بلوچ کا نوآبادکار کے خلاف جوابی تشدد
تحریر: ذوالفقار علی زلفی
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کے شہروں نوشکی اور پنجگور میں پاکستانی فوج کے کیمپوں پر بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی ذیلی تنظیم مجیدبریگیڈ کے فدائی حملوں کے بعد بلوچ تحریک ایک دفعہ پھر پاکستان کے دانش ور حلقوں میں موضوعِ بحث بن گیا ہے ـ البتہ تبصروں وتجزیوں کا وہ طوفان نظر نہیں آرہا جو نواب اکبر خان بگٹی کی پاکستانی فوج کے ہاتھوں قتل اور بلوچ خطے (بشمول کراچی) میںاس کے شدید و وسیع ردعمل کے بعد دیکھا گیا ـ غالباً اس کی اہم ترین وجہ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ کی جانب سے غیراعلانیہطور پر بلوچستان کو “ممنوعہ” قرار دینا بھی ہے ۔
بلوچ تحریک کے حوالے سے بلاتخصیص دائیں و بائیں سیاسی نظریات کے حامل پاکستانی دانش وروں و لکھاریوں کا غالب نظریہماضی کی طرح آج بھی یہی ہے کہ یہ ایک بیرونی (عموماً بھارت) سازش ہے ـ پاکستانی مارکسیوں کی اکثریت البتہ اسے عالمیسرمایہ دار بالخصوص امریکی سازش بھی قرار دیتے رہتے ہیں ـ رائٹ ونگ حلقوں کی جانب سے بلوچ تحریک پر حملہ نیا نہیں ہے ـ1948 کو بلوچستان کے جبری الحاق سے ہی بلوچ تحریک کو وہ کبھی روسی، کبھی عراقی تو کبھی بھارتی سازش منوانے کیکوشش کرتے آرہے ہیں ـ خود کو مارکس وادی قرار دینے والے پاکستانیوں کی جانب سے بلوچ تحریک پر حملہ تاہم نئی صدی کی پہلیدہائی کے وسط سے شروع ہوا ۔
مذکورہ حلقوں کی بحث سے ایسا لگتا ہے جیسے بلوچ قومی آزادی کا نعرہ ایک اچانک پیش آنے والا واقعہ ہے ـ سوشل میڈیا پر سرگرمایک معروف “پاکستانی مارکسسٹ” تو اسے “بلوچ بورژوازی کے ظالم ترین نمائندے” نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کا موقع پرستانہردعمل بھی قرار دے چکے ہیں ـ حالانکہ بلوچ تاریخ کی جدلیات سے واضح ہے کہ ایسا قطعاً نہیں ہے ـ۔
بلوچ تحریک کا مختصر پس منظر
بلوچ قومی آزادی کا پہلا تصور 1749 کو نوری نصیر خان کے اقدامات سے نظر آتا ہے ـ نوری نصیر خان وہ پہلے بلوچ حکمران ہیںجنہوں نے نہ صرف ایک آزاد بلوچ ریاست کا تصور دیا بلکہ عملی صورت میں مختلف قبائل و علاقوں میں بکھرے بلوچوں کو ایک ڈھیلےڈھالے وفاق میں متحد بھی کردیا ـ نوری نصیر خان کی اقتصادی پالیسیوں کے باعث بلوچ سماج رفتہ رفتہ جاگیردارانہ سماج میںڈھلنے لگا ـ۔
بلوچ خطے میں انگریز حملہ آوروں کی آمد اور نوآبادیاتی پالیسیوں نے سماجی ارتقا کا عمل سست کردیا ـ اس کے ساتھ ساتھ انگریزکی براہ راست بیرونی مداخلت کے باعث سماجی تبدیلی کا عمل پیچیدہ اور ناہموار ہوتا گیا ـ نوری نصیر خان کی اقتصادی پالیسیوںکے باعث جو جاگیردار طبقہ پیدا ہوا تھا انگریز کی پالیسیوں نے اس طبقے کی طاقت میں کئی گنا اضافہ کردیا ـ سماج واضح طور پردو حصوں میں بٹ گیا ـ۔
بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مڈل کلاس قوم پرستانہ تحریکوں کا سلسلہ شروع ہوا ـانتحریکوں پر جدید مغربی نظریات کا اثر تھا ـبلوچستان کے علاقے جھل مگسی سے تعلق رکھنے والے نوجوان سردار، میر یوسف عزیزمگسی اول ان تحریکات سے متاثر ہوئے بعد میں وہ 1917 کے انقلاب روس سے غذا لینے لگے اور انہوں نے باقاعدہ جدید مغربی ومارکسی نظریات کی روشنی میں برطانوی نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کی داغ بیل ڈالی ـ۔
یوسف عزیز مگسی کا تعلق بورژوا طبقے سے تھا لیکن انہوں نے جدوجہد کے لئے مارکسزم کو اپنا ہتھیار بنایا ـایک جانب وہ سماجمیں دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کے خلاف تھے تو دوسری جانب وہ ایک آزاد بلوچ ریاست کی تشکیل کے بھی خواہاں تھے ـ بلوچحکمران طبقہ ایک غیر ترقی یافتہ اور نیم جاگیردارانہ و نیم قبائلی بورژوازی تھا جس کی طاقت اور طبقاتی برتری برطانیہ کی پشتپناہی سے قائم تھی ـ میر یوسف عزیز مگسی کی تحریک بلوچ بورژوازی کی حاکمیت اور طبقاتی برتری کے خلاف بلاشبہ ایک خطرہتھا ـسرداروں کی اکثریت نے طبقاتی نظریے کے تحت بلوچستان کی آزادی کے تصور کو مسترد کردیا انہیں خدشہ تھا کہ برطانیہ کےنکل جانے کے بعد ان کی طبقاتی برتری کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
1937 کو میر یوسف عزیز مگسی کی ناگہانی وفات کے بعد ان کی تحریک کو ان کے دیگر دوستوں نے آگے بڑھایا غیر ترقی یافتہپیداواری نظام پر مشتمل بلوچ قبائلی سماج میں منظم اور نظریاتی تحریک چلانا اور اسے کامیاب کرنا نہایت ہی مشکل تھا ـ یہ کاماس صورت میں مزید ناممکن ہوجاتا ہے جب طاقت ور مقامی بورژوازی کو ایک دہوہیکل نوآبادیاتی طاقت کی حمایت بھی حاصل ہو ـ۔
1946 کو ہندوستانی جہازیوں کی بغاوت اور دوسری جنگ عظیم کے نقصانات سمیت دیگر عوامل نے برطانیہ کو ہندوستان چھوڑنے پرمجبور کردیا ـ بلوچ حکمران طبقے نے خود کو لاوارث اور قومی شناخت کی بحالی و دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کے مخالف تعلیم یافتہمڈل کلاس کے سامنے کمزور محسوس کیا ـ بورژوازی ایک جانب اپنی حاکمیت بھی بچانا چاہتی تھی اور دوسری جانب وہ دولت کےغیرمنصفانہ نظام کو برقرار رکھنے کی بھی خواہاں رہی ـ اندرونی تضادات سے خوف زدہ حکمران طبقہ نوزائیدہ پاکستان کے حوالےسے کوئی واضح پوزیشن لینے میں ناکام رہی ـ جس کے نتیجے میں بلوچستان ایک آزاد ریاست بننے کی بجائے جبری طور پر پنجابینوآبادیاتی نظام کا حصہ بن گیا ـ
پنجابی نوآبادیاتی نظام
پنجابی نوآبادیاتی نظام کا جبری حصہ بننے کے بعد بلوچ بورژوازی کے ایک حصے نے اپنی آزاد حکمران حیثیت کی بحالی کے لئےمسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا لیکن انہوں نے محنت کشوں کو منظم کرنے کی کوشش نہیں کی جس سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہےکہ بورژوازی کا مقصد محض پنجابی نوآبادکار سے اپنی طبقاتی حقِ حکمرانی منوانا تھا ـ بہرکیف عوامی حمایت سے محرومی، مڈلکلاس طبقے کی عدم شمولیت اور خطے کے بدلتے معروضی حالات کے باعث بورژوازی کی یہ جدوجہد بری طرح ناکام رہی ـ۔
اس ناکامی کے بعد بورژوازی کے ایک چھوٹے سے حصے نے اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لئے بلوچ قومی شناخت کی بحالی اورآزاد ریاست کے قیام کے خام تصور پر جدوجہد کے مزید تین ادوار چلائےـ اس جدوجہد کا آخری دور 1970 کی دہائی ہے اس دہائیکی جدوجہد میں قبائلی محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ مڈل کلاس طبقہ بھی شامل ہوا ـ مڈل کلاس طبقےنے قومی سوال کے ساتھ ساتھ طبقاتی سوال کو بھی اٹھایا ـ 70 کی جدوجہد قومی جہدِ آزادی کے حوالے سے خوش گوار تجربہ ثابتہوا ـ گوکہ اس کے بعد نظریاتی کرپشن کا بھی دور دورہ ہوا اور متوسط طبقے نے پنجابی نوآبادکار کے ساتھ سمجھوتے کرکے اس کےساتھ نیا رشتہ بنا کر نوآبادیاتی نظام کو قابلِ قبول بنانے کی بھی کوشش کی ـ تاہم قومی آزادی کی جو تڑپ عوام میں پیدا کی گئیتھی متوسط طبقہ کیچڑ میں دھنسنے کے باوجود اس کا مکمل خاتمہ کرنے میں ناکام رہی ـ
پیش منظر
اس پوری بحث سے یہ بات کھل کر ثابت ہوتی ہے بلوچ قومی سوال اور اس کے گرد ابھرنے والی تحریک آزادی کوئی اچانک سے پیشآنے والا واقعہ نہیں ہے ـ اس کی جڑیں بلوچ سماج میں گہرائی تک پیوست ہیں ـ معروضی سیاسی حالات کے ارتقا اور مختلف طبقاتکے اتفاق و تضادات کی وجہ سے تحریک کی شکل بدلتی رہی ہے ـ اسے کسی بیرونی طاقت کی سازش قرار دینا یا بلوچ حکمران طبقےکے طبقاتی مفادات کے تحفظ کی کوشش کے طور پر منوانا محض ہوا میں تیر چلانا ہے ـ بلوچ قومی بورژوازی کا ایک مختصر حصہقومی جہد میں شامل ضرور ہوا ہے لیکن تحریک کی اندرونی حرکیات کی وجہ سے ان کے طبقاتی مفادات پسِ پشت چلے گئے تھے ـجہاں بورژوازی اپنی طبقاتی برتری پر اٹل رہی وہاں تحریک نے اسے غیر متعلق بنا دیا ـ
بلوچ تشدد
بلوچ تحریک کے حوالے سے ایک اعتراض یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ یہ ایک پرتشدد تحریک ہے اس لئے اس کی کامیابی کا امکان کماور عالمی سطح پر حمایت ناممکنات میں سے ہے ـ۔
کسی بھی تحریک کی کامیابی یا ناکامی کا تصور محض ایک التباس ہے ـ تحریکات چلتی رہتی ہیں اور شکلیں بدلتی رہتی ہیں ـیوسف عزیز مگسی کی نیشنلسٹ تحریک بظاہر 1947 کو کامیاب ہوگئی تھی مگر زمینی سطح پر ایسا ہرگز نہ تھا ـ برطانوینوآبادکار کی جگہ پنجابی نوآبادکار نے لے لی اور دولت کا غیر منصفانہ نظام مزید سفاک ہوتا چلا گیا ـ وہ بلوچ بورژوازی جس کیوفاداریاں انگریز کے ساتھ تھیں اس نے قبلہ بدل کر پنجابی نوآبادکار کو اپنا آقا مان لیا ـ مگسی تحریک نے بھی بدلتے حالات کےمطابق خود کو ڈھال لیا ـ قومی شناخت کی بحالی اور قومی آزادی کے حصول کی ایک اور لڑائی شروع ہوگئی ـ۔
بلوچ حکمران طبقے کی ساخت و پرداخت میں برطانوی نوآبادیاتی نظام کا اہم کردار تھا ـ یہ ایک سدھایا ہوا طبقہ تھا جس کی اپنیکوئی آزادانہ رائے نہیں تھی اور نہ ہی وہ قوتِ فیصلہ رکھتی تھی ـ اسے ایک سرپرست کی ضرورت تھی جس کی چھاؤں میں وہ اپنےحریصانہ مفادات کا تحفظ کرسکے ـ بانیِ پاکستان محمد علی جناح ؛ بلوچ حکمران طبقے کی اس کمزوری سے واقف تھے اس لئےانہوں نے اس طبقے کو اپنی سرپرستی میں لینے کو کسی پس و پیش سے کام نہ لیا ـ بقول جناح “بلوچ سرداروں کی پیدائش انگریزکے ہاتھوں ہوئی لیکن ان کی اصلی تخلیق کا سہرا ہمارے سر جاتا ہے” ـ
سرداروں نے برطانوی نوآبادیاتی دور سے اپنی رعیت کو ایسا تاثر دے رکھا تھا جیسے ان کی زندگی میں کچھ بھی نہیں بدلا، وہ آجبھی آزادی کے ساتھ بھیڑ بکریاں چرا سکتے ہیں، آتشیں اسلحے کے ساتھ نقل و حرکت کرسکتے ہیں اور ہاں بڑی سہولت کے ساتھقبائلی جنگیں بھی لڑ سکتے ہیں ـ پاکستان کے ساتھ جبری الحاق کے بعد بھی ان کا یہی رویہ برقرار رہا ـ
پنجابی نوآبادیاتی نظام کے پاسبان پاکستانی دانش وروں نے بلوچ شناخت کی بحالی اور آزاد ریاست کی خواہش کو مادی پسماندگیاور احساس محرومی کا نام دے کر اس کا ذمہ دار سردار کو ٹھہرایا اور دوسری جانب نوآبادکار نے سردار کو اپنی سرپرستی میں لےکر استحصال اور لوٹ کھسوٹ کو جاری رکھا ـ سرداروں کے صرف ایک مختصر حصے نے اس صورتحال کے خلاف احتجاج کیا ـ یہمختصر حصہ یوسف عزیز مگسی کی مانند نظریاتی نہ تھا اور نہ ہی اس کے ذہن میں ان کی طرح مستقبل یا جاری جدوجہد کا کوئیمستقل خاکہ تھا ـ اس کے باوجود بورژوازی کے اس چھوٹے سے حصے نے بلوچ شناخت کی بحالی کی جدوجہد میں تمام پرامن ذرائعاستعمال کئے ـ اس پرامن جدوجہد کو البتہ بلوچ محنت کش طبقے کے بنیادی مفادات سے زیادہ سروکار نہیں تھا ـ یہ جدوجہد بڑی حدتک قومی بورژوازی اور کسی حد تک پیٹی بورژوازی کے مفادات کا احاطہ کرتا تھا ـ ان میں آزادانہ انتخابات، نوکریوں کی تعدادبڑھانا، لوٹے جارہے وسائل سے حصہ ، تحریر و تقریر کی وہ آزادی جو پنجابی شہری کو حاصل ہے اور نوآبادکار کے قانون سازاسمبلیوں سے پاس کئے گئے “انسانی حقوق” کا دیے جانا وغیرہ ـ ان پڑھ دیہی آبادی جو اکثریت ہے یہ سرے سے اس کا مسئلہ ہی نہتھے ـ
پنجابی نوآبادکار جو عالمی سطح پر خود ایک طفیلی ہے، جس کی معیشت امریکی امداد کی بیساکھی پر کھڑی ہے جدید عالمینوآبادیاتی نظام کا حصہ ہے نے “بے ضرر” مطالبات پر مبنی پرامن بلوچ جدوجہد کو بھی بہت بڑے خطرے سے تعبیر کیا اور اس کےخلاف تشدد کے بدترین امثال قائم کئے ـ فرانز فینن نے نوآبادیاتی نظام پر بحث کرتے لکھا “نوآبادیاتی نظام سوچنے والی مشین نہیںہوتا اور نہ ہی وہ ایسا جسم ہوتا ہے جس میں دلائل کی صلاحیتیں ہوں ـ یہ نہایت ہی وحشیانہ قسم کا تشدد ہوتا ہے اور یہ محض اسوقت گھٹنے ٹیکتا ہے جب اس کا مقابلہ زیادہ بڑے تشدد سے ہو” ـ
بلوچ تحریک کو پرتشدد کا طعنہ دینے والے بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ اس روشن حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ محکوماقوام کا تشدد نوآبادیاتی تشدد کی کوکھ سے جنم لیتا ہے ـ انتہائی رعونت سے کہا جاتا ہے کہ اگر بلوچ جہد کار تشدد کا استعمالکریں گے تو پاکستانی فوج بھی اس کا جواب تشدد سے ہی دے گی جس کا نقصان بالآخر بلوچ کو ہی برداشت کرنا پڑے گا ـ اسبےرحم تبصرے سے ایسا تاثر ابھرتا ہے جیسے بلوچ تشدد عمل جبکہ نوآبادکار کا تشدد ردعمل ہے ـ بلوچ پیٹی بورژوازی سے تعلقرکھنے والے وہ دانش ور جن کے رشتے پنجابی نوآبادیاتی دانش ور سے ہوتے ہیں، جو اپنی مٹی اور اس سے جڑے دیہی آبادی سےکٹے ہوئے ہوتے ہیں وہ بھی ایسے مواقع پر بلوچ تشدد کو خودکشی کا نام دیتے ہیں ـ وہ پنجابی نوآباکار کی فوج اور مشینری کو ایکایسی طاقت کے روپ میں پیش کرتے ہیں جسے شکست دینا ناممکن ہے ـ وہ اٹھتے بیٹھتے نوجوان اذہان کو یہ باور کروانے کی کوششکرتے ہیں کہ پرتشدد تحریک لاحاصل ہے، دنیا اس کو تسلیم نہیں کرے گی، پرتشدد جدوجہد اب محض تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، آج کی دنیا چے گویرا سے خاصا آگے نکل چکی ہے وغیرہ وغیرہ ـ
یہ نکتہ تعجب خیز نہیں ہونا چاہیے کہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے نوجوان مایوسی پھیلانے والے ان دانش وروںسے اتفاق نہیں کر رہے ـ کیوں کہ وہ ہر گزرتے لمحے طاقت ور نظر آنے والے نوآبادکار کی قلعی کھلتے دیکھتے آرہے ہیں ـ جگہ جگہچیک پوسٹیں، انٹیلی جنس کا مایا جال، عورتوں، بزرگوں اور نہتے جوانوں پر مسلح نوآبایاتی فوج کا فرسٹریشن پر مبنی تشدد، میڈیا بلیک آؤٹ، سوشل میڈیا پر پنجابیوں کی گالم گلوچ ـ یہ سب یہ ثابت کرنے کو کافی ہیں کہ بلوچ تشدد لاحاصل نہیں ـ رہی باتخودکشی کی تو نوآبادیاتی نظام کے جبر تلے محنت کش زندہ کب ہوتا ہے؟ ـ
یہ کسی حد تک درست ہے کہ محکوم قوم کی نسبت حاکم قوم زیادہ منظم اور مسلح ہوتا ہے ـ محکوم کا اسلحہ کم ترقی یافتہ ہوتا ہے ـاس کی جنگی صلاحیت نسبتاً کم تر درجے کی ہوتی ہے ـ اس کے پاس پروپیگنڈے کے ذرائع محدود ہوتے ہیں ـ تاہم تشدد پر مبنی قومیجنگ اپنے راستے ڈھونڈھ ہی لیتی ہے ـ لینن نے کہا تھا “انقلاب کی کامیابی کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ـ اول نظریہ، دومنظریہ اور سوم نظریہ” ـ نظریہ یعنی ایک نظریے پر قائم انقلابی تنظیم ـ بلوچ اس پل صراط کو پار کرچکے ہیں ـ اسٹالن نے ممفس کےمزدوروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ “ہمیں ظلم کے نشانات کو ختم کرنے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے ـ اول اسلحہ ـ دومبہت اسلحہ اور سوم بہت زیادہ اسلحہ” ـ بلوچ ؛ نظریے کے بعد اب اسلحے کے زیادہ سے زیادہ حصول کی جانب کامیابی سے پیشقدمی کر رہے ہیں ـ اس جنگ میں بلوچ کا مہلک ترین اسلحہ فدائی ہے جو بقول پاکستانی فوجی دانش ور کے جو حیرت انگیز اورناقابلِ پیشن گوئی ہے ـ پنجگور اور نوشکی کا حملہ اس لئے اہم ہے کہ بلوچ نے پہلی دفعہ منظم طریقے سے مکمل سکون و اطمینان کےساتھ طاقت کے اہم ترین مراکز کو نشانہ بنا کر یہ ثابت کردیا کہ وہ تشدد پر مبنی قومی جنگ کو ایک نئی جہت دینے کی صلاحیتحاصل کرچکے ہیں ـ
بنگال کی آزادی کو جغرافیہ اور بھارت کی ہمسائیگی کی وجہ قرار دینے والے قریب ترین تاریخ ایسٹ تیمور کو بڑی ہوشیاری کے ساتھحذف کردیتے ہیں ـ یاد رکھنا چاہیے وسیع و عریض بلوچ سرزمین اور کم آبادی خود ایک ایسا مہلک ہتھیار ہے جس کا توڑ پنجابینوآبادیاتی فوج کے پاس تاقیامت نہیں آسکتا ـ وسیع و عریض سرزمین پر بکھری ہوئی قوم کی منظم جنگ کا سامنا دیوہیکل امریکہبھی نہ کرسکا اور ویت نام سے ذلت آمیز انداز میں بھاگنا پڑا ـ یہاں تو ویت نام کے مقابلے میں زیادہ وسیع اور دشوار سرزمین ہےجہاں دور دور تک آبادی اور پانی کا نام و نشان نہیں ہے ـ فوج کہاں کہاں چیک پوسٹیں بنائے گی اور کہاں کہاں ان چیک پوسٹوں کوقومی جذبے سے سرشار محنت کش سرمچاروں کے غیض و غضب سے بچا پائے گی؟ ـ ٹالسٹائی کے شہرہ آفاق ناول “جنگ و امن” کےاختتام میں روس پر حملہ آور فوج روسیوں سے نہیں بلکہ ان کی سرزمین سے ہارتی نظر آتی ہے ـ سو بنگال کی مثال دینے والےاحمقانہ توجیہات دے کر بلوچ کو ڈرانے کی بجائے اپنے ڈر پر قابو پانا سیکھ لیں ـ
تشدد ناگزیر کیوں
یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ نوآبادی بنائے جانے والے اقوام کا تشدد خلا میں جنم نہیں لیتا نوآبادیاتی نظام کو برقرار رکھنے کے لئےتشدد لازمی امر ہے ـ نوآبادیاتی نظام اور تشدد لازم و ملزوم ہیں ـ نوآبادیاتی تشدد اپنا تضاد اپنے ساتھ ہی لاتا ہے یعنی محکوم قوم کاجوابی تشدد درست موضوع کی عدم موجودگی کے دوران محکوم اقوام کے اراکین نوآبادیاتی تشدد کا جواب اپنے ہی ہم لسان/قوم/نسلکو دیتے ہیں خاندانی دشمنیاں بڑھ جاتی ہیں، قبائلی تصادم کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے، وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسےہوجاتے ہیں ـ درست موضوع کی غیر موجودگی میں عیار نوآبادکار اس صورتحال کو بڑھاوا دینے کی ہر ممکن سعی کرتا ہے ـ وہ بھائیکو بھائی سے لڑانے کی راہیں ہموار کرتا جاتا ہے ـ اس دوران نوآبادیاتی دانش ور بھی خاموش رہتا ہے ـ اسے محکوم اقوام کی آپسیدشمنیوں اور تشدد کے مظاہرے سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی ـ۔
نوآبادکار اور اس کے دانش ور کو محکوم قوم کے تشدد سے اس وقت مسئلہ ہوتا ہے جب کوئی انقلابی تنظیم ان پڑھ دیہی آبادی کوغصہ نکالنے کا راستہ دکھاتا ہے جو نوآبادکار کے مضبوط قلعے اور اس کے عالیشان محلوں کی طرف جاتا ہے ـ محکوم اقوام کےزیردست طبقات رفتہ رفتہ اس راہ کے راہی بن جاتے ہیں ـ۔
حیرت نہیں ہونی چاہیے جب پنجابی نوآبادکار کے دانش ور بلوچ تشدد کو “ناراضی” ، “احساس محرومی” ، “چند لڑاکا لونڈوں کیجذباتیت” اور “حکمران طبقے کی سازش” کے نام سے پکار کر اس راستے کا رخ موڑنے کی شعوری کوشش کریں ـ اس شعوری کوششمیں بلوچ پیٹی بورژوازی کا وہ غالب حصہ بھی شامل ہوتا ہے جو ماضی کے پرامن جدوجہد کی وجہ سے پنجابی نوآباکار سے رشتہبنا کر مالِ مسروقہ کا ایک حصہ اپنے لئے مختص کر چکا ہے ـ وہ محنت کش طبقے کے تشدد سے خوف زدہ ہوجاتا ہے ـ اسے وہ سبچھن جانے کا ڈر لگا رہتا ہے جو اس نے گھٹیا ترین چاپلوسی کے ذریعے حاصل کیا ہوا ہے ـ بلوچ متوسط طبقے کی سب سے بڑیپارلیمانی جماعت نیشنل پارٹی کے قائدین اسی زُمرے میں آتے ہیں ـ ڈاکٹر مالک بلوچ کا نوشکی و پنجگور حملوں کے بعد سمجھوتہکرانے کی پیشکش والی ٹوئیٹ اسی ڈر و خوف کی عکاسی کرتی ہے ـ ڈاکٹر مالک بلوچ اور اس قبیل کے دیگر رہنما نوآبادیاتی نظام کیغلاظتوں میں مکمل طور پر لتھڑ چکے ہیں ـ وہ بلوچ محنت کش کو بھی اس غلاظت کا حصہ بنانے کے خواہش مند ہیں تاکہ ان کےسستے مفادات کا تحفظ ہوسکے ـ
پنجابی نوآبادکار کا سدھایا ہوا بورژوازی (باپ پارٹی) ہونقوں کی طرح اپنے آقا کو تک رہا ہے ـ وہ نہ ڈاکٹر مالک بلوچ کی طرحسمجھوتہ کروانے کی پیشکش کرسکتا ہے اور نہ ہی سردار اختر مینگل کی مانند جنگی نقصانات کو ایشو بنانے پر قادر ہے ـ وہ بظاہرخود کو نوآبادکار کا قائم مقام دکھانے کا دکھاوا کر رہا ہے مگر بیس سالہ طویل پرتشدد تحریک نے اس کے لئے صرف لوٹ مار میںزیادہ سے زیادہ حصہ بٹورنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں چھوڑا ـ
بلوچ بورژوازی کا وہ مختصر حصہ جو خود کو اس جنگ کا بانی سمجھتا ہے مہلک پرتشدد واقعات کے بعد بھنور میں پھنس چکا ہے ـوہ سودے بازی کی صلاحیت کھو کر واپسی کے راستوں کو مسدود ہوتا دیکھ رہا ہے ـ یقیناً یہ بلوچ تحریک آزادی کا ایک نیا فیز ہےجس نے ایک نئی صف بندی کو جنم دیا ہے ـ
معروف بلوچ ادیب تاج بلوچ نے اپنے ایک بلوچی مضمون میں شکوہ کیا کہ ؛ “ہم” کی تعداد گھٹتی جارہی ہے جبکہ “وہ” کی تعدادبڑھتی جارہی ہے ـ ان کے مطابق ہمیں “ہم” کی تعداد بڑھانی چاہیے ؛ ـ یورپ اور خلیج میں جلاوطن بلوچ ادبا کے خیالات عموماًمعروضی حقائق سے تہی ہوتے ہیں ـ وہ سرمایہ دارانہ سماج کے “انسانی حقوق” کے مشاہدے میں کھو کر نوآبادیاتی زندگی کو بھیسرمایہ دارانہ شعور کی عینک سے دیکھتے ہیں ـ وہ سرمایہ دارانہ نیولبرل سماج کی بھول بھلیوں میں بھٹک کر یہ بھول جاتے ہیں کہغلامی کی زندگی گزارنے والے عوام کا جوابی تشدد ہر آن نئی صف بندیوں کو جنم دیتا ہے ـ مختلف النوع مفادات کے حامل طبقات وگروہوں میں اکھاڑ پچھاڑ معمول بن جاتا ہے ـ یہ انتشاری نظم و ضبط جیسی چیز ہوتی ہے ـ سرمایہ دارانہ انسانی حقوق سے لطفاندوز ہونے والے افراد کو ہر انسانی حق سے محروم افراد کا تشدد سرمایہ دارانہ “مہذب انسانی اقدار” کے دائرے سے باہر نظر آنےلگتا ہے ـ وہ خود کو بتدریج “ہم” سے خارج محسوس کرنے لگتے ہیں ـ یہ افراد کبھی تشدد کی بجائے “تعلیم” حاصل کرنے کا مشورہدیتے ہیں (امریکہ میں مقیم بلوچ صحافی ملک سراج اکبر) ، کبھی عالمی برادری کا ڈر دکھاتے ہیں (کینیڈا میں جلاوطن بلوچ سیاسیکارکن لطیف بلوچ) ـ بقول پاؤلوفریرے “یہ غیر شعوری طور پر غلط شعور کو درست مان کر اسے کلی طور پر اپنا چکے ہیں تانکہ اپناشمار مہذب انسانوں میں کرسکیں” ـ
بلوچ تشدد کا خاتمہ پنجابی نوآبادیاتی نظام کے مکمل خاتمے سے مشروط ہے ـ بلوچ کا ظاہری تشدد کسی بھی صورت نوآبادیاتینظام کے نفسیاتی، معاشی، سماجی اور فوجی تشدد کے برابر نہیں ہوسکتا ـ
عوام کی طرف سے بلوچ فدائین کی شہادت کو گلیمرائز کرنا اور انہیں ہیرو قرار دینا کسی بھی صورت غلط نہیں ہے ـ موت زندگی کاتضاد ہے جو زندگی اپنے ساتھ لے کر آتا ہے سو موت کا دکھ دراصل زندگی کا نوحہ ہے ـ اگر زندگی کو گلیمرائز کیا جاسکتا ہے توموت کو کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ ـ موت کے بغیر زندگی ایک بے معنی شے ہے ـ زندگی اس وقت تک خوبصورت نہیں ہوسکتی جب تک موتاس کے ساتھ وابستہ نہ ہو ـ زندگی کو بچانے کے لئے مرنا ضروری ہے ـ بلوچ فدائین نے زندگی بچانے کے لئے موت کو قبول کیا ـ ان کیموت ہی اجتماعی زندگی کا تحفظ ہے ـ
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں