بلوچستان کے ضلع آواران اور کراچی سے پاکستانی فورسز نے چار افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بناکر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
لاپتہ کئے گئے افراد کو فورسز نے ضلع آواران کے علاقے مشکے اور کراچی کے علاقے رئیس گوٹھ سے حراست میں لیا ہے، جنکی شناخت نور بخش ولد حبیب، غوث محمد ولد گل شیر، ولی ولد الم جان اور کمیسہ ولد صوالی کے ناموں سے ہوئی ہیں، ان میں سے نوربخش کو گذشتہ شب رات گئے دو بجے کراچی کے علاقے رئیس گوٹھ میں گھر پر چھاپہ مارکر حراست میں لیا گیا جبکہ دیگر کو نو جون کو مشکے کے علاقے سنینڑی سے حراست میں لیا گیا ہے جن کے حوالے سے تاحال کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
ذرائع کے مطابق نور بخش کا تعلق ضلع کیچ کے علاقے بل نگور سے ہے اور وہ متحدہ عرب امارات میں مزدوری کے پیشے سے وابستہ ہیں جو دو سال بعد چھٹیاں گزارنے کی غرض سے آیا ہوا تھا جنہیں فورسز نے حراست میں لیا، جبکہ مشکے میں حراست بعد لاپتہ ہونے والوں کی بارے میں بتایا جارہا ہے انہیں فورسز کے ساتھ سرکاری حمایت گروہ یعنی ڈیتھ اسکواڈ نے حراست میں لیا ہے۔
خیال رہے کہ رواں ہفتے ایک بار پھر بلوچستان و کراچی سے متعدد افراد کو فورسز نے حراست میں لیا ہے۔اس سے قبل کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی کے دو طالب علم دودا بلوچ ولد الہی بخش اور گمشاد بلوچ ولد غنی بلوچ جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں-
کراچی یونیورسٹی سے لاپتہ ہونے والے دو طالب علموں کی جبری گمشدگی کے خلاف جمعہ کے روز کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ کا انعقادکیا گیا۔ یہ کیمپ کراچی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کی جانب سے لگایا گیا ہے۔ جس میں بڑی تعداد میں طالبات اور طلبہ نے شرکت کی۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ 7 جون 2022 کو کراچی کے علاقے مسکن چورنگی میں واقعہ گھر پر چھاپہ مارکر دودا بلوچ ولد الہی بخش اور اس کے ڈیپارٹمنٹ فیلو غمشاد بلوچ ولد غنی بلوچ کو خفیہ اداروں اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے جبری طور لاپتہ کردیا ہے۔ دودا بلوچ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی میں تیسرے سیمسٹر غمشاد بلوچ پانچواں سیمسٹر کے طالب علم ہیں۔ان کی جبری گمشدگی کے وقت سے لیکر اب تک خاندان کو پتہ نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ انہیں سیکورٹی ایجنسیوں نے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔