عظمیٰ کے نام – بیلی بلوچ

568

عظمیٰ کے نام

تحریر: بیلی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

زندگی میں کچھ حادثے, کچھ واقعات, کچھ لمحات ایسے بھی گزرتے ہیں، جب انسان یقینی اور بے یقینی کی ملی جلی کیفیت سے گزرتا ہے۔ ہم حقیقت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے، ہم چاہتے ہے کہ جو ہو رہا ہے یا جو ہو چکا ہے، کاش وہ ایک ڈراونا خواب ہو اور جیسے ہی ہم نیند سے جاگیں سب ٹھیک ہو جائے۔ مگر یہ کوئی ڈراونا خواب نہیں بلکہ اذیت ناک حقیقت ہوتا ہے جس پر یقین کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

کچھ ایسی ہی کیفیت سے میں گزری جب اس دن میں نے معمول کے مطابق اپنا ٹوئٹر کھولا۔ وہ تصاویر میرے نظروں کے سامنے تھیں اور ایک اذیت، ایک بے یقینی، ایک تکلیف تھی جو مجھے گھیرے ہوئے تھی۔ میں ٹھنڈے برف کی طرح منجمد کئی لمحات ایسے ہی ان تصاویر کو دیکھتی رہی۔ میرے سامنےشہید انجنئیر ظہیر بلوچ کی تصاویر تھیں، شہادت سے پہلے اور بعد کی دو تصاویر، جن میں سے شہادت کے بعد کی تصویر کو پہچاننے میں مجھے مشکل بھی ہو رہی تھی اور پہچاننے کے کوشش میں میں بہت تکلیف سے بھی گزر رہی تھی۔ مجھے وہ لمحہ یاد آ رہا تھا جب کچھ وقت پہلے لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی تھیں اور ان میں سے مجھے اپنے دو لاپتہ کزنز کو پہچاننے کا کہا گیا تھا۔ کتنا اذیت ناک ہوتا ہے وہ لمحہ جب آپکو اپنے پیاروں کی مسخ شدہ لاشوں کو پہچاننے کا کہا جائے۔

دُکھ، غصہ اور تکلیف سبھی شہداء کی شہادت پر تھی کیونکہ سبھی اس گلزمین کی فرزند تھے، مگر سچ کہتے ہیں لوگ کہ جن سے کوئی وابستگی ہو انکے لئے دل اور بھی زیادہ دکھتا ہے، تکلیف اور بھی زیادہ ہوتی ہے، یہی میرے ساتھ بھی ہو رہا تھا۔ میں جو دیکھ رہی تھی اس پر میں چاہ کر بھی یقین نہیں کر پا رہی تھی۔ وہ یقینی اور بے یقینی کی ملی جلی سی کوئی کیفیت تھی، اور بار بار میرے زہن میں یہی بات گونج رہی تھی کہ یہ ایک غلط فہمی ہے، ان سے غلطی ہوئی ہے پہچان کرنے میں، اور۔۔۔۔ اپنے خیالات کو یہ کہہ کر رد کر رہی تھی کہ کیسے غلطی ہو سکتی ہے، ایک بہن سے ایک بھائی سے، اپنے بھائی کو پہچاننے میں غلطی کیسے ہو سکتی ہے؟

میں نے کئی بار شہید ظہیر کی شہادت کی تصویر دیکھی، کئی لمحے آنکھیں بند کر کے اس حقیقت کو رد کرنے کی کوشش کی، مگر حقیقت سے بھلا کون بھاگ سکتا ہے، میں بھی اس حقیقت سے نہیں بھاگ پائی جب عظمٰی کے اکاؤنٹ پر جا کر وہ ٹوئیٹ دیکھا جہاں اسنے شہید کے نماز جنازہ کی جگہ اور وقت کے بارے میں ٹوئیٹ کیا تھا۔

میرے لئے اس کیفیت سے نکلنا بہت مشکل تھا۔ میرے نظروں کے سامنے بار بار وہ مسکراتا ہوا چہرہ آ رہا تھا، بار بار کانوں میں ایک آواز گونج رہی تھی، “ اللہ خیر کریگا، تمہارے بھائی کو وہ چھوڑ دینگے، پریشان مت ہو۔” یہ الفاظ انجنئیر ظہیر بلوچ کے تھے۔ وہ تسلی بخش الفاظ جو اسنے مجھے تب کہے تھے جب میرا بھائی جبری لاپتہ ہوا تھا۔ ایک بڑے بھائی کی طرح وہ مجھے حوصلہ دے رہا تھا۔ مجھے اپنے سر پر اسکے ہاتھ کا لمس ابھی بھی محسوس ہوتا ہے جو اسنے مجھے تسلی دیتے وقت میرے سر پر رکھا تھا۔ میرے لئے وہ لمحات وہ یادیں ہمیشہ خوشی کا باعث بنتے تھے کہ جب ایک بڑا بھائی بہن کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے حوصلہ دے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ کبھی کبھی یہ خوشگوار یادیں بھی کانٹوں کی طرح چبھنے لگتی ہیں۔

میں آج جب بیٹھ کر سوچتی ہوں کہ میں نے محظ چند لمحات بھائی ظہیر کے ساتھ گزارے تھے اور میں اس قرب سے گزر رہی ہوں تو وہ بہنیں جنہوں نے ایک عمر اسکے ساتھ گزاری ہے وہ کس اذیت میں ہونگے۔ مگر مجھے اس بات پر بھی پختہ یقین ہے کہ شہید ظہیر کی بہنیں جتنی بھی اذیت میں کیوں نہ ہو انہیں اپنے بھائی پر بے حد فخر ہوگا جس طرح مجھے ہے۔

میں ہمیشہ سے اس بات پر یقین رکھتی آئی ہوں کہ ظالم دشمن کی جیت تب نہیں ہوتی جب وہ ہم سے ہمارے جگر کے گوشے چھین لیتا ہے، اسکی جیت تب ہوتی ہے جب شہداء کے لواحقین ماتم کرتے ہیں اور ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہمارے حوصلے اور ہمارا جزبہ ہی ظالم کی شکست ہے جو اپنوں کی لاشیں اُٹھا کر بھی قائم رہتا ہے، ہم جہد جاری رکھتے ہیں جیسے ماما قدیر نے رکھا، اپنے بیٹے کی لاش اُٹھانے کے بعد بھی وہ نہیں جُھکا اور فرزندان وطن کی با حفاظت بازیابی کی لئے آج تک لڑتا آ رہا ہے۔

مجھے امید ہے عظمی کمزور نہیں پڑی ہوگی۔۔۔ تکلیف میں ہوگی، اذیت سے گزر رہی ہوگی، مگر کمزور نہیں پڑی ہوگی۔ ہماری تکالیف ہمارے دُکھ وہ ایندھن ہیں جنکی بھٹی میں ہمارا جزبہ پک کر اور بھی مضبوط ہوتا ہے، اور یہی ہماری خاصیت ہے جو ظالم کو باور کرا دیتی ہے کہ وہ بھلے ہی ایٹمی طاقت ہو، وہ بھلے ہی طاقتور ہو، مگر وہ پھر بھی کمزور ہے، وہ شکست خوردہ ہے۔ لاپتہ کر کے نہتے پیر و جوان اور بچوں کو شہید کر کے انہیں جالی مقابلوں میں مارنے کا دعوی اسکی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے، گھروں کو جلا کر بچوں اور عورتوں کو بے یار و مدد گار کھلے آسمان تلے بے سہارا چھوڑنا اسکی شکست ہے، سبھی تکالیف سے گزر کر بھی اگر ہم محکم کھڑے ہیں اور کمزور نہیں پڑے، یہ ہماری جیت ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں