سرخ سلام؛ شہید ثاقب کریم بلوچ ۔ مہران بلوچ

667

سرخ سلام؛ شہید ثاقب کریم بلوچ

تحریر: مہران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہداء کی فہرست میں بڑھتے ہوئے ایک ایسا نام، جسکی پہچان ہی وطن کیلئے مرمٹنے والوں سے ہے۔ شہید طارق کریم سے لیکر بسیمہ کے ہر شہید تک کی ایک بہت لمبی قربانی ہے۔ اور اس کے ساتھ انکی قربانیوں کی لمبی داستان موجود ہے۔ اسی پاک راہ میں چلتے ہوئے شہید ثاقب کا بھی بہت بڑانام ہے۔

شہید ثاقب جو بی ایس او آزاد سے جہد آزادی کے کارواں میں شامل ہوتا ہے۔ اسی کاروان میں شہید طارق کی رہنمائی میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے، وہ جیسے جیسے شعور کیطرف گامزن ہوتا ہے وہ مزیدکامیابی کے ساتھ کام کرتاہے۔ سرزمین کی آزادی کیلئے ان بھائیوں کا بہت بڑا کردارہے وہ جس طرح کامیابی کے ساتھ کام کرتا ہے اسی
طرح ریاست کی طرف سے مشکلات بڑھتے ہیں، پہلے ان کے گھر پر چھاپہ لگتا ہے جس میں اس کے کزن علی احمد اغواء ہوجاتا ہے ، پھر اس کے دو بھائیوں (شہید طارق کریم اور شہید عاصم کریم ) کو شہید کیا جاتا ہے۔

ان کی شہادت کے بعد ثاقب اسلام آباد شفٹ ہوجاتا ہے لیکن اپنے کام اور جہد سے مخلص ہوکر اپنی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ اس کے لئے مشکلات مزید بڑھتے ہیں پھر وہ خلیج کا رخ کرتاہے۔

وہاں وہ بلوچ قومی جہد کو آگے لے جانے کیلئے سرگرم رہتاہے ۔ وہاں وہ سمجھتا ہے کہ اب آسانی سے قومی جہدکاروں کو سپورٹ کیا جائے گا لیکن ریاستی آلہ کار وہاں انکا پیچھا نہیں چھوڑتے ہیں، وہاں ان کو کام کرنے میں مشکلات ہوتا ہے، بلآخر وہ آزربائیجان جاکر سیاسی پناہ لیتا ہے اور بہت ہی مخلصی سے اپنے کام کو سرانجام دیتاہے وہاں سے بلوچ قومی جدوجہد سے وابسطہ دوستوں کو سپورٹ کرتا ہے۔

یادرہے ثاقب بلوچ قومی جہد میں ایک بڑے کردار کا نام ہے ، وہ ازل سے لیکر شہادت تک قومی آزادی کیلئے برسر پیکار تھا۔ وہ قومی تحریک میں اتحاد کا اہم حامی تھا۔ دن ، رات دوستوں سے یہی کہتا تھا کہ چھوٹے چھوٹے باتوں پہ اتحاد نہیں توڑنا چاہیے۔

اسکی شہادت کا ابھی تک کوئی واضح بیانیہ سامنے نہیں آیا ہے ، کہ اس کو شہید کیا گیا ہے یا وہ خودحادثانی طورپر وفات پا گئے ہیں اگر پچھلے واقعات کا جائزہ لیا جائے جس طرح بانک کریمہ کو شہید کیا گیا یہی راستہ اپنایا گیا کہ اسے سمندر میں پھینک دیاگیا تھا، اسی طرح ساجدبلوچ کو بھی شہید کرکےدریا میں پھینک دیاگیا ، اور ثاقب بلوچ کا واقعہ ان سے بالکل مختلف نہیں ہے ، اسی لئے بہت سے دوستوں کا ماننا ہے کہ انہیں شہید کیاگیا ہے۔ اور جو کہتے ہیں کہ واقعہ رونما ہونے کے وقت کچھ دوست ان کے ساتھ تھے وہ ابھی تک سوشل میڈیا کے سامنے نہیں آئے ہیں کہ واقعہ کیسے ہوا۔

ابھی تک کنفرم نہیں کرسکتے کہ اس کے ساتھ کیا ہواہے ۔لیکن اگر مان بھی لیا جائے اس کا موت حادثاتی ہے تب بھی وہ بلوچ شہدا کے فہرست میں گِنا جاتاہے کیونکہ اس نے جس راستے کو چُنا تھا وہ راستہ شہادت کا راستہ ہے وہ سرزمین کی آزادی کیلئے برسرپیکار رہا ہے وہ بلوچ قومی شناخت کیلئے اپنے مادر وطن سے کہیں دور آزربائیجان میں زندگی بسر کررہاتھا۔ میں بحیثیت بلوچ اسکو قوم کا ایک متحرک سپاہی کی حیثیت سے دیکھتاہوں اسی لئے اس کا انتخاب شہیدوں میں ہی کی جاتی ہے۔

انکی قربانیوں کی بدولت انہیں آزاد بلوچستان کا سپاہی سمجھ کر سرخ سلام پیش کیا جاتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں