جبری لاپتہ شعیب احمدکے بارے میں ترجمان سندھ حکومت کاپریس کانفرنس جھوٹ کا پلندہ ہے۔ بی این ایم

295

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے سندھ کے کٹھ پتلی وزیر اطلاعات شرجیل میمن کی جبری لاپتہ شعیب احمد کے بارے میں پریس کانفرنس کو اسکرپٹڈ اور جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ خفیہ اداروں کی ایک تحریر کردہ اسکرپٹ پڑھ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش میں تھا۔

ترجمان نے کہا کہ پریس کانفرنس میں ایک اہم نام بی این ایم کے سابق چئیرمین خلیل بلوچ کا نام ہے جسے کئی دفعہ دُہرا کر اسے مسلح جدوجہد سے منسلک کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح غیر اعلانیہ پابندی، کئی رہنماؤں اور کارکنوں کی شہادت اور جبری گمشدگی کے بعد بی این ایم کی رہنماؤں کو مسلح قرار دیکر نشانہ بنانے اور مسلح تنظیم پیش کرنے کی کوششیں ہیں۔ چئیرمین خلیل بلوچ بلوچستان کی ایک اہم شخصیات میں سے ایک ہیں اور وہ ایک دہائی سے زائد عرصے تک بلوچستان کی آزادی کیلئے برسرپیکار سیاسی جماعت بی این ایم کے سربراہ رہے ہیں۔ سندھ کی کٹھ پتلی وزیر اطلاعات شرجیل میمن جس حقیر انداز میں ان کا نام عرف بنا کر انہیں متنازعہ بنانے اورمسلح تنظیم کے کمانڈر ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے جبکہ شرجیل میمن کے آقا خلیل بلوچ کےسیاست، کردار اور شخصیت سے اچھی طرح واقف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکام کی بارہا کوشش رہی ہے کہ وہ لاپتہ افراد کو کسی جعلی کیس میں نامزد کرکے جبری گمشدگی کو ایک قانونی شکل دیں۔ اس پریس کانفرنس میں بھی یہی کیا گیا۔ انتیس اپریل سے لاپتہ شعیب احمد کو شاری واقعہ سے منسلک کرکے اسے چار جولائی کو گرفتار کرنے کا جھوٹا دعوی کیا گیا۔

ترجمان نے کہا کہ شعیب احمد کی بہن اور خاندان کئی دنوں سے کراچی پریس کلب کے سامنے مسنگ پرسنز کیمپ میں اس کی تصویر اٹھائے بیٹھے ہیں لیکن سندھ حکومت کی کسی اہلکار نے ان کی داد رسی کے بجائے ایک جھوٹی کیس میں نامزد کیا۔ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت سے بلوچوں کو کوئی امید وابستہ نہیں ہے۔ گزشتہ مہینے جبری لاپتہ افراد کے خاندانوں پر پولیس کی جارحیت، تشدد اور لاٹھی چارج ہو یا ستر کی دہائی کی ذوالفقار بھٹو کی بلوچستان میں کئی گئی بربریت ہوں، بلوچ قوم کی ذہنوں میں نقش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جعلی اورفرضی الزامات بلوچوں کیلئے نئی نہیں ہیں۔ اسی سال فروری میں خضدار سے اسلام آباد یونیورسٹی کے ایم فل کے طالب علم حفیظ بلوچ کو جبری لاپتہ کیا گیا۔ اس کے طلبا دوستوں اور بلوچ قوم کی جانب سے شدید احتجاج اور مزاحمت کے بعد اسے جعلی مقدمات میں نامزد کرکے ڈیرہ مراد جمالی میں منظر عام پر لایا گیا۔ اسے بارود سمیت رنگے ہاتھوں پکڑنے کا دعوی کیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی ہی عدالت کو ثبوت فراہم نہیں کرسکے، جو ایک مضحکہ خیز عمل ہی ہے۔ شعیب احمدکو دو مہینے سے زائد ٹارچر سیلوں میں رکھ کر اذیت کے ذریعے ایک بیان لیا ہوگا لیکن حفیظ بلوچ کیس کی طرح کل شعیب احمد کیلئے بھی کوئی ثبوت نہ ملنا باعث حیرت نہیں ہوگی۔ پاکستان ان اعمال سے بلوچوں پر اپنی حاکمیت اور طاقت کا اظہار کرنا چاہتی ہے۔