جیسے ہی پاکستانی مذہبی رہنماؤں کی وفد تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے بعد واپس پہنچی، قبائلی عمائدین اور دیگر کا ایک 17 رکنی وفد ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے ہفتے کے روز کابل پہنچ گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں علماء کا 8 رکنی وفد ٹی ٹی پی قیادت اور افغان طالبان سے ملاقاتوں کے بعد افغانستان سے واپس پہنچا تھا۔
علماء کے وفد سے وابستہ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ تقی عثمانی جن کا احترام افغان طالبان اور ٹی ٹی پی اراکین بھی کرتے ہیں، عسکریت پسند گروپ کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ انہوں نے پاکستان کے آئین پر نظرثانی کی ہے اور اس میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جسے غیر اسلامی قرار دیا جاسکے۔
تاہم تقی عثمانی، حکومت یا ٹی ٹی پی کی جانب سے اس پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ ٹی ٹی پی نے ایک بار پھر سابق فاٹا کے انضمام کے معاملے پر بات کی لیکن مفتی تقی عثمانی نے ٹی ٹی پی قیادت کو بتایا کہ وہ ایک مذہبی عالم ہیں اور وہ صرف مذہبی معاملات پر بات کر سکتے ہیں۔
جہاں ٹی ٹی پی نے دو صفحات پر مشتمل ایک بیان جاری کیا جس میں پاکستان میں اسلامی نظام کے مطالبات کا اعادہ کیا گیا، مفتی تقی عثمانی نے ایک ٹوئٹ میں امید ظاہر کی کہ افغان طالبان قیادت کے ساتھ ان کی ملاقاتیں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے، امن کی بحالی اور مشترکہ اہداف کے حصول میں مفید ثابت ہوئیں۔
تقی عثمانی نے ٹی ٹی پی قیادت کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا کوئی حوالہ نہیں دیا لیکن کہا کہ مزید تفصیلات (مذاکرات کے بارے میں) بعد میں شیئر کی جائیں گی، غیر مصدقہ اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی نے وفد کو مطالبات کا ایک چارٹر سونپا ہے۔
دوسری جانب ہفتہ کے روز کابل پہنچنے والے پاکستانی وفد کی قیادت وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات بیرسٹر محمد علی سیف کر رہے ہیں جس میں قبائلی عمائدین اور اراکین پارلیمنٹ شامل ہیں اور چار روز تک افغانستان میں قیام کریں گے۔
ٹی ٹی پی کی قیادت کے ساتھ بات چیت کے لیے گروپ کا افغان دارالحکومت کا یہ دوسرا دورہ ہوگا، اس سے قبل پہلا وفد 58 ارکان پر مشتمل تھا۔
پہلا دور جسے ایک شریک نے ‘خوشگوار اور بعض اوقات مشکل’ کے طور پر بیان کیا، اس میں ٹی ٹی پی کے سابق فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضمام ختم کرنے کے مطالبے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی لیکن دونوں فریقین نے مشاورت کے بعد میز پر واپس آنے پر اتفاق کیا۔
یاد رہے کہ مئی میں پاکستان کی ایک سرکاری ٹیم نے ٹی ٹی پی کی قیادت کے ساتھ براہ راست بات چیت کی اور ٹی ٹی پی کے اہم مطالبے پر تعطل برقرار رہنے کے دوران، دونوں فریقوں نے افغان طالبان کی قیادت کی غیر معینہ مدت تک جنگ بندی اور امن مذاکرات کو جاری رکھنے کی درخواست پر اتفاق کیا۔