بلوچی فلم “دودا” | ذوالفقار علی زلفی

830

بلوچی فلمدودا

تحریر: ذوالفقار علی زلفی

دی بلوچستان پوسٹ

اس قوم کو اپنا شمار مہذب اقوام میں نہیں کرنا چاہیے جس کے پاس سینما نہیں ہے ـ بدقسمتی سے بلوچ اس خطے کی واحد بڑی قومہے جو سینما سے محروم ہے ـ ہمیں اپنے سیاسی و قومی شعور پر فخر رہا ہے لیکن سینما کے حوالے سے ہم ہمیشہ سے غیرمہذب رہےہیں اب کچھ افراد نے،  کچھ دیوانوں نے ہمیں مہذب اقوام کی فہرست میں لانے کی کوشش کی ہے امید ہے ہم ان کی اس کوشـش کوکامیاب بنائیں گے ـ۔

بلوچ اساطیر میںدوداایک علامتی شخصیت ہے ـ اس نے اپنی پناہ میں آنے والیسَمّینامی بے آسرا خاتون کی جان، مال اورآبرو کو بچانے کی خاطر اپنی نوجوان زندگی قربان کردی دودا کی موت کے بعد اس کا کمسن بھائیبالاچصبر اور سکون کے ساتھپہلے گوریلا وارفیئر سیکھتا ہے،  اپنے درد کو پالتا ہے اور پھر ایک منظم حکمت عملی کے تحت اپنے سے سو گنا بڑے دشمن کو شکستکی دھول چٹاتا ہے ـ دودا،  سمی اور بالاچ کی اساطیر پر ہمارے ایک عظیم شاعرسید ہاشمیکا یہ شعر بلوچ ثقافت کا ترجمان بنچکا ہے:

دانکہ پہ  سمّیاں پیداک  نہ بیت  دودایے

پہ تئی دودایاں کدی بیر گریں بالاچ نہ بیت

یعنی:  جب تک کسی سمی کے لئے کوئی دودا خود کو قربان نہ کردے تب تک تمہارے دودا کا بدلہ لینے کوئی بالاچ نہیں آئے گا ـ گویاپہلے دودا بننا پڑے گا تب بالاچ بننے کی منزل آئے گی ـ ۔

بلوچی فلمدوداتیسری بلوچ فیچر فلم ہے ـ پہلی فلمھمل ماہ گنجکو آج سے پچاس سال قبل ہمارے عاقبت نا اندیش بزرگوں نےاپنے سستے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر بلوچ سینما کا گلا پیدا ہوتے ہی گھونٹ دیا ہدایت کار و اداکار انور اقبال ہمیں تہذیبآشنا کرانے کے لئے چیختے چلاتے رہے مگر وہ بظاہر ناکام رہے ـ۔

چند سال قبل بحرین نشین بلوچ ہدایت کار و سینما ٹو گرافر جان البلوشی نے فیچر فلمزراببناکر دوسری کوشش کی ـ یہ فلم بلوچعورت نامیفتنےسے پاک ایک خالص مردانہ فلم تھی ـ فلم کاروباری لحاظ سے کامیاب رہی لیکن کوئی بڑا اثر چھوڑنے میں ناکامرہی آدھی بلوچ آبادی کو زبردستی بے دخل کرنے کا یہی انجام ہونا تھا ـ۔

اب کراچی نشین بلوچ ہدایت کار عادل بزنجو نے تیسری لیکن موثر کوششدودابنا کر کی ہے ـ اس فلم کو یہاں تک پہنچانے میںسیاسی و سماجی کارکن حبیب حسن بلوچ اور اردو زبان میں غضب کے اشعار کہنے والے لیاری نشین عمران ثاقب کا بھی اہم کردارہے ۔ـ

دودافلم کا بلوچ اساطیری شخصیت سے براہِ راست تعلق نہیں ہے ـ یہ کراچی کے ایک غریب باکسر کی کہانی ہے جو اپنی محنتاور صلاحیت کے بل پر خود کو منوانے کی جدوجہد کر رہا ہے ـ فلم اس جدوجہد کو بیان کرتی ہے ۔ـ بہادر عادل بزنجو نے عورت مخالفقدامت پسند بلوچوں کو دعوتِ مبارزت دے کر اس فلم میں بلوچ عورت کو زبردست، بھرپور اور باوقار نمائندگی دی ہے ـ بلاشبہ ان کا یہقابلِ تحسین عمل بلوچ سینما کی تاریخ میں بڑے فخر سے بیان کیا جائے گا۔

فلم کی بیشتر شوٹنگ کراچی میں کی گئی ہے جبکہ کچھ حصے بلوچستان میں بھی فلمائے گئے ہیں ـ فلمی ٹیم نے بلوچی سے نابلد فلمبینوں کے لئے اسے اردو میں ڈب بھی کیا ہے اور ساتھ ساتھ انگلش سب ٹائٹلز کا بھی انتظام کیا ہے ـ عادل بزنجو ہمارا قابلِ فخرسرمایہ ہیں ـ امید ہے ان کی یہ فلم خوش گوار ہوا کا جھونکا ثابت ہوگی ۔ـ

فلم 2 ستمبر 2022 کو پاکستان بھر کے سینماؤں میں پیش کی جائے گی ـ بلوچستان سینما سے محروم ہے،  ساری امیدیں سندھ اورپنجاب کے فلم بینوں سے ہی وابستہ ہیں ـ بالخصوص کراچی سے جو اس فلم اور اس کے تخلیق کاروں کی جنم بھومی ہے ـ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں