بلوچستان و کراچی سے جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے افراد کے لواحقین کا احتجاج جاری ہے۔ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین گزشتہ بیس روز سے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ قائم کئے ہوئے ہیں-
کراچی احتجاج پر بیٹھے لواحقین میں کراچی کے علاقے گلستان جوہر سے لاپتہ ہونے والے عبدالحمید زہری، کراچی کے علاقے ماڑی پور سے لاپتہ کئے گئے محمد عمران، لیاری سے لاپتہ شوکت بلوچ اور رئیس گوٹھ کراچی سے جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے نوربخش ولد حبیب کے لواحقین سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ارکان شامل ہیں-
لواحقین نے اپنے پیاروں کی عدم بازیابی کے خلاف شدید نعرہ بازی کی اور سندھ سمیت وفاقی حکومت سے تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا ہے-
احتجاج کیمپ میں شریک بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے آرگنائزر آمنہ بلوچ نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بااختیار نہیں ہیں ایسا لگتا ہے کہ حکومتوں کو پس پردہ نہ نظر آنے والی قوتیں چلارہی ہیں ہم ذمہ داروں سے لاپتہ افراد کے لواحقین سے زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات کا اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں شہباز شریف کی طرح عمران خان اور دیگر وزرا نے بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ لاپتہ افراد کی بازیابی ان کی اولین ترجیح ہے لیکن ہمیں ابھی تک نتائج کا انتظار ہے۔
آمنہ بلوچ نے بتایا کہ سندھ سے بلوچوں کی جبری گمشدگیوں میں پر پیپلز پارٹی اور انکی قیادت ملوث ہے انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں بشمول جبری گمشدگیوں ماورائے قانون گرفتاریوں تشدد اور ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث ہیں۔
احتجاج میں شریک لاپتہ عبدالحمید زہری کی بیٹی سعیدہ حمید کا کہنا تھا کہ بیس روز ہم احتجاج پر بیٹھے ہیں تاہم جمہوریت کے دعویدار حکومت ہماری قانونی و آئینی مطالبات کو نظرانداز کررہا ہے-
سعیدہ حمید نے کراچی سے سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار اپنے والد عبدالحمید زہری سمیت دیگر لاپتہ افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا سعیدہ حمید کا کہنا ہے کہ اگر کسی کے خلاف کوئی جرم کے شواہد موجود ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
کراچی احتجاج پر بیٹھے لواحقین کا مطالبہ ہے کہ سندھ حکومت ان کے پیارے کو لوٹا دیں اگر ان پر کوئی الزام ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے-