سامراجیت ۔ افروز رند

463

سامراجیت

تحریر: افروز رند

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخی گزری ہوئی داستانوں اور واقعات و اساطیر کا نام ہے، لیکن بڑی حد تک تاریخ کا دستر خواں معصوموں کے خون کی خوشبو سے بھری پڑی ہے۔ جبکہ تاریخ میں ہمیشہ ظالم جابر اور موت کی جولاں گاہوں کو بھرنے والے ظالموں نے کافی نام کمایا ہے اور بقول مارکس یہ تاریخ صرف ظالموں اور حاکموں کی تاریخ ہے۔ افریقہ کے صحراوں سے لیکر ایشیاء کے سنگزاروں تک ،منچوریا سے لیکر لاطینی امریکہ کے بادبانوں تک ہر جگہ صرف ایک ہی چیز کی خوشبو مہکتی ہے اور وہ ہے مظلوموں کا خون ناحق، جوکہ ملک و دولت شہرت و زر کی لالچ ،اور اپنے Territory کو بڑھانے کیلئے ان جابر اور غاصبوں نے مظلوموں کا خون پانی کی طرح بہایا جو آج تک جاری ہے۔

سولویں اور سترویں صدی میں دنیا میں ایک نئے عہد کا جنم ہوا جسے ہم کالونی ازم یا سامراجیت کہتے ہیں، یہاں سے دنیا کے تمنداروں کی جنگیں مزید وسعت ہوگئیں اور ان کے نشانے پر پوری دنیا کے مظلوم و محکوم قوم آئے جوکہ پہلے سے ہی غربت و افلاس کی چکی میں پس رہے تھے، سامراجیت کا مرکز یورپ تھا اور برٹش ان سب میں نمایاں تھا۔ ان سامراجیوں نے جدید ٹیکنالوجی سے جدید تفنگ و توپ بنائے اور 90%فیصد دنیا پر قابض ہوگئے، ہندوستان میں ان سامراجیوں کے ایک کمپنی نے 20 ھزار سپاہیوں سے 300ملین لوگوں کو غلام بنائے رکھا،بغاوت کرنے والوں کو پھانسی پر چڑھایا یا فیک انکاونٹر کرکے ان کا خاتمہ کردیا تاکہ ان کی سامراجیت کی طوطی بولتا رہے،ان سامراجیوں نے خان عبداللہ جان قہار و نصیر خان نوری کے سرزمیں پر بھی قبضہ کیا اور خان قلات مہراب خان کو ساتھیوں سمیت ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا اور بعد میں للکارنے والوں کو بھی اور پھر یہ گورے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طورپر 100 سال تک بلوچ سرزمیں پر سیاہ و سفید کے مالک ہوگئے اور آج کی طرح سردار بھی ان کے وفادار زر خور بن گئے۔

جب کاہان کے مریوں نے جنرل براون کی بھرکس نکال کر بغیر جوتوں کے اس کو گھسیٹا تو دیگر سرداروں نے ادھر مسٹر سنڈیمن کے سامنے سرخم کئے اور اس کے جوتے صاف کرتے رہے، اور بلوچوں نے سو سالہ غلامی میں بہت کچھ کھویا اور اس میں سردار برابر کے شریک تھے۔

جب دوسری جنگ عظیم کا طبلہ بجا،ہٹلر ،مسولینی اور جاپانی جنرلوں نے انگریز کو ناکوں چنے چبوائے گوکہ انہیں کامیابی نہیں ملی امریکہ کی انٹری سے یہ جنگ تو ہار گئے لیکن دوسری طرف برطانیہ کی اتحاد جنگ تو جیتا لیکن اس کی ساری توانائی خرچ ہوچکی تھی اور سامراجیت کا خاتمہ اور کالونیوں کی آزادی کا سبب یہی دوسری جنگ عظیم بن گیا۔

لیکن یہ جغرافیائی تبدیلی بھی ان سامراجیوں کے منشاء کے مطابق ہوئی اور بہت سے قوموں کے ساتھ وہ زیادتیاں ہوئیں کہ جس کی وجہ سے کئی قومیں ظلم کی چکی میں آج پس رہے ہیں اور ان میں بلوچ قوم بھی شامل ہے۔

اس دوران کئی پرنس اسٹیٹ ختم کئے گئے لیکن تاریخ میں پہلی بار ایک انہونی ہوئی کہ ان سامراجیت کے نمائندوں نے ایک غیر فطری ریاست تشکیل دی اور اس کا نام پاکستان رکھا جب کہ 1410سے لیکر 1839تک اس خطے کا ایک اہم ترین ریاست قلات کو مختلف طریقوں سے ریاست پاکستان میں شامل کرادیا، کچھ حصے چال و دھونس، اور کچھ فوجی کاروائی سے چونکہ پاکستان خود کوئی تاریخی ورثہ نہیں رکھتا تھا، لہذا اس نے اسلامائزیشن کے ذریعے ایک نئے ریاستی بیانیہ بنایا اور قوموں کی حقوق و وسائل اور جغرافیائی حدود کو ہڑپنا شروع کیا اور بلوچ قوم کی تاریخ ،ثقافت زبان اور جدوجہد کو بلکل ختم کرنے کی شروعات کی۔

1948 سے لیکر آج تک پاکستانی ریاست کے ہاتھوں ہزاروں بلوچ کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور یہ تاریخ ہنوز جاری و ساری ہے’ تاہم دوھزار کے بعد جب بلوچ جدوجہد میں نئی اور تعلیم یافتہ خون شامل ہوئی تو نئی سامراجی ریاست پاکستان نے بلوچوں کی قتل عام میں تیزی لائی اور پھر لوگوں کو لاپتہ کرنا اور قتل کرنا شروع کیا جو کہ اب تک جاری ہے اور بلوچ نوجوانوں کی نہ ختم ہونے والی قتل اور مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ تب سے اب تک جاری ہے، ابھی گزشتہ دنوں نئی سامراجی فوج نے پہلے سے ہی لاپتہ بلوچ نوجوانوں کو قتل کرکے ان کے لاش زیارت میں پھینکے اور اعلان کیا کہ یہ سرچ آپریشن میں مارے گئے ہیں حالانکہ ریاست پاکستان کے ادارے خود یہ گواہی دے رہے ہیں کہ ان میں سے کچھ کے لاپتگی کا Fir بھی ہوچکاہے ، یہ اسی سامراجیت کا زہن ہے جوکہ پاکستان اور اس کے فوج کو ورثے میں ملا تھا۔

گوکہ بلوچ اپنے بساط کے مطابق جدوجہد کررہے ہیں تاہم اب وقت آن پہنچا ہے کہ بلوچ سیاست اور مزاحمت کو مزید مستحکم کیا جائے جن لوگوں نے ذمہ داری لی ہے، جن کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو انہیں چاہیے کہ سوشل میڈیا کے بجائے حقیقی کاموں اور ٹیم ورک پر توجہ دی جائے۔ بڑی افسوس کی بات ہے کہ جو لوگ ماس پولٹکس کی بات کرتے ہیں وہ صرف سوشل میڈیا تک محدود ہوچکے ہیں اور ماس پولیٹکس میں ان کا دور تک کوئی کردار اور وسطہ ہی نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں