کراچی پریس کلب کے سامنے مختلف اوقات میں کراچی سے لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین کا احتجاج آج نویں روز میں جاری رہا،جس میں خواتین اور بچوں نے شرکت کی۔
آج احتجاج میں کراچی سے لاپتہ ہونے شعیب بلوچ کے لواحقین نے بھی شرکت کرکے کہا کہ طالب علم شعیب احمد ولد اعظم خان کوسندھ پولیس اور فورسز نے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔ شعیب احمد کا تعلق ضلع خضدار کے علاقے نال سے ہے۔ وہ کراچییونیورسٹی میں داخلہ لینے کے خواہشمند تھے۔
اس موقع پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ سندھ حکومت لاپتہ افراد کی زیابی کےحوالے سے ہونے والے مذاکرات سے سنجیدہ نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ دو روز گزرنے کے باوجود ایک بھی لاپتہ فرد کی بازیابی نہیں ہوئی حالانکہ مذاکرات کا آغاز خود سندھ حکومت نےسندھ پولیس کے حکام کے ذریعے کیا تھا جس کا ہم نے خیر مقدم کیا تھا کیونکہ ہم جمہوری لوگ ہیں اور بات چیت پر یقین رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ زرداری حکومت جمہوریت کا نعرہ تو لگاتی ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتی ہے اگرمذاکرات ایک ڈھونگ تھا۔ تو ہم اس ڈھونگ کا مقابلہ سیاسی حکمت عملی سے کرینگے۔
آمنہ بلوچ نے کہنا تھا کہ لواحقین کو مجبور نہ کیا جائے کہ وہ دوبارہ سندھ اسمبلی یا وزیراعلیٰ ہاوس کے سامنے دھرنا دیں، ہماریپرامن تحریک کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔
آج احتجاجی کیمپ میں کراچی کے علاقے گلستان جوہر سے لاپتہ ہونے والے عبدالحمید زہری، کراچی کے علاقے ملیر سے سعید احمدولد محمد عمر ، ماری پور سے لاپتہ ہونے والے محمد عمران، لیاری سے لاپتہ ہونے والے شوکت بلوچ، کراچی کے علاقے گلستان جوہرسے لاپتہ ہونے والے شعیب احمد اور رئیس گوٹھ کراچی سے لاپتہ ہونے والے نوربخش ولد حبیب کے لواحقین شامل تھے۔