ہواؤں کے دوش پہ اُڑو ۔ محمد خان داؤد

245

ہواؤں کے دوش پہ اُڑو

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

مہرب ہم جانتے ہیں اس دنیا کو کتنا بھی اچھا کر لو پھولوں سے سجالو،خوشبوؤں سے بھر دو،اس میں روشنی کے لیے چاند کو زمیںپہ رکھ دو۔گل و گلزار کر دو تمام تر پھول رس سے بھر جائیں اور مکھیاں ان کا رس چوس کر حاملہ ہوتی پھریں۔ درختوں کی نرم ونازک شاخیں اور نیچے ہو جائیں اور ان کی ٹہنیوں میں شہد کے چھتے لٹک رہے ہوں۔بہتے آبشارمحبت کا پتا دے رہے ہوں اور پھولاپنی اور بلا رہے ہوں۔مہکتی شبنم ہر روز برس رہی ہو اور مہ کدے کے در واہ ہوں۔اس دھرتی پر وحشتوں کا گزر روک دیا گیا ہو اورکوئی ندا دے رہا ہو کہمحبتیں!آزاد ہیں!“بھانوں کے در کھلے ہوں اور گلابی ہونٹوں کے بوسے لیے جا رہے ہوں

محبت میں جسم سے پسینہ بہہ رہا ہوں اور عاشق آزاد ہوں کہ وہ کھل کر محبوباؤں کے جسموں کو چوم سکیں

تتلیاں!پھولوں کے ہاتھوں حاملہ ہو رہی ہوں اور کنواری لڑکیاں چھوجانے سے حاملہ ہو رہی ہوں

بدنوں کی خوشبوئیں محسوس کی جا رہی ہوں اور بانہیں بے تاب ہوں۔کنواری لڑکیوں کے پستان پینے سے وہ دودھ سے بھرجاتے ہوںاور ان کے چولے دودھ سے گیلے گیلے ہو رہے ہیں

وہ اپنے ہی کنوارے پستانوں کے دودھ کو چھک کر حیرت میں آجا تی ہوں کہ

ایسا میٹھا اور خوشبو سے لبریز دودھ

اور وہ گھیرے،میٹھے،اور طویل بوسے سے حاملہ ہو رہی ہوں

محبت کا سورج ان کے سروں پر طلوع ہوتا ہواورخوشبو سے بھرا سورج ان کے سامنے ڈوب جاتا ہو

جو محبت کے بوسے رہ جا تی ہوں انہیں چاند کا نور حاملہ کردیتا ہو

اور وہ چاند کو طلوع ہوتا دیکھ کر چھپتی بھی ہوں اور ظاہر بھی ہو تی ہوں اسی کش مہ کش میں چاند انہیں حاملہ کر دیتا ہوں۔جہاں پھانسی گھاٹ پر بھی گھاس اُگ آتی ہو اور تختہ دار پھولوں سے بھر جاتا ہو۔

جہاں نہ جنازے ہوں نہ ماتم ہوں نہ ماؤں کی سسکیاں ہوں نہ رو تے بچے ہوں اور نہ چوڑیاں توڑتی محبوبائیں،جہاں قبرستان نہ ہوں۔لوگ مرتے نہ ہوں جہاں زندگی زندگی سے بھر پور ہو اور راہ چلتے عاشق اور مہ کدے ملتے ہوں، مہ کدوں پر کوئی روک ٹوک نہ ہو انکے در کھلے ہوں بارشوں میں شراب پی جا تی ہوں اور شراب پی پی کر بارشوں میں من گیلا کیا جاتا ہوں جہاں دنیا تمام تر رنگوںسے کھل کر سامنے آئے،جہاں کبھی آنکھوں سے آنسو نہ بہتے ہوں پر آنکھیں تو محبت کے مزے کے طور پر کام میں آتی ہوں اورکھلی آنکھوں سے کوئی محبت سے پستانوں میں دودھ بھر رہا ہو،جہاں سزاؤں کا کوئی تصور نہ ہو جہاں بس عشق کے گیت گائےجاتے ہوں،جہاں شاعری بارش برستی ہو،شاعری اُگتی ہو اور شاعری گائی جاتی ہوجہاں فقیر اور مست دل کھول کر عشق میں جیتےہوں جہاں زندہ رہنا محبت سے جُڑا ہو!

ڈاکٹر مہرب ایسی دنیا کو بھی موقع ملتا ہے تو وہ یسوع سے لیکر سرمد تک،حسین سے لیکر منصور تک سب کو صلیب دے دیتیہے،سب کو پھانسی گھاٹ لے جا تی ہے۔سب کو تختہ دار پر چڑھا دیتی ہے۔سب کو قتل کر دیتی ہے اور سب کو جلا دیتی ہے پھر انکے جسدِ خاکی کو یا راکھ کو یا خاک ہو دریا دجلہ بھی قبول نہیں کرتا بس خاک اُڑتی رہتی ہے اور وہ تمام مائیں روتی رہ جاتی ہیںجنہوں سے خار جیسی دینا میں منصور جیسے انا الحق پیدا کیے جنہوں نے آگ جیسی دنیا میں یسوع جیسے گلاب جنہیں اور مائیںماتم کر تی رہ جا تی ہیں!

پر ڈاکٹر مہرب!ہم تو ایسی دنیا کے باسی نہیں

جہاں مست الست ہوکر جیتے ہوں

اور رند مہ کدوں میں مہ خواری میں سوتے ہوں

اور کنوارے جسم چھوجانے سے حاملہ ہو جا تے ہیں

اور بوسہ کی بارش ہو تی ہو

اور تتلیاں پھولوں سے حاملہ ہو جا تی ہوں،

عشق میں بدن چومے جا تے ہوں

آزادی!عشق پر نچھاور ہو تی ہو

بھونکتی بندوق کی جگہ ہاتھوں میں حیات بخش دعائیں ہوں

نہیں ہم ایسی دنیا میں نہیں!ہم ایسی دنیا میں ہیں جہاں پر پہلے الزام لگتے ہیں،پھر کردار کُشی کی جا تی ہے پھر مار دیا جاتا ہےاور پیچھے بہت پیچھے مائیں روتی رہ جا تی ہیں ماؤں کی عاقبت کی سنورتی ان معصوموں کی تو زندگیاں رول دی جا تی ہیں

پھر بھی ڈاکٹر مہرب!

تم محبت کا استعارہ ہو

محبت کا اکیلا گیت ہو

صوفیوں کی صحرہ میں رہ جانے والی صدا ہو

جوگیوں کا سفر ہو

میٹھا میٹھا تھکا دینا والا

جسے جوگی کرنا بھی نہ چاہیں اور چھوڑنا بھی نہ چاہیں

تم محبت کا وہ نانگا ہو جو لباس ہی محبت کا پہنتے ہیں

تم سرمد کا ابھی چند ہو

تم منصور کی انا الحق ہو

تم گورے پیروں کی پائل ہو

جسے گورے پیروں پہ ابھی بندھنا ہے اور جھوم جانا ہے

تم وشال آکاش کا پورا چاند ہو

تم یقین ہو

تم اعتبار ہو

تم لطیف کی ان کہی وائی ہو

تم باھو کی ھوُ ہو

تم سب رنگ سانول ہو

تم محبت بھرے ہونٹوں کا ادھورا گیت ہو

ڈاکٹر مہرب!اس گیت کو گاؤ

پائل کو چھنکاؤ

یہ دنیا ایسی ہی ہے،دیوانی بھی،دانا بھی،ہوش مند بھی اور پاگل بھی

ڈاکٹر مہرب!اپنی حیات کو رنگوں سے بھر دو

اور ان کی حیات کو بھی جو سڑکوں پر تالی پیٹتے ہیں

گالی سہتے ہیں

اور بندوق کی گولی اپنے نازک جسم میں سہہ کر مر جا تے ہیں

ان کو پر عطا کرو

ایسے پر جیسے پر تتلیوں کے ہو تے ہیں

ان رنگ عطا کرو

ایسے رنگ جیسے رنگ پھولوں میں ہو تے ہیں

انہیں خوشبوؤں سے بھر دو

ڈاکٹر مہرب!

گیت بن جاؤ

مِیت بن جاؤ

اور ہواؤں کے دوش پر اُڑو

ہوائیں تمہا رے ساتھ ہیں


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں