درد کی بارش! ۔ محمد خان داؤد

190

درد کی بارش!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کیا ہم بس اس برستی بارش کو دیکھتے رہیں گے جو آئی،برسی،اور پوری بستی کو گیلا کر گئی؟
کیا ہم بس اس بارش کو دیکھیں گے جو بہت برسی اور برس برس کر اپنے ساتھ بہت کچھ بہا لے گئی؟
کیا ہم بس اس بارش کو بھیگے بالوں اور ڈوبے بستروں سے دیکھیں گے جو برسی اور جم کر برسی؟
کیا ہم بس اس بارش کو تکتے رہیں گے جو شال کی گلیوں میں ہی نہیں،کراچی کی سڑکوں میں ہی نہیں،پنجاب کے سر سبز کھیتوں میں ہی نہیں پر ٹھٹھہ کے اس جھمپیر پر بھی برسی جس جھمپیر کی کوئلے کی کان میں بہت سے مزدور پانی میں ایسے بہہ گئے جیسے گھروں میں سوئی جوان بچیوں کے وہ سپنے بہہ جا تے ہیں جب انہیں جدید دور کے موبائل فونوں سے خبریں موصول ہو تی ہیں کہ ان کا بابا کیسے کوئلے کی کان میں پہلے اترا،پھر مٹی کے تودے سے دبا اور پھر بارش میں بہہ گیا؟

کیا ہم بس اس بارش کو جانتے ہیں جو بلوچستان کے پہاڑوں پر زور زور سے برسی اور جاتے ہوئے بلوچ پہاڑوں کے سروں پر قوس و قزاح کے رنگ بکھیرگئی۔

کیا ہم بس اس بارش سے واقف ہیں جس کے آنے سے ملکی میڈیا میں ایک اور ریٹینگ کا شور بڑھ گیا ہے اور نا معقول،نا سمجھ۔ان پڑھ جگاڑی،سیکھتے صحافی اپنے سروں پر بارش میں چھتریاں لیے کامیڈی کر رہے ہیں۔ہم بس اس بارش سے واقف ہیں جو سڑکوں اور گھروں کی چھتیں گیلی کر رہی ہے اور بہتا پانی گندے نالے میں گر رہا ہے
ہم بس بادلوں کے پھٹ جانے،”ککر کارونبھار!“اور آکاش کی بارش سے واقف ہیں
ہم اس بارش سے کیوں واقف نہیں جو نینوں کی بارش ہے؟
ہم اس بارش سے کیوں واقف نہیں جو جلاتی بھی ہے اور بجھاتی بھی ہے اور پھر بجھا بجھا کر پھر جلا دیتی ہے
ہم اس بارش سے کیوں واقف نہیں جو برستی ہی رہتی ہے ہمیشہ
ہم اس بارش سے کیوں واقف نہیں جو نینوں کو گیلا کرتی ہے اور دل کو جلا دیتی ہے
ہم اس بارش سے کیوں واقف نہیں جس کے برس جانے پر کوئی رنگ نہیں کھلتے،کوئی قوس قزاح نہیں بنتا،کوئی تتلیاں نہیں اُڑتیں،گلوں میں رنگ اور خوشبو نہیں بھرتی،
ہم اس بارش سے کیوں واقف ہیں جس کے برسنے کے بعد بوڑھے دل اپنے آپ کہتے ہیں
”ربا!میرے حال دا محرم توں“
ہم اس بارش سے تو واقف ہیں جو دھرتی کو پانی سے بھر گئی پر ہم اس بارش سے واقف نہیں جو من کو گیلا گیلا کر جاتی ہے۔ ہم اس بارش سے تو واقف ہیں جس کے برسنے پر گھروں میں فرمائیشی کھانے بنائے جاتے ہیں پر ہم اس بارش سے واقف نہیں جس کے اک اک بوند پر مائیں اداس دل سے خدا تلاش کرتی ہیں، روتی ہیں،چیختی ہیں، چلاتی ہیں۔ ماتم یار کرتی ہیں اور بے بس ہوکر آکاش کو تکتی ہیں۔اور ان کے دل سے ایسی صدائیں اپنے آپ نکلتی ہیں کہ
”اج سک متراں دی ودھیری اے
کیوں دلڑی اداس گھنیری اے
لوں لوں وچ شوق چنگیری اے
اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں؟“

ہم آکاش پر پھٹتے بادلوں کی بارش سے واقف ہیں ہم دلوں کے جلنے پر برسنے والی بارشوں سے واقف نہیں۔ ہم پہاڑوں کی چوٹیوں پربرستی بارشوں سے واقف ہیں ہم دل کے قلوب میں برسنے والی بارشوں سے واقف نہیں۔ ہم بادلوں کی چوٹیوں کو دھو جانے والی بارش سے واقف ہیں ہم دلوں کو مغموم کر جانے والی بارشوں سے واقف نہیں۔ہم ان بارشوں سے واقف ہیں جن کے برسنے پر مطلع صاف ہوجاتا ہے ہم ان بارشوں سے ہر گز ہر گز واقف نہیں جب وہ برستی ہیں تو آنکھوں کو اندھا کر جاتی ہیں اور مائیں ان بچوں کی ہاتھوں میں مٹتی تصاویر نہیں پہچان پاتی کہ وہ مٹتی تصویر میں ڈاکٹر دین محمد ہے یا زاکر مجید؟

ہم خوشی کی بارشوں سے واقف ہیں جن کے بعد پھول ہی کیا پر دل بھی کھل آتے ہیں جن کھلتے دلوں کو دیکھ کر پاؤلو کویلہو نے لکھا تھا کہ
”وہ تمام لوگ جو خوش ہو تے ہیں ان کے اندر خدا بستا ہے!“
پر ہم ان بارشوں سے واقف ہی نہیں جو برستی ہی جب ہیں جب زمینی خدا ماؤں سے ان کے بچے چھین لیتے ہیں۔مائیں راہوں میں رُل جاتی ہیں۔ماؤں کی نیندیں ماری جاتی ہیں۔مائیں مسافر بن جاتی ہیں۔ماؤں کی مانگیں اور پیر دھول سے بھر جاتے ہیں۔مائیں گھر چھوڑ کر۔گھر چھوڑنا کیا پر مائیں گھروں کو ہی بھول جاتی ہیں۔مائیں گھر بہت پیچھے اور درد کو دامن گیر کر لیتی ہیں۔مائیں مریمیں بن جاتی ہیں اور آکاش پر بستے عیسیٰ کے خدا کو تلاشتی ہیں اور زمیں پر بہت سے عیسیٰ صلیبوں پر جھول جاتے ہیں جب مائیں اپنی آنکھوں سے خون کی بارش کرتی ہیں ہم ا ن بارشوں سے واقف نہیں
پاؤلو کویلہو کی یہ بات”وہ تمام لوگ جو خوش ہو تے ہیں ان کے اندر خدا بستا ہے!“ ہوسکتا ہے درست بھی ہو
پر ہم ان ماؤں۔بہنوں۔بیٹیوں کو آج عید کے روز کس خدا کا پتا دیں جو مائیں خوش نہیں جن کے دل بہت ہی علیل ہیں۔مغموم ہیں۔اداس ہیں اور بارشوں کی ماند برس رہے ہیں
خوش لوگوں کے اندر خدا بستا ہے تو پھر مغموم انسانوں کا خدا کہاں ہے؟
ہمیں آج وہ خدا نہیں چاہیے جس نے پہاڑوں پر بارشیں برسائیں
پر ہمیں آج اس خدا کی تلاش ہے جس نے بلوچ ماؤں کی نیندوں کو قتل کیا،پیروں کو زخمی اور مانگوں کو دھول آلود
ہمیں دلوں پر درد اور لہو کی بارش برسانے والے خدا کی تلاش ہے
ہمیں بلوچ بیٹوں کو راہوں میں رول دینے والے خدا کی تلاش ہے
ہمیں ماؤں کی نیندیں قتل کر دینے والے خدا کی تلاش ہے
ہمیں ماؤں کو گھروں کے آنگن سے اُٹھا کر اداس کیمپ میں بٹھا دینے والے مولا کی تلاش ہے
ہمیں ہنستی مسکراتی بیٹیوں کو رلانے والے خدا کی تلاش ہے
ہمیں بے فکر۔نہ سمجھ ماؤں کو فکروں میں مبتلا کرجانے والے خدا کی تلاش ہے
ہم تو بس اس بارش کو دیکھ رہے ہیں جو گھر کی کھڑکی سے ایسے بہہ رہی ہے جیسے دودھ سے بھرے پستانوں سے محبت کا پسینہ!
ہم اس بارش کو نہیں جانتے جو ماں کے دل سے سونامی کی ماند چھلک اُٹھی
اور ما ں نے کانپتے ہاتھوں سے اس دردیلی سونامی کے سامنے اپنے ہاتھوں سے بندھ باندھ دیا۔