شاری بلوچ: غلط کو غلط ضرور کہیں مگر پورے درست بیانیہ کے ساتھ ۔ امین مگسی

672

شاری بلوچ: غلط کو غلط ضرور کہیں مگر پورے درست بیانیہ کے ساتھ

تحریر: امین مگسی

دی بلوچستان پوسٹ

سمجھ نہیں آ رہا کہ بلوچ قوم کا ایک مخصوص جتھہ کراچی دھماکے میں خود کو اڑانے والی شاری بلوچ کے متعلق یہ کہہ کر کیا ثابت کرنا چاہ رہا ہے کہ وہ ذہنی مریضہ تھیں جس کی وجہ سے اس حد تک چلی گئیں۔

انگلی سے سورج نہیں چھپ سکتا اگرچہ آپ واقعی اس حملہ کو لے کر اتنے پریشان ہیں کہ ریاست کے سخت ری ایکشن سے خوفزدہ ہیں یا ذاتی طور کسی وجہ سے بھی اس حملہ کی مذمت کرنا چاہتے ہیں تب بھی بہتر یہی ہوگا کہ اسے ایک فدائی حملہ قرار دیں اس کے بعد اس کی مذمت کریں اور اس کا حل نکالیں، کل کوئی اور بلوچ عورت ایسا کرے گی تو کیا اسے بھی ذہنی مریضہ قرار دیا جائے گا؟

میں ذاتی طور اسے ذہنی مریضہ کا حملہ ہرگز ہرگز بھی نہیں سمجھتا اور نہ کسی کو اس غلط فہمی میں رکھنا چاہتا ہوں، ہاں یہ الگ بات ہے کہ بلوچ بغاوت میں ایسی نوعیت کا یہ پہلا حملہ ہے کہ جس میں عورت کا استعمال ہوا جس پر بحث ہوسکتی ہے جسے غلط کہا جاسکتا ہے جس کی مذمت ہو سکتی ہے۔

اگر اس کی کھل کر مذمت ہو تب بھی اسے ذہنی مریضہ کا حملہ قرار دے کر مذمت کرنا کسی صورت درست عمل نہیں ہے۔ مزید یہ کہ میں اندھیروں میں نہیں رکھنا چاہتا اور نہ ہی کسی ایسے عمل کو درست سمجھتا ہوں بلکہ ذاتی طور میری یہی خواہش ہے کہ کوئی ایک انسان بھی قتل نہ ہو اور بالخصوص مزید بلوچ نوجوان ضائع نہ ہوں اب اس مسئلے کا کوئی حل نکالنا چاہیے۔

افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے ریاست نے ہمیشہ ان لوگوں کے مشوروں پر عمل کیا ہے جنہوں نے طاقت کا استعمال اور کچلنے والی پالیسی دی ہے مگر ریاستی ادارے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بلوچ کی دوستی اور دشمنی دونوں اپنی مثال آپ ہیں، بلوچ کو دوستی سے جیتا جاسکتا ہے دشمنی میں بلوچ کو محض کچلا تو جاسکتا ہے شکست نہیں دی جاسکتی۔ اور ایسا کرنا کم از کم ناممکن ہے کیونکہ ریاست کسی بھی کارروائی یا حملے کے بعد جو ری ایکشن عام بلوچوں کو دیتی ہے یا بے گناہ بلوچوں کو لاپتہ کر کے ریاست کی طرف سے جو ری ایکشن دیا جاتا ہے یہ عمل ان چند عدم تشدد کے قائل اور معاملات کو ڈائلاگ کے ذریعے حل کرنے والی سوچ رکھنے والوں کو بھی متنفر کرنا ہے۔

ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ جس کا ازالہ کرنا چاہیے کہ بلوچ بھارت و امریکہ کے لئے کام کرتے ہیں، اس بات میں یقیناً صداقت ہو سکتی ہے کہ بھارت امریکہ یا کوئی بھی ملک بلوچ باغیوں کی مدد کر رہا ہوگا اور یہ بات تو باغی خود براہمداغ کی صورت میں تسلیم کرچکے ہیں کہ بھارت تو ایک ریاست ہے اگر شیطان بھی ہماری مدد کرے گا تو ہم اپنی جدوجہد میں شیطان کی حمایت بھی حاصل کریں گے۔ اور یہ غیر معقول بھی نہیں کہ ایک باغی گروہ اپنے وسائل کے لئے کسی ملک کی مدد نہ لے اور ہر دشمن کا کوئی دشمن ضرور ہوتا ہے جہاں مشترکہ مفاد ہو وہاں کسی بھی لحاظ سے ایک دوسرے کی مدد کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ سمجھ نہ آئے۔

یہ کہنا درست ہو گا کہ بھارت، امریکہ اور بلوچ باغیوں کا دشمن ایک ہے لہذا وہ اپنی اپنی دشمنی نکال رہے ہیں۔ مگر یہ کہنا کہ بھارت نے اپنے ایجنٹ یا اپنے بندے بلوچستان میں چھوڑے ہوئے ہیں جو محض بھارتی مفادات کے لئے کام کرتے ہیں بالکل درست نہیں ہے۔ یہی وہ بہت بڑی غلط فہمی ہے یا ایک بیانیہ ہے جسے لازمی طور عوام کے ذہنوں میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سوال تو یہ ہے کہ بھارت بلوچ باغیوں کی مدد کیوں کر رہا ہے وہ اپنے لئے پاکستان کے دوسرے حصوں سے لوگ کیوں نہیں ڈھونڈ سکا؟
اگر اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے تو یقیناً ہر صاحب عقل کو باآسانی جواب مل جائے گا کہ کچھ ظلم و نا انصافیاں بلوچوں کے ساتھ ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے بلوچ اگرچہ آپ تھوڑی ہی مقدار میں کہہ لیں ریاست سے ناراض ضرور ہیں۔

ہمیشہ کی طرح ریاستی اداروں کے سامنے چند باتیں رکھنا چاہوں گا :~
1: سب سے پہلے اسے بیرونی مداخلت سے زیادہ اندرونی بغاوت تسلیم کیا جائے اور جتنا جلدی تسلیم کیا جائے گا اتنا جلدی مسائل کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔
2: مسائل جتنے بھی پیچیدہ ہوں جب ڈائلاگ ہوتے ہیں تو کچھ لے دے کر کسی نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے مگر اس سب کے لئے ضروری چیز اخلاص، نیک نیتی اور سب سے بڑی بات اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ریاست اپنا اعتماد بری طرح کھو چکی ہے جسے بحال کرنے کے لئے کچھ یقینی اقدامات اٹھانے ہوں گے جن میں سب سے اہم چیز لاپتہ افراد کی بازیابی ہے۔
3: جو لوگ اگرچہ وہ بلوچ ہی کیوں نہ ہوں اپنے ذاتی مفادات کے لئے ریاست کو طاقت کے استعمال اور کچلنے والی پالیسی پر اکسا رہے ہیں ریاستی ادارے ان کی باتوں پر توجہ دینے کے بجائے تلخ مگر حل کی طرف درست سمت کا تعین کرنے والوں کو سننا شروع کرے، اور ایسے لوگوں پر مشتمل ترجمان و ڈائلاگ کا آغاز شروع کرے۔ ریاست پہلے ان لوگوں کے ساتھ تو ڈائلاگ کرے جو تلخ لکھتے ضرور ہیں مگر اپنی باتوں سے کوئی حل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچا جائے کہ آخر حل کیا نکل سکتا ہے۔

سنجیدگی بہت بڑے مسائل کا حل ہے اخلاص ہر برے تعلق کو جوڑنے کی کنجی ہے اور اعتماد دل جیتنے کے لئے کافی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں