گوریلا جنگ اور سن ذو
تحریر: افروز رند
دی بلوچستان پوسٹ
گوریلا جنگ میں انقلابی فوجیوں کا ایک چھوٹا سا دستہ استعماری فوج کی بھاری نفری پر شب خون مارتا ہے۔ گوریلا فوجیوں کا مقصد جنگ جیتنا نہیں ہوتا بلکہ استعماری فوج اور حکومت کو حیراں اور پریشاں کر کے ہراساں کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ تھک ہار کر خود ہی واپس چلے جائیں۔
گوریلا فوجی چاہتے ہیں کہ دشمن کا اس قدر جانی اور مالی ، سیاسی اور فوجی نقصان ہو کہ وہ خود ہی جنگ سے دست بردار ہو جائے اور وہ آزادی حاصل کر لیں۔
گوریلا کا اصطلاح انگریزی زبان میں 1809 میں متعارف ہوئی تھی، یہ لفظ اصلاً ہسپانوی لفظ Guerra سے نکلا ہے جس کا مطلب چھوٹی جنگ ہے۔
یہ لفظ اس وقت عام ہوئی جب جنرل نپولین نے ہسپانیہ پر حملہ کیا ہسپانیوں نے گوریلا جنگ کے زریعے نپولین کو ناکوں چنے چبواکر شکست دی۔
اس کے بعد گوریلا نے دنیا میں دھوم مچادی ‘ لاچار ‘ اور دبے ہوئے قوموں نے اسے اپنانا شروع کیا اور بہت سے کامیاب بھی ہوئے۔ اسپین سے پہلے 18 ویں صدی میں امریکہ میں برطانیہ کے خلاف جو جنگ لڑی گئی وہ بھی گوریلا جنگ تھی۔
گوریلا سرمچاروں کو شیر کی طرح بہادر اور لومڑی سے زیادہ چالباز ہونی چاہیے تاکہ انہیں ہر کام کا اونچ نیچ معلوم ہو۔ گوریلا جنگ کا تصور سب سے پہلے چینی دانشور سن زو نے 500 قبل مسیح میں اپنی کتاب THE ART OF WAR میں پیش کیا تھا اور پہلی گوریلا جنگ 217 قبل مسیح میں روم کے QUINTAS FABIUS نے جرنیل HANNIBAL BARCA کی فوج کے خلاف لڑی تھی۔ اسی لیے انہیں FATHER OF GUERRILLA WARFARE کا خطاب دیا جاتا ہے۔
جنگ کو سیاسی اساس مارکس اور لینن کے نظریات نے فراہم کی اور ان نظریاتی بنیادوں پر بیسویں صدی میں بہت سے کامیابیاں حاصل کیں۔
لینن نے 1906 میں گوریلا جنگ کے بارے میں ایک تفصیلی مقالہ لکھا اور گوریلا جنگ کی اہمیت ، افادیت اور نفسیات پر روشنی ڈالی۔
مجھے اس وقت دلی خوشی ہوئی، جب مجھے ایک قریبی ذرائع نے بتایا کہ بلوچ لیبریشن آرمی نے اپنے سرمچاروں کو جنگئ حکمت عملی سکھانے کیلئے کچھ اہم کتابیں مختص کی ہیں اور سن زو کی کتاب بھی ان میں شامل ہے۔
بجا طور پر 25 سو سال سے زائد ہو چلے ہیں کہ جنرل سن زو کا کتاب اتنا ہی کارآمد ہے جتنا 2500 سال قبل تھا اسلئے میں نے اس کتاب کو سمرائز کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ ایک ایسی لیجنڈری کتاب ہے جسے دنیا کے ہر کامیاب شخص خاص کر لیڈر پڑھتے ہیں دنیا کے تمام بڑے ملٹری اداروں میں اس کتاب کو پڑھایا جاتاہے ‘ جو کوئی بھی ایک کامیاب لیڈر یا کمانڈر بننا چاھتاہے اسے یہ کتاب ہر قیمت پر پڑھنی چاہیے۔
جب میں نے یہ کتاب پڑھی تو مجھے لگا کہ ساری دنیا کی فہم و فراست اسی کتاب میں سموئی گئی ہے۔ وہ کہتاہے کہ جنگ میں کامیاب ہونے کیلئے اور فتح کیلئے اپنے پہچان اور دشمن سے واقفیت بہت ضروری ہے’ اپنے دشمن کو دھوکے میں رکھنے میں ہی آپ کی کامیابی ہے’ آپ کی کسی بھی جال کا دشمن کو پتہ نہیں ہونی چاہیے۔ ایسا چال چلو کہ لڑائی کے بغیر دشمن کو شکست دو’ جب کمانڈر با اختیار نہ ہو تو جنگ نہیں جیت سکتا’ اور ہمیشہ گومکو کی صورتحال کا شکار ہوگا۔
اپنے سولجرز کو اپنے بچوں کی طرح رکھیں اور اپنی اور ان کی لائف اسٹائل ایک جیسے رکھیں تو وہ آپ کیلئے جان بھی دینگے ۔
جس جنگ کو لڑنے جا رہے ہو اس کی قیمت آپ کو معلوم ہونی چاہیے’ یاد رکھو جلد بازی ایک احمقانہ فعل ہے’ جسے جنگ کی برائیوں کا علم نہ ہو وہ اس کے فائدے بھی نہیں سمجھ سکتا’ انعامات بہت ضروری ہیں۔ پکڑے جانے والوں کے ساتھ بہترین سلوک کرو تاکہ تمہاری مثال دی جاسکے، جنگ کا مطلب کامیابی ہونی چاہیے نہ کہ طویل مہم’ سپہ سالار کی اعلیٰ ترین شکل یہ ہے کہ دشمن کے منصوبوں کو ملیامیٹ کردی جائے۔ اگر گوریلا فوج میں دراڈ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سپہ سالار سپاہیوں سے فاصلہ رکھتاہے اور اس میں کمزوری ہے جس کی وجہ سے سپاہی بدل رہے ہیں۔ اگر سپہ سالار اس صورتحال میں قائم رہتاہے تو فوج محکم اور مضبوط نہیں ہوسکتی۔
جیتے گا وہ جسے پتہ ہو کہ کب لڑنا ہے اور کب نہیں’ فوج میں جوش و جذبے کی کمی کا دارومدار سپہ سالار پر ہے’ وہی سپہ سالار جیتے گا جو جنگ کی حرب و فنون سے واقف ہو۔ اگر آپ اپنے دشمن کو نہیں جانتے تو جیت کا سوچیں بھی مت، خفیہ سازش بہت کریں اور اپنے اصل باتوں کو خفیہ رکھیں، دشمن کی تعداد تقسیم ہو تو کوئی بھی بڑی فوج کو آسانی کے ساتھ ہرایا جاسکتاہے’ حملہ کرتے وقت دشمن کو بھاگنے کا راستہ دیں کیونکہ بہت سے لوگ زنجیروں کے قید کے بجائے موت ترجیح دیتے ہیں، راستہ نہ ہو تو وہ جان توڈ کر لڑینگے، فوج میں سپہ سالار سے لیکر سپاہی تک ہمیشہ کچھ مدت کے بعد تبدیلی کی جائے۔ سپہ سالار کی لاپرواہی اور نا اہلی ہلاکت اور نا اہلیت کی طرف لے جاتی ہے۔
جنگ کوئی گیھوں کا کاروبار نہیں، جسے دور بیٹھ کر چلایا جائے سپہ سالار جب سپاہیوں کے درمیان موجود نہ ہو تو اس سے سپہ سالاری کا حق چھین لی جائے۔ کامیابی کیلئے صرف بہادری و جرئت نہیں بلکہ دشمن کی فوج سے بہتر ساز و سامان کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ یہ سیدھا موت کو گلے لگانے کا مترادف ہے۔ جس کا کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ امید ہے کہ آپ اس کتاب کو پڑھ کر اس سے رہنمائی حاصل کرینگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں