ڈاکٹر دین جان اور تحریکوں میں ڈاکٹروں کا کردار
تحریر: کمبر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ڈاکٹر جو زمین کے پسماندہ اور جبر کے شکار لوگوں کے معالج ہیں اور اُن پر ہوئے جبر کو بڑے قریب سے مشاہدہ کرتے ہیں، یہی اُن کی فکری ارتقاء اور قومی جدوجہد سے جڑنے کا آغاز ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی تحریکوں میں ڈاکٹروں نے رہنمایانہ کردار ادا کیے ہیں اور بلوچستان میں ڈاکٹر سیاسی محاذ سے لے کر مسلح جدوجہد میں ہراول دستے کا کردار ادا کررہے ہیں۔
فیدل کاسترو کی قیادت میں جب کیوبا کے انقلاب کا آغاز ہوا ارجنٹینا کے ڈاکٹر چے گویرا نے فیدل کی آواز پر لبیک کہا اور کیوبن انقلاب میں شامل ہوکر بیناالاقوامیت کا پرچم بلند کیا۔ ڈاکٹر چے نے گوریلا جدوجہد کے ذریعے انقلاب لانے میں اتنی جانفشانی اور خلوص سے ساتھ دیا کہ دنیا میں کاسترو کے بجائے چی گویرا کیوبن انقلاب کے پہچان بن گئے۔
دو ہزار انیس کی سال سوڈان میں عوامی انقلاب کا سورج طلوع ہوا اور عمر بشیر کی پینتیس سالہ آمریت کا خاتمہ کرکے عوامی حکومت کی بُنیاد رکھی گئی۔ انقلاب کی قیادت کرنے والے سوڈان کے ڈاکٹر اور اساتذہ تھے۔
انیس سو نوے کی دہائی میں خیربخش مری کی قیادت میں بلوچ قومی تحریک کے موجودہ مرحلہ کا آغاز ہوا تو بلوچ ڈاکٹروں نے آزادی کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا، شہید چیئرمین حمید شاہین اور ڈاکٹر اللہ نظر نے بلوچ طلباء کو پارلیمانی سیاست کے دلدل سے نکال کر آزادی کی راہ پر گامزن کیا اور چیئرمین غلام محمد کی رہنمائی میں ڈاکٹر دین جان اور ساتھیوں نے سیاسی مزاحمت کا پرچم بلند کیا۔
یہی سبب ہیکہ قابض ریاست کا جبر ہر اُس ڈاکٹر پر جاری رہتا ہے جو ایک ترقی پسند فکر سے وابستہ ہوکر قابض ؤ جابر کے خلاف تحریک کا ہراول دستہ ہو۔ وہ ڈاکٹر سوڈان کے الہ نگداللہ ہوں ، کیوبا کے ڈاکٹر چے گویرا ہوں یا پھر بلوچستان کے ڈاکٹر دین جان۔
بلوچستان میں سیاسی مزاحمت سے وابستہ کئی ڈاکٹر ریاست کے اذیت خانوں میں بند ہیں، ڈاکٹر کمبر مبارک، ڈاکٹر منان جان اور ڈاکٹر خالد آزادی کی راہ میں شہید ہوچکے ہیں اور اُن کے فکری ساتھی راجی آجوئی جُنز کے تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انہی ڈاکٹروں میں سے ایک ڈاکٹر دین جان ہیں جنہیں 28 جون 2009 کی رات اورناچ خضدار میں اُنکے ہسپتال سے جبری گمشدہ کردیا گیا۔ اُن کے جبری گمشدگی کے بعد اُن کے فکری دوستوں اور سیاسی جہدکاروں کے جبری گمشدگی کا ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو آج بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
ڈاکٹر دین جان بلوچ تحریک آزادی کی سرکردہ پارٹی بلوچ نیشنل مومنٹ کی بنیاد رکھنے والوں میں شُمار ہوتے ہیں۔ جب چیئرمین غلام محمد بلوچ، رحیم ایڈوکیٹ اور لالا منیر اپنے ساتھیوں کے ساتھ بلوچ راجی جُنز کے سیاسی محاذ کی بُنیاد رکھتے ہیں تو ڈاکٹر دین جان اس کاروں میں چیئرمین غلام محمد بلوچ کے شانہ بشانہ شریک رہے ۔ چیئرمین غلام محمد بلوچ کی قیادت میں خضدار، کیچ، نوشکی اور کوہلو میں آزادی کا نعرہ بلند ہوا اور آج بھی واجہ چیئرمین اور ڈاکٹر دین جان کے کاروانِ آزادی کا سفر جاری ہے۔
ڈاکٹر چے گویرا کہتے ہیں کہ کیوبن انقلاب کے دوران ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جہاں میرے سامنے دو راستے تھے کہ میں بہ حیثیت ڈاکٹر اس جنگ کا حصہ رہوں یا بطور سپاہی ؟ گولہ باری کے دُوران میں نے بطور سپاہی انقلاب میں شریک ہونے کا انتخاب کیا۔
شاید ڈاکٹر دین جان اور اُن کے ساتھی ڈاکٹروں کے لئے بھی ایسا مرحلہ آیا ہوگا جہاں اچھی نوکری ، بیوی بچے اور خوشحال زندگی یا قومی آزادی کی تحریک میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا اور ڈاکٹر دین جان اور اُن کے فکری ساتھیوں نے سرزمین کے لیے جدوجُہد کے راستے کا انتخاب کرلیا۔
اورناچ سے ڈاکٹر دین جان ہوں یا مشکے سے ڈاکٹر منان یاکہ بلوچ قومی تحریک کے فکری مرکز کاہان سے اکبر مری اِنہوں نے ہمیشہ اپنے پیشے میں پسماندہ بلوچ عوام کی خدمت کی اور بلوچ قومی غلامی جیسے ناسور کو ختم کرنے کی زمہ داری بھی اپنے کندھوں پہ لے لیا، اسی لیے بلوچ ڈاکٹر قابض ریاست کے جبر کا شکار ہوئے اور یہ جبر اب بھی شدت کے ساتھ جاری ہے ۔
دو ہزار آٹھ کو سری لنکا نے جافنا میں جنگ مسلط کردی۔ ہزاروں تامل جبری گمشدگی کے شکار ہوئے اور زندگی سے بھرپور انسانوں کی جگہ کہانیوں نے لے لی۔ جافنا کے تاملوں کی اَن کہی داستان ہوں یا ارجنٹینا کے ماؤں کا درد قابض ؤ جابر کے خلاف جہدوجہد کرنے والے قوموں کا درد مشترک ہوتا ہے۔ بلوچستان میں بھی ہزاروں سیاسی کارکن جبری گمشدہ کر دئے گئے ہیں۔ علی اضغر بنگلزئی کی جبری گمشدگی کو بیس سال مکمل ہوچکے ہیں، سمیع کے والد نے گیارہ سال اُس کا انتظار کیا اور اس دُنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔ ڈاکٹر اکبر مری کا بیٹا بلوچستان یونیورسٹی کے فائن آرٹس دیپارٹمنٹ میں کینوس پر رنگ بکھیرتا ہے لیکن تیرہ سال سے اُس کے زندگی کا کینوس رنگوں سے خالی ہے ۔ علی حیدر نے اپنے بچپن کے تیرہ سال پریس کلب کے سامنے احتجاج میں گزار دیے لیکن والد کے لئے اُن کا انتظار ختم نہ ہوسکا ۔ سمی اور مِہلب تیرہ سال سے ڈاکٹر دین جان کی ایک مُسکراہٹ کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔
جبری گمشدہ افراد کے خاندان کے لئے اُن کا عزیز ، کسی بیٹی کا والد، کسی بہن کا بھائی تو کسی کے بیٹے کی گمشدگی کا درد ہے لیکن پارٹی کے پختہ سیاسی کیڈر اور رہنما کا جبری گمشدہ ہونا قومی تحریک کے لیے بڑا نقصادہ ہے کیونکہ اِسی کیڈر نے قوم کی رہنماہی کرنی اور منزل کی حصول تک جہدوجہد کو جاری رکھنا ہے ۔
جب تک بلوچ سرزمین پر غلامی کی سیاہ رات باقی ہے ڈاکٹر اکبر مری اور دین جان جیسے بہترین اذہان اسی طرح جبری گمشدگی کے شکار ہوتے رہیں گے، تحریک کے تسلسل کو روکنے کے لیے جبری گمشدگیوں کی فہرست میں نئے ناموں کا اضافہ ہوتا رہے گا لیکن بلوچ کا فکری کاروں رواں دواں ہوگا ۔ آزادی کا بیرک بلند کرنے والے ساتھی اور ہونگے، نام اور کردار بدلتے رہیں گے لیکن بلوچ قومی آزادی کا کارواں جاری رہے گا ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں