ایاز امیر پر حملہ؛ معلوم یا نامعلوم ؟
تحریر: رضوان عبدالرحمٰن عبداللہ
دی بلوچستان پوسٹ
تحریک انصاف کی رجیم چینج کانفرنس میں ایاز امیر صاحب کا ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں پر تنقید کرنا اور پھر تنقید کے چند گھنٹوں کے بعد ہی ان کے اوپر ہونےوالے حملہ اور اس حملے کو نامعلوم افراد کی کارستانی قرار دینا ۔۔۔ فسانہ سو فیصد درست ہے ، جو چند ایک غلطیاں ہیں انہیں اہل علم اور لسانی ماہرین بکثرت استعمال ہونے والے دو شبدوں” نامعلوم” اور” معلوم “کو ہم مغی قرار دے کر دور کر سکتے ہیں ۔
خیرملک کو اس حالت تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے ، اس کو جانتے بوجھتے ان جان بننے والوں کی آنکھیں اور دماغ کھولنے کے لئے ایاز امیر صاحب کی تقریر یقینا ایک اچھی کاوش تھی ۔ 12 سے 13 منٹ کی ایاز امیر کی اس تقریر کو سیاستدانوں او ر سیاسی جماعتوں کے کرتا دھرتاوں کو بار بار سننا چاہیے اور سبق سیکھنا چاہیے کہ آخر کیوں ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے اپنی ناکامیوں کی کالک سیاستدانوں کے منہ پر تھوپ کر خو د کو نیوٹرل ثابت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
ذاتی طور پر سمجھتا ہوں ایاز امیر صاحب کی تقریر میں کہیں کمی تھی تو صرف اس بات کی کہ جہاں انہوں نے پاکستانی چی گویرا یعنی عمران خان صاحب سے ان کے ایکسٹینشن نامی شوق کی بابت اور اس کے انجام پر روشنی ڈالی ، وہیں لگے ہاتھوں وہ اس تقریب میں موجود کچھ صحافیوں سے ان کی انقلابی کیفیت کی بابت پو چھتے جن میں چند ایک تو خود اعتراف کرتے نظر آرہے ہیں کہ انہوں نے انہی” معلوم “کے ہاکنےپر صحافت کے نام پر ٹی وی اسکرینوں پر فخریہ ” ذلالت” کی ۔ اورمیں یہ بھی سمجھتا ہوں یہ بابت نہ جاننے یا ان انقلابیوں پر تنقید نہ کرنے کی وجہ ہر گز ان کی ” انٹیلیکچوئل ڈس ہانیسٹی“ یا فکری خیانت نہیں ہو سکتی کیونکہ ہم اس چیز کے بھی گواہ ہیں کہ جس طرح ایاز امیر صاحب ا س تقریب میں عمران خان صاحب کو ان کے سامنے ان کی غلطیاں گنواتے نظر آئے ہیں ، اسی طرح ماضی میں بطور مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی کے اپنی پارٹی کی کمزور پالیسوں پر کھل کر بولتے اور اخبارات میں کالم لکھتے رہےتھے۔ یوں پارٹی سربراہ اور اس کے خاندان کی چاپلوسی نہ کر سکنے کی وجہ سے وہ مسلم لیگ ن کے وارے میں نہ آسکے ۔ توانہیں بھلا ان وقتی انقلابی ٹائپ صحافیوں کی اوقات بتانے کا کیا خوف ہوتا ؟
خیر ایاز امیر پر ”معلوم” حملہ آور ں کے خلاف وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اپنی بساط کے مطابق ردعمل دے چکے ہیں ، یعنی انہوں نے نوٹس لے لیا ۔امید ہے کہ آئی ایس آئی کو سویلین افسران کی جانچ کا اختیار دینے والے عظیم باپ اور اس کے بیٹے کا اس بے وقتی نوٹس لینے کے بعد حال اس قدر بے حال نہیں ہوا ہو گا کہ وہ درپردہ ” معلوم” سے معافی تلافی کرتے پھر رہے ہوں ۔
ماضی میں جب ابصار عالم اور اسد طور پر معلوم حملہ آورں کا حملہ ہوا تو اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کی قیادت جن میں مولانا فضل الرحمان، شہبازشریف ، مریم نواز ، بلاول بھٹو ، محمود خان اچکزئی، مولانا عبدالغفور حیدری وغیر ہ تھے اظہار یکجتی کے لئے ان صحافیوں کے گھر پہنچے تھے ۔ اب یہ معجزہ ہی ہوسکتا ہے جو اسی سیاسی قیادت کی طرف ایک دفعہ پھر اسی قسم کی ” میچیورٹی ” کی امید رکھی جائے۔ویسے بھی تنقیدی آوازیں ہمیشہ اپوزیشن کے کانوں میں ہی بھلی لگتی ہیں ۔ اور بھلا ایاز امیر صاحب حالیہ حکومت کے لئے کیسے قابل قبول ہو سکتے ہیں ؟
شاید یہی وجہ ہے اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتیں بھول جاتیں ہیں تنقیدی آوازوں کی حوصلہ افزائی نہ کر کے دراصل وہ اپنے لئے ہی گڑھا کھود رہے ہوتے ہیں ۔ جس کا خمیاز انہیں ہی کسی نہ کسی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے ۔جس کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہےکہ 75 سال کے جمہوری سفر کے بعد بھی ہماری جمہوریت چھٹانک بھر نہیں پنپ سکی ۔ اور ہم مسائل کے “معلوم ” ذمہ داروں کو “نا معلوم “کا نام دے گزارہ چلا نے پر مجبور ہیں ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں