چین پاکستان کے ستر سالہ تعلقات اور مجید بریگیڈ کے حملے ۔ باہڑ بلوچ

1159

چین پاکستان کے ستر سالہ تعلقات اور مجید بریگیڈ کے حملے

تحریر: باہڑ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

چین پاکستان دوستی کی ابتداء 1949 میں ایک تجارتی عمل سے شروع ہوا ۔ ساؤتھ ایشیا میں اُن کا مشترکہ دشمن انڈیا ہے کیونکہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد کشمیر پر انڈیا اور پاکستان کے تعلقات شروع دن سے انتہائی خراب ہیں اور اب تک تین جنگیں لڑ چکے ہیں ۔ 1949 میں چین کے دو حصوں میں بٹنے کے ساتھ ہی ماوزے تنگ کی قیادت میں ایک سوشلسٹ ریاست پیپلز ریپبلک آف چین قائم کی گئی تو پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پیپلز ریپبلک آف چین کو قبول کر کے اسے پہچان دی ۔

چین اور پاکستان کی یہی خواہش رہی ہے کہ خطے میں انڈیا سر نہ اٹھا پائے کیونکہ چین کی بھی انڈیا کے ساتھ سرحدی مسلئے موجود ہیں اور انہی مسئلوں کے بنیاد پر 1965 میں اُن کی جنگ ہوچکی ہے۔

1951 میں چین اور پاکستان اپنی دوستی کو مضبوط کرنے کیلئے ایک تجارتی معاہدے پہ دستخط کرتے ہیں اور اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے 1955 کو ایشیاء اور افریقہ کے ملکوں کے درمیان ایک کانفریس Bandung Conference کے نام سے منعقد کی جاتی ہے جن کے مقاصد درج ذیل ہیں۔

ایک دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنا
علاقائی سلامتی کا احترام کرنا
ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کرنا
ایک دوسرے کی بقاء کی خاطر پرامن رہنا وغیرہ وغیرہ

پاکستان اور چین تجارتی اور سیاسی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے 1963 میں کچھ اور معاہدوں پہ دسخط کرتے ہیں ان میں تجارتی معاہدے ، ائیر ٹرانسپورٹ اور کچھ اور تجارتی اقرار نامے شامل ہوتے ہیں۔

انیس سو اکہتر میں پاکستان میں خانہ جنگی شروع ہوتی ہے تو بنگالی اپنے قومی حقوق اور شناخت کیلئے آزادی کی جدوجہد کرتے ہیں اور بنگلادیش کی جیوگرافی اس طرح ہوتی ہے کہ انڈیا جیسی ملک آسانی سے ان کی مدد کر سکتا ہے۔ چین انڈیا کی دشمنی میں پاکستان کو سپورٹ کرتا ہے تو اس مسئلے کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہیکہ پاکستان اور چین ایک دوسرے کی مدد کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ انہی سالوں میں پاکستان، چین اور امریکہ کی خفیہ ملاقاتیں کروا کر اُن کے تعلقات بحال کرواتے ہیں ۔

یہ وہ وقت ہے جب امریکہ نے جنوبی ایشیاء کی ملکوں پر اسلحہ کی پابندی لگائی ہے اور ان حالات میں پاکستان اُس وقت ایک بڑے بحران کا شکار ہوتاہے جب ایک طرف بنگال کی جنگ اور دوسری جانب امریکہ کی طرف سے اسلحہ کی پابندی کا سامنا ہوتا ہے۔

1972 میں بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد چین پاکستان کی مدد کرنے کے لئے آگے آتا ہے اور اس طرح چین اور پاکستان کی دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جاتی ہے۔

بین الاقوامی سیاست کی روش وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے چونکہ بین الاقوامی سیاست میں ممالک وقت کے ساتھ اپنے مفاد کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعلق جوڑتے ہیں۔ دنیا میں ممالک تعلقات سیاسی اور معاشی مفادات کے بنیاد پر استوار کرتے ہیں ، عالمی سیاست میں احساسات اور دوستیوں کے بنیاد پر پالیسیاں نہیں بنتے بلکہ قومی مفادات کو دیکھ کر فیصلہ ہوتے ہیں۔

پاکستان 1970 کی دہائی میں ایٹمی طاقت بننے کی دوڑ شروع کر دیتا ہے لیکن امریکہ ناراض ہوکر پاکستان پر ایٹمی اسلحہ کی دوڑ میں شامل نہ ہونے پر زور دیتا ہے ۔ پاکستان ، انڈیا کی دشمنی میں امریکی ناراضگی مول لینے پر تیار ہوجاتا ہے اور ایٹمی پلانٹ لگانے کیلئے فرانس کے ساتھ معاہدے پہ دستخط کرتا ہے لیکن فرانس امریکی دباؤ میں پیھچے ہٹ جاتا ہے۔ جس کے بعد چین پاکستان کی مدد کرنے کے لئے آگے آتا ہے اور پاکستان چین کی مدد سے 1990 میں ایٹمی پلانٹ قائم کرتا ہے جو اس کے لئے ایٹمی طاقت بننے میں مدد گار ہوتا ہے ۔

پاکستان، وجود میں آنے کے کچھ مہینے بعد برطانیہ کی مدد سے بلوچستان پر قبضہ کر لیتا ہے۔ پاکستان چین سے تعلق قائم کرتا ہے اور امریکہ کو فوجی اڈہ فراہم کرتاہے ۔ اس دورانیہ میں بلوچ قوم کی جدوجہد ِآزادی وقتاً فوقتاً جاری رہتی ہے، 1948 سے شروع ہونے والی جدوجہد 1958، 1962،اور 1970 تک کسی نہ کسی طرح جاری رہتی ہے اس دوران پاکستان دنیا کی دوسری ملکوں کے ساتھ ساتھ چین اور امریکہ کی مدد سے بلوچ کی جنگ کو روکنے میں کامیاب ہوتاہے۔

بلوچوں نے پاکستان کی قبضہ گیریت کے خلاف بہت سی جنگیں لڑی ہیں لیکن ان جنگوں میں کمزوریاں کی وجہ سے وقت کے ساتھ ان میں شدت اور کمی ہوتی رہی۔ بلوچ جہدوجہد نے پاکستان کو سیاسی اور معاشی حوالے سے نقصان پہنچایا ہے لیکن چین جیسی ملک کو کبھی بھی نقص دینے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی ان کی کسی پراجیکٹ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ بلوچ جدوجہد کا محور صرف پاکستان رہا ہے۔

موجودہ بلوچ شورش کی ابتداء 1990 کی آخر ی دور میں ہوا جو پہلے کی نسبت زیادہ مضبوط اور ادارتی شکل میں جاری ہے۔

ماضی کی غلطیوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر ایک منظم طریقے سے جاری و ساری ہے جو آج چین جیسی طاقتور ملک کو لاچار کر چکا ہے اور یہ منوانے میں کسی حد کامیاب ہوا ہے کہ بلوچ کی اجازت کے بغیر اس کی سرزمین میں کوئی پروجیکٹ کامیاب نہیں ہوسکتا اور نہ کسی طاقت کو بلوچ قوم اجازت دے گی کہ وہ آکر ان پراجیکٹوں کو آگے بڑھائے جو بلوچ کی شناخت کیلئے خطرہ ہوں ۔ آج بلوچ جہدوجہد کی کامیابی ہیکہ کوئی ملک بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار نہیں ۔

چین کی مفادات بلوچستان سے وابستہ ہیں اور چین یہ کبھی نہیں چاہتا کہ وہ بلوچ سرزمین سے دستبردار ہو، بین الاقوامی طاقتوں کی ہمیشہ یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مقبوضہ ملکوں کا استحصال کر کے اپنے معاشی مفادات کو پورا کرسکیں اور چین بین الاقوامی سطح پر ایک معاشی طاقت کی حیثیت سے پہچاناجاتا ہے اور اپنے معاشی طاقت کو برقرار رکھنے لئے بلوچستان پر قبضے کو دوام دینے کے لئے پاکستان کی مدد کررہا ہے ۔

2013 میں چائنہ ایک معاشی حکمت عملی کی بنیاد رکھتا ہے، “ون بلٹ ون روڑ ” کی نام سے یہ پروجیکٹ دنیا میں “ٹریڈنگ روٹ” کی حیثیت رکھتا ہے ، جو دنیا کے 71 ممالک کو زمینی اور سمندری راستوں سے جوڑتا ہے اور تین براعظموں کو ایک دوسرے سے ملاتا ہے۔ بی آر آئی دنیا کے مختلف خطوں کو جوڑتا ہے اور اس معاشی حکمت عملی کا ایک بڑا سا حصہ چین پاکستان اکنامک کوریڈار( CPEC) ہے جو اس پروجیکٹ کا ایک اہم روٹ ہے ۔ 2013 میں اسلام آباد اور بیجنگ اس پروجیکٹ پر دستخط کرتے ہیں، اس پروجیکٹ کا تخمینہ شروع میں 43 بلین ڈالر لگایا جاتا ہے جو بڑھ کر اب 65 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈار کا اہم ترین حصہ بلوچستان سے گزرتا ہے جو چین کو بحر بلوچ کے ذریعے باقی ممالک سے ملاتا ہے، جس سے چین کو دنیا کی دوسری طاقتوں پر معاشی اور عسکری سبقت حاصل ہوگی ۔ انیسویں صدی میں برطانیہ نے ہندوستان کو سونے کی چڑیا قرار دیا تھا لیکن جب یہی برطانیہ ہندوستان سے نکالا گیا تو سونے کی چڑیا کنگال ہوچکا تھا۔ اسی طرح آج بلوچ زمین اور سمندر چین اور پاکستان کیلئے ایک سونے کی چڑیا کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

چین اور پاکستان کے مفادات بلوچستان پر قبضے کو برقرار رکھنے میں ہیں اور چین اپنے مفادات حاصل کرنے لئے پاکستان کی مدد کر رہا ہے ، پاکستان چین تعلقات کی بنیاد اُن کے مفادات ہیں اور انہی مفادات کو حاصل کرنے کے لئے وہ ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری دوستی کا پرچار کرتے ہیں ، پاکستان کو خراب معاشی حالات کے وجہ سے چینی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور چین کو اپنی معاشی طاقت کو برقرار رکھنے کے لئے بحر بلوچ کی ضرورت ہے جس نے پاکستان اور چین کو یکجاہ کیا ہوا ہے ۔

بلوچستان کی آزادی کے لئے ہونے والی یہ پانچویں انسر جنسی ہے ۔آج بلوچ انسر جنسی مضبوطی کے ساتھ جاری ہے اور وقت و حالات کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی کی بدلتی پالیسیاں بلوچ جدوجہد کو کامیابی کی طرف گامزن کر چکے ہیں ۔

بلوچ لبریشن آرمی مجید بریگیڈ کامیاب حملوں کے ذریعے پاکستان اور چین کی ہمالیہ سے بلند دوستی میں دراڑیں پیدا کرچکا ہے ۔ اُن کامیاب حملوں کی وجہ چین پاکستان پر بلوچ تنظیموں سے بات کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے ۔

بی ایل اے مجید بریگیڈ اب تک پاکستان اور چین پر دس حملے کر چکا ہے ۔ پانچ حملے چینی انجینیئرز ، چینی کونسلیٹ اور چین کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کی استادوں پر کئے گئے ہیں ۔ مجید بریگیڈ نے پہلا حملہ چینی انجینیئرز پر 11اگست 2017 کو دالبندن کے مقام پر کیا تھا اور دوسرا حملہ 2018 کو کراچی میں چینی کونسلیٹ پر کیا اور اُس کے ایک سال بعد تیسرا حملہ گوادر میں پی سی ہوٹل پر کیا جہاں پر چینی سرمایہ کار رہائش پزیر تھے ۔ چوتھا حملہ بھی گوادر میں چینی انجینیئرز پر کیا گیا۔ مجید بریگیڈ کا اہم ترین اور پانچواں حملہ جو بلوچ قومی تحریک کے لئے گیم چینجر حکمت عملی کے بنیاد پر سب سے زیادہ پُراثر تھا وہ 26 اپریل کو کراچی یونیورسٹی میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے چینی اساتذہ پر کیاگیا۔ یہ حملہ مجید بریگیڈ اور قومی تحریک کے تاریخ میں پہلا فدائی حملہ تھا جو بلوچ خاتون شاری بلوچ نے کیا ہے ۔ یہ مجید بریگیڈ کی کامیاب ترین حملوں میں سے ایک ہے جس نے دنیا پر واضح کیا کہ بلوچ قوم اپنے سرزمین کی دفاع میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔

کنفیوشس انسٹیٹوشنز پورے دنیا میں چینی زبان اور ثقافت کی ترقی و ترویج دینے کا ادارہ ہے ، کنفیوشس انسٹیٹیوٹ دنیا کے مختلف یونیورسٹیوں ، کالجوں اور کلچرل سنٹروں سے جڑا ہے، جس کا اصل مقصد اُن ممالک میں چین کے حوالے سے نرم گوشہ پیدا کرنا ہے ، کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کا دارومدار چلانے والے چین کمیونسٹ پارٹی کے عہدیدار ہیں۔ چین کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے مختلف پروجیکٹوں پر سالانہ 10 بلین ڈالرز خرچ کررہا ہے ۔

پاکستان میں 2013 سے کراچی یونیورسٹی، این ای ڈی یونیورسٹی، لمز یونیورسٹی اور دوسری اداروں میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ قائم کر کے وہاں پر چینی زبان، تاریخ اور کلچر پڑھائی جاتی ہے لیکن بی ایل اے مجید بریگیڈ کے حملوں سے مجبور ہو کر کراچی یونیورسٹی اور این ای ڈی یونیورسٹی میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے کلاسز بند کر کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے استاد واپس چین جاچکے ہیں ۔پاکستان اور چین کی ستر سالا دوستی اِن حملوں کے بعد کمزور دیکھائی دے رہا ہے۔

چین نے 2016 میں اپنے لوگوں کی تحفظ کے لئے سخت سیکیورٹی کا مانگ کیا جس کے بعد پاکستان نے آرمی کے تین اسپیشل ڈیویژن بنائے جو صرف چینی مفادات کا تحفظ کریں گے مگر بلوچ تنظیموں کی تسلسل سے چینی مفادات پر حملوں نے چین کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ پاکستان ( خاص کر مقبوضہ بلوچستان ) میں اُس کے مفادات اور لوگ محفوظ نہیں ہیں ۔

چین نے پاکستان کی بے بسی کو دیکھ کر پھر سے سیکیورٹی مسائل پر بات چیت شروع کی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اگر آنے والے وقت میں پاکستان کا یہی کردار رہا تو گمان یہی ہے کہ چین اور پاکستان کی تعلقات اور زیادہ کمزور ہوں گے ۔

اِن حملوں کے بعد چین سمیت دوسرے ممالک بھی بلوچستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اپنے پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوں گے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں