ایرانی ہدایت کار: بہرام بیضائی ۔ ذوالفقار علی زلفی

305

ایرانی ہدایت کار: بہرام بیضائی

تحریر: ذوالفقار علی زلفی

دی بلوچستان پوسٹ

ایرانی ہدایت کاروں میں بہرام بیضائی غالباً وہ واحد فلمی شخصیت ہیں جنہیں صرف فلم تک محدود نہیں رکھا جاسکتا انہیں جدید ایرانی ادب کا شیکسپیئر بھی کہا جاتا ہے ـ انہوں نے درجنوں ڈرامے لکھ کر انہیں تھیٹر پر پیش کیا ـ وہ شاعری بھی کرتے تھے ـ تہران یونیورسٹی میں پہلے ایرانی ادب پڑھاتے رہے اور بعد میں شعبہِ فلم کے سربراہ بن گئے ـ شاہ ایران کے دور میں وہ ترقی پسند قلمکاروں کی انجمن کا بھی حصہ رہے ـاس دوران انہوں نے درجنوں فکری و نظریاتی مقالے لکھے، جس کی پاداش میں وہ شاہ کے خفیہ ادارے ساواک کے ہاتھوں تشدد کا شکار بھی بنے ـ وہ اپنی تمام فلموں کے اسکرین رائٹر اور ایڈیٹر بھی خود ہیں ۔

بہرام بیضائی 1938 کو تہران کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئےـ ان کے والد، چچا اور دادا بھی فارسی زبان کے شعرا تھے ـ یوں ادب انہیں گھر سے وراثت میں ملا ـ بہرام اپنے ادبی و سماجی مقالوں اور تھیٹروں کے حوالے سے زیادہ جانے جاتے ہیں لیکن چوں کہ ہمارا موضوع فلم ہے سو ہم اسی پر بات کریں گے۔ـ

بہرام بیضائی ساٹھ کی دہائی میں شروع ہونے والی فلمی تحریک کا حصہ تھے ـ ان کا شمار ان ترقی پسند ناقدین میں ہوتا ہے جنہوں نے اس دور کی فلموں کو “فارسی فلم” قرار دے کر ان کی ایرانی شناخت کو مسترد کردیا (تفصیل کے لئے دیکھئے میرا مضمون “ایران: فلم سازی کا ارتقا”)

ہدایت کار داریوش مہرجوئی کی فلم “گاو” (1969) کی ریلیز کے بعد انہوں نے اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لئے تنقید کے ساتھ ساتھ فلم بنانے کا بھی فیصلہ کیاـ انہوں نے اس حوالے سے “رگبار”، “کلاغ” اور “چریکہ تارا” نامی فلمیں بنائیں۔

درج بالا فلموں میں سے “رگبار” اور “کلاغ” میں کیمرہ زاویوں کی زبان میں پیغام پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے ـیہ طریقہ جاپان کے عظیم ہدایت کار اکیرا کوروساوا سے انہوں نے مستعار لیا تھا ـان کی بعد کی فلموں میں بھی اکیرا کا اثر گہرا ہے البتہ بعد میں انہوں نے داریوش مہرجوئی اور اس دور کے دیگر نامور ہدایت کاروں کی مانند اٹلی کی نیورئیلسٹک تحریک اور ہندوستان کے مایہ ناز فن کار ستیہ جیت رے کے اثرات بھی قبول کئے ـ یہ اثرات “چریکہ تارا” میں نظر آتے ہیں ۔ـ

“چریکہ تارا” نسبتاً مشکل فلم ہے ـ یہ ایک “سُر رئیلسٹ” فلم ہونے کی وجہ سے عام فلم بینوں کی توجہ حاصل نہ کرسکی البتہ عالمی سطح پر دانش وروں نے اسے خوب خوب سراہا ـ بہرام کی بدقسمتی ملاحظہ کیجئے جب یہ فلم ریلیز ہوئی تب تک ایران میں اسلامی انقلاب آچکا تھا ـ انقلابی حکومت نے جس پہلی فلم پر پابند عائد کی وہ “چریکہ تارا” تھی ـ حکومت نے موقف اختیار کیا چوں کہ فلم کی فیمیل پروٹاگونسٹ سوسن تسلیمی (اس باصلاحیت خاتون فن کارہ کا تفصیلی ذکر پھر کبھی) نے فلم میں اسلامی حجاب کا خیال نہیں رکھا اس لئے اس فلم کو نمائش کی اجازت نہیں دی جاسکتی ـ

بہرام بیضائی کی فلمیں ایک درجن سے زائد نہیں ہیں لیکن ایرانی سینما پر انہوں نے انمٹ نقوش مرتب کئے ـ داریوش مہرجوئی کے بعد وہ دوسرے ایسے ہدایت کار ہیں جنہوں نے ایرانی سینما پر اس قدر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ـ گوکہ مسعود کیمیائی اور عباس کیارستمی جیسے پُراثر اساتذہ کا کردار بھی اہم ہے لیکن میری نگاہ میں یہ دونوں صاحبان بہرام کے بعد آتے ہیں ـ

انقلاب کے بعد بہرام کی ایک اور فلم “باشو: غریبہ ای کوچک” بھی پابندی کا شکار ہوئی ـ یہ فلم ایران عراق جنگ کے دوران بنائی گئی تھی ـ فلم میں ایک معصوم بچے کی نگاہ سے جنگ کی ہولناکیوں کا مشاہدہ کرکے اس کے منفی اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے ـ جنگ مخالف فلم ہونے کی وجہ سے حکومت نے نمائش کی اجازت دینے سے قطعی انکار کردیا ـ حکومت کے مطابق یہ فلم عوام کو جنگ سے بد دل کرسکتی ہے جو اس موقع پر نامناسب ہے ـ جنگ کے خاتمے کے بعد فلم کو نمائش کی اجازت مل گئی ـ اس فلم کو عالمی سطح پر بہرام بیضائی کی سب سے زیادہ متاثر کن فلم قرار دیا جاتا ہے ـ

اس فلم میں سوسن تسلیمی کی اداکاری کو سب سے زیادہ سراہا گیا ـ سوسن نے بعد میں ایک دلچسپ واقعہ بتایا ـ ان کے مطابق فلم کے ایک سین میں مجھے دوڑنا تھا ـ جب میں دوڑتی تو میری چھاتیاں ہل جاتی تھیں ـ بہرام بار بار سین کٹ کرکے تاکید کرتے چھاتیاں مت ہلاؤ ورنہ یہ سین سینسر ہوجائے گا ـ اب میں پریشان کہ یاالہی دوڑتی ہوئی عورت اپنی چھاتیوں کو کیسے ساکن رکھے؟ ـ پھر میں نے ایک کپڑے کے ذریعے پستانوں کو مضبوطی سے باندھا، تنگ بریزیئر زیب تن کیا اور ڈھیلی ڈھالی قمیض پہن کر اس مشکل ترین سین کو مکمل کیا ـ

ایران کے روشن خیال صدر ؛ سید محمد خاتمی کے دور میں ان کی فلم “سگ کشی” بھی متنازع بنی ـ صدر کی پالیسیوں کے باعث فلم کو نمائش کی اجازت تو مل گئی لیکن اس کے بعد وہ رفتہ رفتہ اپنی بعد کی فلموں کے باعث حکومت کی نگاہ میں ایک خطرناک فلم ساز بن گئے ـ چپقلش بڑھتی گئی اور بالآخر اس حد تک پہنچ گئی کہ ان کا جینا مشکل ہوگیا ـ وہ پہلے یورپ پھر وہاں سے امریکہ چلے گئے ـ امریکہ کی “اسٹینفورڈ یونیورسٹی” نے انہیں ایران شناسی کا پروفیسر مقرر کردیا ـ ایرانی فلم سازوں بالخصوص ان کے شاگردوں نے انہیں دوبارہ واپس لانے کی متعدد کوششیں کیں، حکومت بھی ان کی واپسی پر رضامند ہوگئی لیکن انہوں نے دوبارہ ایران جانے سے انکار کردیا ـ

امریکہ میں بھی انہوں نے سماجی و ادبی موضوعات پر کتابیں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ـ ان کی کتابیں ایران میں بھی شائع ہوتی رہیں ـ ان کی صرف ایک کتاب “ماہی” جو دراصل فلم اسکرپٹ ہے ایران میں ممنوع ہے ـ بہرام کے متعلق محسن مخملباف کا جملہ نقل کروں گا :

“سینما دکھانے والے کو ختم کیا جاسکتا ہے مگر جو سینما اس نے تخلیق کیا ہے وہ ہمیشہ زندہ رہے گا”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں