کمیشن بنانے کا مقصد سیکورٹی اداروں پر لگائے گئے غلط الزامات دور کرنا ہے – وزیر اعلیٰ

513

وزیر اعلی بلوچستان قدوس بزنجو نے کہا ہے کہ زیارت واقعہ پر کمیشن بنانے کا مقصد سیکورٹی اداروں پر لگائے گئے غلط الزامات کو دور کرنا ہے۔ عوام اور سیکورٹی اداروں کے درمیان غلط فہمیوں مٹانا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے حوالے سے بعض دوستوں کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کم فہمی کی بنیاد پر ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ ماضی کے چند واقعات میں بھی ایسی صورتحال پیدا ہونے پر جوڈیشل کمیشن قائم ہوئے اور انکی رپورٹ میں ادارے بری الزمہ قرار پائے ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ زیارت آپریشن کے حوالے سے بھی حقائق کا سامنے لایا جانا ضروری ہے جس کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن اپنی فائنڈنگ دے گا جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

وزیر اعلیٰ نے اپنے بیان میں کہا کہ زیارت آپریشن پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کے حوالے سے بعض دوستوں کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کم فہمی کی بنیاد پر ہیں۔

قدوس بزنجو نے کہا زیارت آپریشن کے حوالے سے بعض حلقوں میں بے چینی پائی جارہی تھی جس سے عوام اور اداروں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہونے کا احتمال تھا ہم نے اس نازک صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کو ناگزیر سمجھا۔

یاد رہے زیارت واقعہ میں قتل ہونے والے افراد کے لواحقین زیارت میں فورسز کے آپریشن پر جوڈیشنل کمیشن بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں زیارت واقعہ کے خلاف لاپتہ افراد کے لواحقین گذشتہ آٹھ روز سے گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔

لواحقین اور بلوچ قوم پرست تنظمیوں کا مؤقف ہے کہ زیارت میں پہلے سے زیر حراست افراد کو قتل کرکے مزاحمت کار ظاہر کئے گئے زیارت میں قتل ہونے والے لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل تھیں۔

دوسری جانب حکومت بلوچستان شروع دن سے لواحقین کے مؤقف کو رد کررہی ہے۔ میڈیا سے گفتگو میں ترجمان بلوچستان حکومت فرح عظیم شاہ بتایا کہ زیارت واقعہ کے حوالے سے جو بیان کیا جارہا ہے وہ حقیقت نہیں، سیکورٹی فورسز بلاوجہ کسی کو قتل نہیں کرینگے۔

زیارت واقعہ کے خلاف دھرنے پر بیٹھے لواحقین بلوچستان حکومت کے بیان کو جھوٹ پر مبنی قرار دے رہے ہیں۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت واقعہ کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی۔

لواحقین نے واقعہ کے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا، مظاہرین کا مؤقف ہے اگر مطالبات پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو احتجاج کے سلسلے کو مزید وسعت دینگے۔