں بلکہ صرف اپنی خفت اور شرمندگی ہے جو انہیں کابل سے نکلتے ہوئے اٹھانی پڑی۔ وہ طالبان کو واپس اقتدار دینا چاہتے تھے اور نام نہاد معاہدے کر کے اپنی ساکھ بحال رکھتے ہوئے افغانستان سے جانا چاہتے تھے لیکن انہیں خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ بیس سالوں میں سینکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے امریکہ نے افغانستان میں جو کچھ تعمیر کیا وہ ایک مہینہ بھی نہیں چل سکے گا۔ اس حوالے سے تمام امریکی دانشوروں، یونیورسٹیوں کے پروفیسروں اور تجزیہ نگاروں کے دعوے کھوکھلے اور ردی ثابت ہوئے اور حالات و واقعات نے پوری دنیا میں امریکہ کی ذلت اور کمزور ی کو واضح کر دیا۔ دوسری جانب طالبان بھی اس حوالے سے حیران و پریشان تھے اور انہیں بھی امریکہ سے ملنے والی بھیک سے ہاتھ دھونے پڑے گو کہ وہ مسلسل اس بھیک کے لیے گڑگڑا رہے ہیں اور بھیک دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کی خدمت کرنے کے وعدے بھی کر رہے ہیں۔ ایمن الظواہری کا قتل اسی کا شاخسانہ دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ کے انخلا کے بعد 31 جولائی کو امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کا کابل کے پرآسائش رہائشی مقام پر مارے جانا طالبان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔

یکم اگست کو امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس سے یہ اعلان کیا کہ گزشتہ رات یعنی 31 جولائی کو کابل کے سفید پوش علاقے کے ایک محل نما گھر میں مقیم القاعدہ کے قائد ایمن الظواہری کو ہم نے ڈرون حملے کے ذریعے مار دیا جب وہ صبح اپنے گھر کی بالکنی میں موجود تھا۔ اس کے بعد نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں اس خبر کو لے کر کہرام سا مچ گیا، اور یہ کہا گیا کہ نائن الیون کے تقریباً 21 سال بعد ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ ہلاک ہوچکا ہے اور جو بائیڈن کے بقول امریکہ اور پوری دنیا اب ان دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ ہے۔ واضح رہے کے ایمن الظواہری کابل شہر کے وسط میں واقع شیر پور کے سفید پوش علاقے میں ایک عالیشان گھر کے اندر موجود تھے جہاں بڑے بڑے گھر واقع ہیں اور ان محل نما گھروں پر کبھی امریکی آشیرباد سے سرمست جنگجوؤں کا قبضہ ہوا کرتا تھا۔ یاد رہے کہ اس علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے امریکی دلال حکومت کے اس وقت کے وزیر دفاع جنرل فہیم نے کچے مکانات اور لوگوں کے ذرائع آمدن کو بلڈوز کرتے ہوئے امریکی ڈالر کے ذریعے اپنے چہیتوں کو نوازنے کے لیے یہ سفید پوش علاقہ تعمیر کیا تھا۔

گزشتہ سال افغانستان سے دم دبا کر نکلتے ہوئے امریکی سامراج نے مظلوم افغان عوام کو ایک بار پھر پتھر کے زمانے میں دھکیلتے ہوئے اپنے اور دیگر علاقائی سامراجی قوتوں کی سرپرستی میں بنائی گئی نام نہاد امارت اسلامی کے ٹھیکیداروں یعنی طالبان کے حوالے کر دیا تھا۔ یوں افغانستان کو طالبان کے لیے ایک پلیٹ میں کباب کی طرف پیش کرتے ہوئے اپنے خصی پن کو چھپانے کے لاکھ جتن کئے مگر اب تک امریکی سامراج نہ صرف امریکی محنت کش عوام بلکہ پوری دنیا اور اس کے دلال حواریوں کے سامنے شرمسار ہو رہا ہے۔ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے ایک سال بعد افغانستان کے مظلوم عوام کو سنگین حالات کا سامنا ہے۔ ظواہری کے قتل سے پہلے امریکی حکام انسانی امداد کی خاطر افغان مرکزی بینک کے تقریباً نو ارب ڈالر کے منجمد اثاثوں میں سے نصف کو افغان عوام کو دینے کے لیے ایک منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ جس کو ایمن الظواہری کے قتل ہونے کے واقعے نے وقتی طور پر معطل کر دیا ہے۔ ایمن الظواہری کو مارنے کے بعد طالبان کی جانب سے اب تک واضح مؤقف صرف یہ سامنے آیا ہے کہ ہمیں ایمن الظواہری کے حوالے سے کوئی خبر نہیں تھی جبکہ دوسری جانب انہوں نے امریکہ پر الزام لگایا کہ افغان سرزمین پر ڈرون حملہ کرنا بلاواسطہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے بغیر طالبان کا کوئی اور واضح مؤقف نہیں ہے اور نہ ہی انہوں نے امریکی حملے کی زد میں مارے جانے والے ایمن الظواہری کے دعوے کو مسترد کیا ہے۔ اس واقعہ پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کے لیے ہمیں ہر پہلو سے نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اور عمومی طور پر سامراجی پشت پناہی میں افغانستان پر قابض طالبان کے مظہر کو بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ افغان عوام پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے بحث کو سمجھنا اہم ہے۔

اُسامہ بن لادن کے قتل کی تحقیقات کا آج تک کوئی سراغ نہیں ملا کہ وہ کب سے اور کیسے پاکستان میں مقیم تھا، ظواہری کے واقعے کے حوالے سے بھی یہی بات طالبان کی جانب سے سامنے آ رہی ہے۔

وجوہات

امریکی سامراج نے القاعدہ نامی دہشت گرد تنظیم کو ختم کرنے یا ان کی قیادت یعنی اُسامہ بن لادن کو مارنے یا افغانستان سے اس وقت کی حکومت سے حوالگی کا مطالبہ کیا تھا۔ جو کہ اس وقت کے طالبان حکومت نے مسترد کیا تھا اور یوں نام نہاد وار آن ٹیرر کا آغاز ہوا۔ اُسامہ بن لادن کو پورے ایک عشرے بعد 2 مئی 2011ء کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ملٹری کیمپ کے قریب ایک سرجیکل سٹرائیک میں مار دیا گیا۔ اب اگر اُسامہ اور الظواہری کے واقعات کا موازنہ کیا جائے تو ان دونوں واقعات میں مماثلت اس حوالے سے پائی جاتی ہے کہ اُسامہ کے واقعے کے وقت پاکستانی ریاست نے چپ کا روزہ رکھا تھا، جس طرح آج نام نہاد امارت اسلامی نے رکھا ہے۔ اُسامہ بن لادن کے قتل کی تحقیقات کا آج تک کوئی سراغ نہیں ملا کہ وہ کب سے اور کیسے پاکستان میں مقیم تھا، ظواہری کے واقعے کے حوالے سے بھی یہی بات طالبان کی جانب سے سامنے آ رہی ہے۔

اگرچہ الظواہری کے قتل کے بعد سراج الدین حقانی سمیت دیگر طالبان قیادت اور بالخصوص غیرملکی دہشت گرد کا بل چھوڑ کر وقتی طور پر افغانستان کے دیگر مضافاتی علاقوں میں چلے گئے ہیں مگر اس سے قطعاً یہ نتیجہ نہیں اخذ کیا جا سکتا کہ امریکہ طالبان یا دہشت گردی کو ختم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ الظواہری کے قتل کو امریکی سامراج افغانستان میں اپنی ذلالت کو چھپانے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یعنی کہ افغانستان سے نکلنے میں اپنے خصی پن کو چھپانے، کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے اور خود کو ایک بار پھر دنیا میں تھانے دار ثابت کرنے کی کوشش۔ جبکہ بائیڈن امریکہ میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے اور اپنی پارٹی کی کانگریس میں پوزیشن مظبوط کرنے کے لیے استعمال کرنے کو کوششوں میں ہے۔ اس سے بڑھ کر اس حملے کا اور کوئی مقصد نہیں تھا۔

اثرات

سب سے پہلے اگر بات کی جائے تو اس واقعے کی روشنی میں دونوں اطراف سے نام نہاد دوحہ معاہدے کے خلاف ورزی کی باتیں ہو رہی ہیں جس میں طالبان اور امریکی سامراج دونوں معاہدے کی خلاف ورزی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ امریکی سامراج کی جانب سے افغانستان میں غیر ملکی دہشت گردوں اور بالخصوص القاعدہ کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کی مد میں طالبان پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ طالبان نے اپنے عمل کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ وہ تبدیل نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی وہ دوحہ معاہدے کی پاسداری کر رہے ہیں۔ جبکہ طالبان الظواہری کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے افغان سرزمین پر عالمی اقدار کو پامال کرتے ہوئے حملہ کیا اور یہ حملہ درحقیقت دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کے مترادف ہے گوکہ دوحہ معاہدے میں یہ شق شامل تھی کہ القاعدہ کو محفوظ ٹھکانے فراہم نہیں کیے جائیں گے۔

اس کے علاوہ اس حملے سے طالبان اور ان کی صفوں میں موجود عالمی دہشت گردوں کی موجودگی پر بلاواسطہ اثرات مرتب ہوں گے، جوکہ طالبان کے لیے ایک دھچکا بھی ہے کیونکہ طالبان کے انہی دہشتگردوں کے ساتھ کافی عرصے سے تعلقات میں ہیں اور ایک ساتھ لڑے بھی ہیں۔ مزید یہ کہ اس حملے کے بعد طالبان عالمی برادری کو یہ باور کروانے میں مکمل طور پر ناکام ہوئے جس کا وہ بارہا اظہار کرتے رہے۔ تاشقند کانفرنس میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر متقی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن ہے اور دہشت گردی نہیں ہو رہی ہے، نہ ہی کوئی دہشت گرد موجود ہے، جس کی وجہ سے افغانستان کی ترقی پر بات ہورہی ہے جو کہ افغانستان میں امن کا واضح ثبوت ہے۔ گوکہ افغانستان میں اس وقت جو ’امن‘ ہے یہ ”قبرستان کے امن“ کے مشابہ ہے جہاں کروڑوں لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں اور نصف سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے چلی گئی ہے۔

ظواہری کے قتل کا واقعہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان موجودہ تضادات کو مزید ہوا دے سکتا ہے، کیونکہ مختلف رپورٹس کے مطابق ظواہری طالبان کے وزیرداخلہ سراج الدین حقانی کے عطا کردہ محل نما گھر میں رہائش پذیر تھا اور طالبان کی قیادت کے علم میں تھا یا نہیں مگر حقانی نیٹ ورک کی قیادت اس امر سے بخوبی واقف تھی۔ جبکہ طالبان قیادت کے حوالے سے بھی لاعلمی والی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے اقدامات کا ہونا یکطرفہ یا ایک گروپ کی مرضی سے ہونا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ دیگر رپورٹس میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ الظواہری سے صرف سراج الدین حقانی اور ملا یعقوب طالبان وزیر دفاع کی ملاقاتیں اسی گھر میں ہوئی ہیں۔ اب اگر اس بات کو طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے اندرونی تضادات کی روشنی میں دیکھا جائے تو طالبان ٹی ٹی پی کے حوالے سے بالکل ویسا ہی دوستانہ رویہ رکھتے ہیں جیسا حقانی نیٹ ورک القاعدہ کے حوالے سے رکھتا ہے۔ اس وقت افغانستان میں مختلف حملوں میں ٹی ٹی پی کے کچھ قائدین کو مختلف شکلوں میں نشانہ بنایا گیا ہے جس کو طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے اندرونی تضادات کی شکل میں بھی دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ جبکہ حالیہ چند دنوں میں طالبان کے اہم کمانڈرز اور ان کے رفقا پر پے در پے حملے ہو رہے ہیں، جس سے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے تضادات واضح ہورہے ہیں۔

ظواہری کے قتل کے نتیجے میں سابقہ افغان حکومت کے بیرونی اثاثہ جات کا وقتی طور پر منجمد رہنے کا امکان بھی موجود ہے۔ ان اثاثہ جات کی نصف رقم بائیڈن انتظامیہ نے نائن الیون کے متاثرہ خاندانوں کو دینے کا فیصلہ کیا تھا، جبکہ نصف رقم کو افغان عوام تک رسائی کے حوالے سے پیچیدہ معاملے پر تاشقند کانفرنس میں افغانستان کیلئے مخصوص امریکی نمائندے کے ساتھ مذاکرات بھی ہوئے تھے۔ الظواہری کے قتل کے بعد امریکی حکام سمیت دیگر عالمی قوتوں کی جانب سے طالبان کو افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں مکمل طور پر ختم کرنے کا کہا جا رہا ہے۔

داخلی چیلنجز

دوسری جانب طالبان بار بار یہ تکرار کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت کو عالمی طور پر تسلیم کیا جائے۔ طالبان کی جانب سے جون کے آخر میں تین روزہ ملک گیر سطح پر مذہبی علماء اور طالبان حمایت یافتہ قبائلی رہنماؤں پر مشتمل ہزاروں کی تعداد میں جرگے کے شرکاء سے بھی یہی مطالبہ پیش کرایا گیا کہ طالبان کو عالمی طور پر تسلیم کرتے ہوئے ان کے معاشی مسائل کا حل نکالا جائے۔ جبکہ طالبان کے نام نہاد امیر ہیبت اللہ نے ساتھ ہی مغرب کے احکامات کی تعمیل سے صاف انکار کیا تھا۔ مگر ساتھ ہی طالبان حکومت کے تسلیم کرنے کو افغان عوام کے مسائل کا حل کا قرار دیا تھا۔ عالمی برادری اور بالخصوص امریکی سامراج ظاہری طور پر اب تک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے جن شرائط کی بنا پر انکار کر رہا ہے وہ یہ ہیں: دوحہ معاہدے کی مکمل پاسداری، مخلوط حکومت کا قیام، خواتین کے حقوق کی پاسداری اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کا خاتمہ۔ مگر طالبان ان تمام شرائط کو ماننے سے کترا رہے ہیں کیونکہ اس وقت طالبان کے درمیان مختلف فیکشنز اور تضادات کی وجہ سے وہ اپنی صفوں میں اتحاد کے خواہاں ہیں، جس کی وجہ سے وہ ایسے اقدامات کرنے سے پہلے بارہا سوچیں گے۔ بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے روزگار پر وہ مختلف حیلے بہانے پیش کر رہے ہیں، جس کا عملی اظہار مارچ کے مہینے میں ہوا تھا۔ مگر اس کے باوجود طالبان مصنوعی طور پر اپنی صفوں میں اتحاد برقرار نہیں رکھ سکتے اور نہ ہی وہ انتظامی امور کی انجام دہی کر سکتے ہیں۔ عید الاضحی کے موقع پر طالبان وزیردفاع ملایعقوب کا واٹس اپ کلپ وائرل ہوا تھا، جس میں وہ بدانتظامی کی شکایت کے ساتھ ساتھ اپنے زیر دست سکیورٹی اہلکاروں سے گلے کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ”جب ہم اپنے سکیورٹی اہلکاروں کو کسی جگہ پر بھیجتے ہیں تو وہ عید ملن پارٹی یا دیگر ذاتی سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے دشمن طاقت اپنے عزائم میں کامیاب ہوجاتی ہے“۔

دوران جنگ طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان تضادات کو دبا کر رکھا گیا تھا مگر جونہی ان کو اقتدار کی مسند پر لا کر بٹھا دیا گیا تب سے ان کے مخفی تضادات بھی کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔ جس میں طاقت کی کشمکش اور مال کی لوٹ مار اہم ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کو ایکسپورٹ کیے جانے والے کوئلے کے اوپر مسئلہ اُس وقت شدت اختیار کرگیا جب طالبان نے اپنے ہزاراہ کمانڈر مہدی مجاہد کو برخاست کرنے کے بعد اسے قید کیا اور پھر عوامی دباؤ کی وجہ سے اس کو رِہا کرنا پڑا۔ مگر رِہا ہونے کے فوراً بعد مہدی نے صوبہ بلخ کے ضلع بلخاب میں کوئلے کی کانوں پر طالبان کے ساتھ لڑائی شروع کی جس میں دونوں اطراف سے شدید نقصانات ہونے لگے۔ حالانکہ کوئلے کی کانوں پر حقانی نیٹ ورک کے لیڈر اور موجودہ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا بہت زیادہ کنٹرول ہے اور سراج الدین حقانی دھیرے دھیرے اپنی گرفت مضبوط بنانے میں مصروف عمل ہے۔ واضح رہے کہ کوئلے کی ایکسپورٹ کی قیمت اس وقت عالمی مارکیٹ میں چار سو ڈالر فی ٹن کے قریب ہے جبکہ پاکستان کو یہی کوئلہ شروع میں سو ڈالر فی ٹن دیا جارہا تھا مگر عوامی دباؤ کے نتیجے میں اب دو سو ڈالر فی ٹن دیا جا رہا ہے جو کہ اب بھی عالمی مارکیٹ کی ریٹ سے بہت کم ہے۔

اب آتے ہیں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے تعلق پر۔ اس وقت دونوں دھڑے اقتدار کے نشے میں مست ہو کر اپنے مخفی تضادات کو اب کھل کر ہوا دینے لگے ہیں جس کا اظہار ٹی ٹی پی، القاعدہ اور دیگر غیر ملکی مذہبی دہشت گردوں اور مزاحمت کاروں کے حوالے سے اپنے اپنے تعلقات اور مفادات ہیں۔ اس ضمن میں اگر ہم ٹھوس طریقے سے بات کریں تو القاعدہ کے حوالے سے طالبان دوحہ معاہدے کی پاسداری کرنا چاہتے ہیں جبکہ حقانی نیٹ ورک اس ضمن میں تذبذب کا شکار ہے کیونکہ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ القاعدہ کے تعلقات بہت پرانے ہیں۔ مگر ایک بات واضح ہے کہ اس طرح کے گروپس میں اعتماد کا شدید فقدان موجود ہوتا ہے جس کے حوالے سے القاعدہ کی قیادت بشمول الظواہری کے بارہا اظہار کر چکی تھی۔ دوسری جانب ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی پر حقانی نیٹ ورک کو تحفظات ہیں، جبکہ طالبان تحریک طالبان پاکستان کو بارگیننگ چِپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں، جس کی موجودگی سے طالبان کو کوئی خاص پریشانی بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی سرزمین پر طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان قریبی روابط رہے ہیں۔ حالیہ چند حملوں میں ٹی ٹی پی کے قیادت کو مارنے کے حوالے سے ایسے کافی شواہد موجود ہیں جن میں حقانی نیٹ ورک کی سہولت کاری کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس بنیاد پر ہم ان تمام تر واقعات کو ایک دوسرے سے جوڑ کر بھی نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اس وقت افغانستان میں درحقیقت کیا صورتحال ہے۔

طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے آپسی تضادات کے علاوہ طالبان کی اپنی صفوں میں بھی اس وقت انتہائی شدید قسم کے اختلافات موجود ہیں جس میں دو اہم رجحانات اس وقت منظر عام پر ہیں۔ پہلا رجحان طالبان کے اندر ان پرانے انتہائی رجعت پسند گروپ ہے جو اس وقت افغانستان میں نام نہاد امارت اسلامی کا راگ الاپتے ہوئے بنیادی اور جمہوری حقوق پر قدغن کے علاوہ خواتین کے دشمن بنے پھر رہے ہیں، اور اظہار رائے کی آزادی اور خواتین کو حقوق دینا اپنی نظریاتی بنیادوں کو ہلا دینے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج افغانستان میں ایک سال پورا ہونے کے باوجود لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے روزگار کرنے یا گھروں سے نکلنے پر بدستور پابندی ہے اور اس کے کلاف وقتاً فوقتاً خواتین کی جانب سے مزاحمت بھی دیکھنے کو ملتی رہتی ہے جو یقیناً انتہائی جرات مندانہ اقدام ہوتا ہے۔

دوسرا رجحان اس وقت افغان طالبان میں نام نہاد دوحہ معاہدے کے ساتھ چمٹا ہوا گروپ ہے۔ یہ گروپ افغانستان میں دوحہ معاہدے کی مکمل پاسداری کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق اور چند جمہوری اور بنیادی آزادیاں دینے کے حق میں ہیں۔ مگر اختلافات کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے مذکورہ گروپ اس وقت خاموش ہے لیکن ان کے نمائندے میڈیا پر آکر خواتین کے حقوق کے بارے میں کھلے عام پہلے والے رجعتی رجحان کے بیانیے کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ کسی حد تک سماج میں لبرل پالیسیوں کا نفاذ چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ درحقیقت لبرلزم اور ملاازم آخری تجزیے میں ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ ان دونوں کے پاس افغانستان کے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں بلکہ انہی کی وجہ سے تو آج افغانستان اس نہج تک پہنچا ہے۔

طالبان کو اس وقت افغانستان میں اپنی رِٹ قائم کرنے اور امن عامہ کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے چند اہم مسائل کا سامنا ہے۔ جن میں داعش اور ”این آر ایف (North Resistance Force)“ بھی شامل ہیں۔ مگر ان دونوں کی کوئی عوامی بنیادیں نہیں ہیں اور نہ ہی وہ طالبان کے خلاف اور عوام کے حق میں جنگ لڑ رہے ہیں۔ بالخصوص اگر شمالی اتحاد کی بات کی جائے تو وہ محض اپنے ذاتی مفادات کی لڑائی لڑ رہے ہیں، اور پنجشیر کی حد تک اپنے قبضے کو قائم رکھنانا چاہتے ہیں۔ وہاں پر عوام دونوں اطراف سے پھنسے ہوئے ہیں مگر عوام کے پاس ان دونوں انتہاؤں کے علاوہ کوئی متبادل نہیں۔ جس کی وجہ سے وہ خوف میں مبتلا ہوکر پلڑے کو دیکھ کر اپنا وزن ڈالتے رہتے ہیں، حالانکہ عوام دونوں اطراف سے سخت مایوس اور بدظن ہیں۔ کیونکہ عوام ان وار لارڈز کی حقیقت گزشتہ سال طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے دوران جان چکے تھے کہ کیسے یہ تمام بھگوڑے مظلوم عوام کو کالی وحشت کے سامنے چھوڑ کر فرار ہو گئے۔

داعش ایک انتہائی وحشی اور درندہ صفت دہشت گرد تنظیم ہے۔ اس کی عوامی بنیادیں تو شروع سے ہی نہیں رہیں مگر طالبان کے اندرونی اختلافات اور طالبان سے نفرت کی بنیاد پر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے جوان اس میں شمولیت کر رہے ہیں اور بالخصوص وہ لوگ جو کہ پرانی حکومت کے ساتھ سیکورٹی اداروں میں کام کرچکے ہیں ان کی ایک بڑی تعداد کے داعش کا حصہ بننے کی خبریں گردش کر رہی ہیں اگرچہ ان کی آزاد ذرائع سے اب تک تصدیق نہیں ہو سکی۔ مگر طالبان کے لیے وقتی طور پر یہ ایک بڑا چیلنج نہیں البتہ مستقبل کے حوالے سے یہ درندہ صفت دہشت گرد تنظیم خطے یا عالمی سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی سے کوئی بڑا چیلنج بن سکتی ہے۔

انقلابی حل

اس ساری صورتحال میں عوام کہاں کھڑے ہیں؟ اور وہ ان سب مسائل اور حالات کے حوالے سے کیا سوچ رہے ہیں؟ اس سوال کا نصف جواب ہم تقریبا ًاس تحریر کے اندر دے چکے ہیں۔ مگر اب افغانستان کے سماج میں ایک بنیادی تبدیلی بھی آچکی ہے، وہ یہ کہ، گزشتہ دو دہائیوں میں ایک نئی نسل جوان ہوچکی ہے جو کہ نام نہاد وار آن ٹیرر سے پہلے کے جرائم سے کافی حد تک آزاد رہی ہے۔ مگر گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سامراجی یلغار کے نتیجے میں ہونے والی نام نہاد ترقی اور لبرل آزادیوں سے کسی حد تک آشنا بھی ہے۔ یہ نسل طالبان کے دور کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرے گی۔ اب بھی افغانستان کے بہت سارے علاقوں میں طالبان کے ظلم اور بربریت کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اب افغانستان میں کسی تیسرے سیاسی متبادل کے حوالے سے سنجیدہ بحثیں بھی ہو رہی ہیں گو کہ اس کیلئے حالات انتہائی ناساز ہیں کیونکہ مظلوم افغان عوام کو اس وقت دووقت کی روٹی کی فکر کھائے جا رہی ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ ان کو امن اور طالبان کی وحشت کے حوالے سے بھی پریشانی کا سامنا ہے۔ لہٰذا اس ضمن میں ان کو طویل اور صبر آزما جدوجہد کے لیے حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے آنے والے وقتوں میں طالبان کے درمیان مزید تضادات پھٹیں گے اور ان کی پالیسیوں میں نرمی کی بجائے مزید خونریزی پیدا ہوگی۔ کیونکہ طالبان ان خونریزیوں کو ایک طرف اگر اپنے اندرونی تضادات کو مخفی رکھنے کیلئے استعمال کرنے کی مصنوعی کوششیں کریں گے تو دوسری جانب اس طرح کے غیر انسانی رویے کو عالمی برادری سے بارگیننگ کے لیے بھی استعمال کر نے کی کوشش کریں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ طالبان بزور طاقت کب تک اپنے قبضے کو جاری رکھ پائیں گے؟ اور کب تک عوام کو اپنے بنیادی اور جمہوری حقوق سے محروم رکھ پائیں گے؟ جہاں ایک طرف غربت، بے روزگاری، لاعلاجی اور ناخواندگی میں بدستور اضافہ ہوتا جارہا ہے وہیں دوسری طرف طالبان کے جبر میں اضافہ ہونے کی وجہ سے یقیناً عوام بھی مزاحمت کا رستہ اختیار کریں گے۔

اس ضمن میں ہم ایک بار پھر دہراتے ہیں کہ افغانستان میں جلد یا بدیر ایک بڑی مزاحمتی تحریک جنم لے گی۔ یہ تحریک کس دن پھوٹتی ہے یہ کوئی نہیں بتا سکتا البتہ اس کے معروضی لوازمات پورے ہیں۔ مثلاً اسی ہفتے کابل کی سڑکوں پر نڈر خواتین کو طالبان کی بندوقوں کے سامنے ایک بار پھر کھڑے دیکھا گیا ہے۔ ایک چیز تو طے ہے کہ اس وقت ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف پشتون سماج میں مذہبی بنیاد پرستی اپنی بنیادیں کھو چکی ہے جس کا اظہار ہم نے خیبر پختونخوا کے اضلاع دیر اور سوات میں گزشتہ ہفتے کے دوران دیکھا جب عوام کے جم غفیر نے ریاستی پشت پناہی میں مذہبی بنیاد پرستی کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ یہی صورتحال افغانستان کی بھی ہے، مگر ضروری نہیں کہ اس کا اظہار بھی اسی طرح فوری احتجاجوں کی صورت میں ہو۔ طالبان کے خلاف عوامی غم و غصے کا اظہار کسی بھی جمہوری اور معاشی مطالبے پر ہو سکتا ہے۔ لیکن کسی بھی صورت میں افغانستان کے مظلوم عوام کو خطے کے دیگر ممالک سے حمایت ملنا بہت لازمی ہے اور اس ضمن میں یہ اہم اور بنیادی سوال ہے کہ اگر اس خطے میں بالعموم اور پاکستان اور ایران میں بالخصوص کوئی عوامی تحریک اٹھتی ہے تو کیا وہ افغان عوام کو اپنے ساتھ جوڑ پائے گی؟ یاد رہے کہ افغانستان کے دو اہم ہمسایہ ممالک پاکستان اور ایران کا محنت کش طبقہ ایک بڑی انقلابی بغاوت کیلئے تیار بیٹھا ہے جس کا آغاز کبھی بھی ہو سکتا ہے۔ اس بغاوت کی صورت میں اس سوال کا جواب تحریک کی قیادت اور انقلابی پارٹی کی موجودگی پر منحصر ہوگا۔ کیونکہ تحریکیں اُٹھنا اور دیگر ممالک میں پھیلنا اس عہد کی خاصیت ہے مگر ان کو حتمی نتیجے تک پہنچانا بالآخر ایک انقلابی قیادت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں