بلوچ یکجہتی کمیٹی اسلام آباد نے جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن پر نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے مظاہرہ کیا۔مظاہرین میں سیاسی و سماجی افراد نے شرکت کی جہاں مظاہرین نے بلوچ لاپتہ افراد کی محفوظ رہائی اور اس غیر انسانی جرم کےخاتمے کا مطالبہ کیا۔
سیاسی و انسانی حقوق کے کارکن افراسياب خٹک نےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان میں ایک آہین کے تحت رہتے ہیں آئین جسکے اندر افراد کے حقوق، معاشرے کے حقوق درج ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں آئین پر عمل درآمد نہیں ہوتا یہ کوئینئی بات نہیں، مجھے یاد ہے 1976 میں، میں نیشنل عوامی پارٹی میں تھا 1975 میں نیپ پر پابندی لگی اُس وقت بلوچستان میں سبسے پہلا مسنگ پرسن اسد مینگل تھا، 1977 میں، میں نواب خیر بخش مری، سردار عطااللہ مینگل جیل میں تھے تو ہمیں وہاں بتایا گیاکہ اسد مینگل زندہ نہیں ہیں اور اُس وقت سے یہ لاپتہ افراد کا تسلسل آج تک جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ملکوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے پاکستان کو ٹوٹے ہوئے دیکھا ہے، بنگالیوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے گئےتو وہ علحیدگی پر مجبور ہوئے۔ اگر پاکستان کی عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ مظلوموں کو انصاف نہیں دے سکتی تو اس کا مطلب یہہیں کہ یہاں آئینی ریاست کا نظام ختم ہوا ہیں اور یہ اس کی موت کا اعلان ہے۔
افراسیاب نے مزید کہا کہ پچھلی حکومت نے کہا کہ “گمشدہ افراد کو اٹھانے والے مجرم ہیں” کا بل قومی اسمبلی سے پاس کیا گیامگر سینٹ میں وہ بل گم ہو گیا، مجھے خدشہ ہے کہ یہ ملک بھی گم نا ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم آج گمشدہ افراد کے عالمی دن پر مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی ایجنسیوں پر اور خصوصی آئی ایس آئی کےخلاف آئین بنانے چاہییے، وہ لوگوں کو غیرقانی اٹھاتے ہیں۔ گورنر ہاؤس کوئٹہ کے سامنے جو گمشدہ افراد کے لواحقین بیٹھے ہیں ہماُن کے ساتھ بھی اظہاریکجہتی کرتے ہیں اور آُن کے ساتھ کھڑے ہیں، مجھے دکھ ہے کہ بلوچ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نشانہ بنایاجارہا ہے، لالا فہیم جیسے کتاب چھاپنے والے نوجوان کو جبراً لاپتہ کیا گیا۔
مزید اُن کا کہنا تھا کہ ہم بلوچ، پشتون اور سندھی کسی قسم کی غلامی کرنے کو تیار نہیں۔ بلوچ، سندھی و پشتون نسل کشی بندکی جائے۔ دوسرے اقوام کی عزت نہیں کی گئی تو آپ 1971 والی کہانی دوبارہ دہرائینگے۔