میں اُن اداروں سے بھی لڑ سکتی ہوں جس کا کوئی تصور تک نہیں کرسکتا – سیما بلوچ

612

بلوچستان کے ضلع کیچ سے 4 اکتوبر 2016  کو جبری گمشدگی کی شکار ہونے ہونے والے طالب علم رہنماء شبیر بلوچ کی ہمیشرہ واہلیہ اس کے بازیابی کے لئے سراپااحتجاج ہیں۔

سیما بلوچ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر سرگرم رہتی ہیں، آج انہوں نے ٹوئٹر پر اپنی زندگی کے متعلق ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ میںبچپن ہی سے سہمی ہوئی لڑکی تھی، کیا ہے لڑنا اپنے لئے, اپنے حق کے لئے مجھے کبھی نہیں پتا تھا لیکن شبیر کی گمشدگی نےمجھے بلکل تبدیل کردیا، اذیت اور تکلیف نے مجھے لڑنا سکھا دیا اب میں اُن اداروں سے بھی لڑ سکتی ہوں جس کا کوئی تصور تکنہیں کرسکتا۔

خیال رہے کہ سیما بلوچ کے بھائی شبیر بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع آواران سے ہے۔ وہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائیزیشن (آزاد) کےرہنما ہیں۔ شبیر بلوچ کو بقول ان کے اہلخانہ کے چار اکتوبر 2016 کو پاکستانی فورسز کے اہلکاروں نے ضلع کیچ کے گاؤں گورکوپ  سے 20 دیگر افراد کے ہمراہ اپنے ساتھ لے گئے۔ ان میں دیگر تمام افراد مختلف اوقات میں رہا ہوگے جبکہ شبیر بلوچ تاحال لاپتہ ہیں۔