دودا دفن نہیں ہو تے
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
کیا آوازیں دفن ہو تی ہیں؟
کیا نقش پا دفن ہوتے ہیں؟
ہوائیں،خوشبو،اعلان، دھول آلود پیروں کا سفر دفن ہو تے ہیں؟
بھروسہ، دلاسہ، آسرہ،محبت میں اُٹھتے ہاتھ،گرتے دوپٹوں کو سروں پر سیدھا رکھنا
پرچم تھامتے ہاتھ،آگے چلتے پیر، باتیں،بہت سی باتیں،محبت سے چومتے ہونٹ جب مائیں بہنیں،بچے درد میں رو تے ہوں اور کوئی آگےبڑھ کر ان کانپتے ہاتھوں کو چوم لیتا ہو
جو ایک ہاتھ سے تسبیح کی دانے پھیر رہا ہو اور دوسرے ہاتھ سے آنسو پونچھ رہا ہو
کیا وہ ہاتھ دفن ہو سکتے ہیں؟
آنکھیں تو اس لیے ہو تی ہیں کہ وہ درد کو سہیں اور چشم نم رہیں
کیا وہ بھیگی بھیگی آنکھیں دفن ہو گئیں؟
جن آنکھوں کا درد سے پالا تھا،اور وہ درد میں بھیگی ہی رہتی تھیں پھر بھی مسکراتی تھیں
کیا وہ گیلے نینوں والی بھیگی بھیگی آنکھیں آج شال کی پتھریلی زمیں میں پیوست پوگئیں؟!!
جدو جہد۔مشکل آساں سفر کرتے پیر،محبت کے گیت گاتی زباں سیاہ نین سب دفن ہوئے؟
کیا وہ دل بھی دفن ہواجو دیس جیسا وشال تھا؟
وہ شخص جو کسی آسماں کے برابر وسعت رکھتا تھا آج شال کی گلیوں سے ہوتا ہوا وہاں دفن ہوا جہاں کامریڈ اسے دیس کی دھرتیکے حوالے کر کے یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ ”کیا جدو جہد بھی دفن ہو تی ہے؟!“
کیا آنکھیں بھی دفن ہو تی ہیں؟کیا ان آنکھوں کے خواب سپنے بھی دفن ہوتے ہیں؟طویل سفر،درد اور دھول آلود پیر بھی دفن ہوتےہیں،اعلان،تقریریں،بھروسہ،آسرہ،ہاتھ بھی دفن ہو تے ہیں؟!“
آج جب بہت سے کامریڈ اُمید کو مٹی کے حوالے کر کے لوٹ رہے تھے تو پہاڑوں کی چوٹیوں سے ایسی آوازیں آ رہی تھیں کہ
”اے گھروں کو لوٹتے کامریڈو!
جب صبح د ن چڑھے تو
تو کامریڈ کے خوابوں کو
سورج سے ناپنا“
ابھی تو کامریڈ بس مٹی کے حوالے ہوا ہے اور اس کے خواب تو خوشبو بن کر یہی شال کی گلیوں میں گھوم رہے ہیں ہمیں آگے بڑھناہے اور ان خوابوں کو آنکھوں میں سجانا ہے کیوں کہ مرتے انسان ہیں سپنوں اور خوابوں کو کسی گولی سے گھائل نہیں کیا جا سکتالوگ مرتے ہیں اور خوابوں کی منتقلی کا سفر جا ری رہتا ہے،جب کامریڈ دھرتی کے سینے میں جا رہا تھا تو خواب رنگ بن کر تتلی بنکر ہماری آنکھوں میں ٹھہر رہے تھے۔تو تم ان خوابوں کو کہاں اور کیسے دفن کرو گے؟
جو رنگ بھی ہیں
جو سنگ بھی ہیں
جو بارش بھی ہیں
جو ہواؤں کا میٹھا سفر بھی ہیں
جو تتلی بھی ہیں
جو برف کے سفید گالے بھی ہیں
جودھول آلود پیر بھی ہیں
جو نین بھی ہیں
جو آنکھیں بھی ہیں
اب وہ آنکھیں خواب بن کر ہماری آنکھوں میں ٹھہر گئے ہیں جن کے سب رنگ سانول ہیں
تو آج ہم نے بس طاہر خان کو مٹی کے حوالے کیا ہے اس کے خواب،سپنے،جدو جہد باتیں اور طویل مختصر سفر تو یہی رہ گئے ہیںاور دودا دفن نہیں ہو تے!وجود دفن ہو تے ہیں،وہ تو دودا کا وجود تھا سرخ سورج کی ماند تم ہزاروں ہاتھ لاؤ جب بھی سورج کو دفننہیں کر سکتے،کامریڈ بلوچ دھرتی کا سورج تھا مختصر ہی صحیح!
وہ طلوع ہوا!روشن ہوا!اور غروب ہوگیا!کل پھر طلوع ہوگا
تو تم آج کسے دفن کر آئے ہو؟بس ایک وجود کو
کامریڈ کے سیکڑوں سپنے آج بھی شال کی گلیوں میں ان ہاتھوں اور آنکھوں کو تلاش رہے ہیں
جو ہاتھ آگے بڑھیں اور کامریڈ کے خوابوں کو اپنی آنکھوں میں سما لیں
ایسے خواب جو سونے نہ دیں
ایسے خواب جو رونے نہ دیں
ایسے خواب جو بے چین رکھیں
ایسے خواب جو اُمید کی دئیے کی طرح دل میں روشن رہیں
ایسے خواب جو دھرتی سے اُٹھیں اور دھرتی سے جوڑ دیں
ایسے خواب جن میں دھرتی کی خوشبو ہو
ایسے خواب جن پر بارش کی پہلی بوند پڑھے تو وہ دیس کی مٹی کی طرح مہک اُٹھیں
کامریڈ کے وہ تمام تر خواب شال کی گلیوں میں موجود ہیں،وہ آنکھیں جو سپنوں سے پُر تھیں،وہ نین جن نینوں پر تتلیاں آکر بیٹھ جاتی تھیں وہ نین کبھی دفن نہیں ہو سکتے
کیوں کہ دودا دفن نہیں ہو تے
کامریڈ بلوچ دھرتی کا دادا تھا
کامریڈ کا ملن دھرتی سے بہت مختصر رہا اتنا مختصر جتنا رومی اور شمس تبریز کا ملن تھا
پھر بھی کامریڈ نے اپنے رنگ سے دھرتی کو رنگ دیا
اب اس قبر پر کونجوں کی ڈار آئیگی
پنچھی اس قبر پر گیت گائیں گے
ہوائیں کامریڈ کی قبر کو خوشبو سے بھر دی گی
چاند ہر روز سلامی بھرے گا
سورج پہلا سلام اور آخری سلام اسی قبر کو کرے گا
تتلیاں اپنے رنگوں سے اس قبر کو رنگ دیں گی
بارش اس قبر پر سرخ پھول کھلائے گی
جاتے ہوئے چاند کہے گا
طاہر خان تیرا وجود
وشال آکاس بن کر میرے وجود میں موجود ہو
اور میں مظلوم کی آنکھوں سے
دھرتی پہ ڈھونڈتا ہوں!
اور سنو کامریڈ!
تم دودا ہو
اور دودا!دفن نہیں ہو تے!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں