گھر کی پرورش اور تربیت کامیابی کا ضامن
تحریر: ماجدہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انسان کی زندگی میں بہت سارے مسائل درپیش ہوتے ہیں ان میں کچھ ایسے مسائل شامل ہیں، جو ہمیں اپنے گھر سے مل جاتے ہیں، گھر والوں کی بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور باتوں سے انسان میں مایوسی، نا اُمیدی، چڑچڑاپن، غصہ اور دیگر ایسی کیفیت پیدا ہوتے ہیں۔
یہ سب کم علمی اور لاشعوری کی وجہ سے درپیش ہوتے ہیں کیونکہ گھر میں آپ کو بار بار کسی نہ کسی وجہ سے دوسروں کے ساتھ تقابل کرتے کہتے ہیں کہ فلاں بندے/ بندی کو دیکھو کیا کر رہا/ رہی ہے، معاشرے میں انکا کیا مقام ہے، آپ کیوں کمزور ہو، آپ میں یہ طاقت نہیں، آج کل ہمارے ان سماجی مسائل اور معاشرے میں لوگوں کی بے جا تنقید سے بیٹے/ بیٹیاں احساس کمتری میں مبتلا ہو کر اندر سے کمزور ہو جاتی ہیں۔
دراصل بے جا اور غیر ضروری تنقید، ڈانٹ ڈپٹ سے انسان کی تخلیقی صلاحتیں ابھرنے کے بجائے مر جاتی ہیں، ان کے مثال کچھ یوں ہیں اگر آپ دو پودوں کو آپس میں اگاؤ انکی برابر پرورش کرو تو دونوں ایک ساتھ ابھرتے ہوئے آپ کو پھل دیتے ہیں، لیکن ان دونوں میں ایک کی کم پرورش کرو تو وہ آہستہ مرجاتی ہے۔ اسطرح تعریف انسان کی صلاحیتوں میں جان ڈالتی ہے، انکی تخلیقی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوتی ہیں اور وہ معاشرے میں ایک کامیاب انسان بن جاتی ہے، بے جا تنقید، ڈانٹ ڈپٹ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں میں ابھار پیدا کرنے کے بجائے ان کو کمزور کرتی ہے۔
جب گھر والے آپ کے ساتھ مثبت طریقے سے پیش آتے ہیں، تمہیں حوصلہ دیتے ہیں، تو آپ کسی ناممکن کام کو بھی ممکن بنا سکتے ہو، اگر آپ کو کہا جائے “You can do it” تو آپ ضروری اس کام میں کامیاب ہو جائیں گے، اسکے برعکس بار بار آپ کو نا امیدی دکھا کر آپکو یہ کہا جائے کہ “You can’t do it” تو وہ کام چاہے ممکن کیوں نہ ہو لیکن آپ خود بخود اس کام میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتے، کیونکہ حوصلہ شکنی سے انسان کے تخلیقی صلاحیتیں مرجاتی ہیں وہ احساس کمتری اور مایوسی میں مبتلا ہوتا ہے۔
جب گھر میں ہمیشہ طعنے دیئے جائیں اور دوسروں کے ساتھ آپ کا مشابہت کریں تو آپ کے اندر کی صلاحتیں ختم ہو جاتیں ہیں، آپ میں یہ ڈر پیدا ہوتی ہیں اگر میں یہ کام نہ کرسکا تو گھر والے کیا کہیں گے، اسطرح زہنی تناؤ بڑھ جاتی ہیں اور انسان وہ کام نہیں کرسکتا جو پہلے کرسکتا تھا۔
جب ہمارے گھر میں ہمیں محبت پیار اور ایک دوسرے کے ساتھ اپنے پریشانی اور مسائل شیئر کرنا سکھائیں اور شئیر کریں، تو ہمیں باہر کسی کی ہمدردی کی ضروت نہیں پڑھتا، جب ہمیں گھر کے اندر ہمیں حوصلے نہیں اور ہمیں گھر سے جب پیار، محبت نہیں ملتا تو ہم باہر جا کر لوگوں کے ساتھ اپنے کمزوری اور مسائل کا اظہار کرتے ہیں تاکہ کچھ نہ کچھ ہمدردی حاصل کرسکیں لیکن یہ انتہائی نقصان دہ چیز ثابت ہوتی ہے کیونکہ ان بے حس معاشرے میں لوگ دوسروں کی کمزوریوں اور غلطیوں کو جاننے کی کوششیں کر رہے ہیں، کوئی کسی سے ہمدردی کا اظہار نہیں کرتا بلکہ وہ ان کمزوریوں کو بنیاد بنا کر پھر آپکو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، آپکو اپنا تعبیدار بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اس معاشرے میں ہمدرد دوست کی شکل میں دشمن پائے جاتے ہیں۔
انسان کی زہنی اور جسمانی پرورش کی ابتدا گھر ہے، اگر گھر میں انسان کو عزت نہیں دی جاتی، ان پر بھرسہ نہیں کیا جاتا، تو باہر کے لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن اگر دیکھا جائے تو انکو مواقع فراہم کرنے والے ہمارے اپنے ہوتے ہیں۔
میں یہ بات وثوق سے کہتی ہوں کہ اگر گھر سے ٹرسٹ اور محبت نہیں ملتی تو ایک ہیرا بھی ایک ناکارہ پتھر بن جاتا ہے، اگر انسان کو انکے گھر والے عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھیں تو وہ معاشرے میں کامیابی کی بلندیوں کو سر کرتا ہے۔ اگر ایک پتھر کو قدر دی جائے تو وہ کوہِ نور بن جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی ایسی پرورش اور تربیت ہونی چاہئے، اور گھر میں بھروسے کا ماحول پیدا کرکے انکو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھی جائے تو باہر انہیں کسی کی ہمدردی یا سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی، گھر میں انکی ایسی تربیت اور پرورش ہو کہ وہ ایک مضبوط انسان بن جائے، وہ دوسروں سے سہارے اور ہمدردی حاصل کرنے کی تلاش میں نہ رہے، تب جا کر وہ ایک کامیاب انسان بن جاتی ہے، ان میں امید کی کرن پیدا ہوجاتی ہے۔
اگر گھر میں ایک لڑکی پر بھروسہ نہیں کیا گیا، انکی باتوں کی نہیں سنا، تو وہ مایوسی میں مبتلا ہو جاتی ہیں، وہ خود کو کمزور سمجھتی ہیں، باہر کے لوگوں سے اپنے دکھ ودرد کا اظہار کرکے ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو ان کو ایسے لوگ بھی ملتے ہیں کہ وہ ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر انکی تزلیل کرتے ہیں۔
معاشرے میں گھر والوں کو چاہئے کہ وہ اپنے بیٹیوں کی باتیں سنیں، ان سے ہمدردی کا اظہار کریں، انکا سہارا بنیں تاکہ وہ ہمدردی کا سہارا ڈھونڈنے کیلئے کسی درندے کی درندگی کی بھینٹ چڑ ھ جانے سے بچ سکیں اور انکی عزت و آبرو محفوظ رہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں