چشمِ نم سُلگی،بجھی،اور پھر میں سوگئی
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
ا ن تمام ماؤں کا غم اذیت ناک ہے جن کی دوحسرتیں بس اب حسرتیں ہی رہ گئی ہیں
ایک یہ کہ وہ اپنے چاند سے بیٹے کو دلہابنائیں اور ان کی چاند نی میں نہائی دلہن کو گھر لے آئیں
اور دوسری یہ کہ جب مائیں مرجائیں تو پہلا اور آخری کاندھا اس بیٹے کا ہو اور وہ بیٹا اپنے بھیگے نینوں سے اپنی کل کائینات کو زمیں میں دفن کر دے،اس کچی قبر پر بیٹھے،روئے اور اپنے ہاتھوں سے قبر کے سرہانے گلاب اور نیم کا پودا لگائے اور وہ پودا آنسوؤں کے پانی سے بڑھتا رہے
پر اب ایسا نہیں۔۔۔۔۔۔
اور ان ماؤں کی باقی تمام تر حسرتوں کے ساتھ ساتھ یہ دو حسرتیں بھی پتھریلی زمیں میں دفن ہو چکی ہیں
یہ مائیں یہ تو چاہتی ہی نہیں کہ ان کے بیٹے بہت سے پیسے کمائیں،ان ماؤں کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن ہوں،جسم پہ نفیس کپڑے ہوں،پیروں میں امپورٹڈ جوتے ہیں،عالی شان گھر ہو،عمدہ کار ہو!
کچھ بھی نہیں
ہاں کچھ بھی نہیں
بہت سا ماتم
اور ماتم کے بعد مرجانا
اور پھر کاندھوں پر اُٹھایا جانا
اور پھر دفن ہوجانا۔۔۔
ان ماؤں کی قسمت میں یہ بھی نہیں رہا،جیسے یہ تلاشِ یار میں اپنے پہاڑوں کے دامنوں میں موجود گھروں سے چلی ہیں تو گھروں کو ہی نہیں لوٹیں،بلبل کی کو کو اور بارشوں نے ان ماؤں کو بہت بُلایا ہے اور درد نے ان ماؤں کو رُلایا ہے پھر بھی یہ گھروں کو نہیں لوٹیں!
گھروں کے آنگنوں میں لگے نیم کے درختوں اور آکاش پر رُلتے چاند نے ان ماؤں کو بہت بُلایا ہے اور درد کی یاد نے ان ماؤں کو بہت رُلایا ہے پر یہ مائیں نہیں لوٹیں۔
اداس آنگنوں اور خالی گھروں نے ان ماؤں کو بہت بُلایا ہے پر یاد محبوب نے ان ماؤں کو بہت رُلایا ہے پر یہ مائیں نہیں لوٹیں
یہ شکست پرچموں جیسے دوپٹوں اور باقی گھروں میں رہ جانی والی کچھ تصویروں کے ساتھ ایسے گھروں سے نکل پڑیں جیسے لطیف کے جوگی لامکاں کے سفر پر نکلتے ہیں
پر ان ماؤں کا سفر کہاں ہے؟
کیا لامکاں سے بھی آگے؟
یہ مائیں لطیف کی آخری جوگی ہیں
یہ مائیں روگی ہیں
یہ مائیں قلندر جیسی ہیں
یہ مائیں لال لال لہو ہیں
یہ مائیں آپ ہی منصور
آپ ہی انا الحق ہیں
یہ مائیں آپ ہی سفر
آپ ہی درد
آپ ہی تکلیف ہیں
پر یہ مائیں منزل نہیں
ان ماؤں کی منزل کہاں ہے؟
پہلے تو سندھی میں یہ مقالہ سنتے تھے کہ
”اساں جی منزل ایان بہ اگتے!“
”ہماری منزل اور بھی آگے!“
پر سوال یہ ہے ان ماؤں کی منزل کہاں ہے؟
پہاڑوں کے دامنوں میں کچے صحنوں والے گھر
یا شال سے لیکر کراچی اور پھر اسلام آباد کی تنگ و تاریک گلیاں؟
ان ماؤں کی منزل کہاں ہے؟
یہ مائیں جو کچھ ہوش میں اردو بولتی ہیں
اور پھر درد میں لوٹ آتی ہیں اس زباں میں جس زباں کو لطیف نے درد بیاں کرنے کی زباں کہا ہے
یہ مائیں جو بہت بے قرار ہیں
یہ مائیں جو عدم کے سفر کے آس پاس ہیں
یہ مائیں جو درد کا پتا پوچھتی ہیں
یہ مائیں جو رو رو کر اندھی ہو چکی ہیں
یہ مائیں جو اب نینوں سے نہیں رو تیں
دل سے نہیں رو تیں
روح سے روتی ہیں
یہ مائیں
نہیں معلوم زندہ بھی ہیں کہ نہیں
یہ مائیں جو سسئی کے درد سے بھی آگے کا درد رکھتی ہیں
یہ مائیں جو سسئی کے درد کو مات دے گئی ہیں
یہ مائیں اگر ان کے درد کو فرید کی زباں میں سمیٹیں تو شاید یہ لکھنا پڑے
“کملی کر کے چھڈ گئے او
پئی کھک گلیاں تاں رولاں“
اور پھر باقی الفاظ کے زیاں سے رہ جائیں
یہ مائیں جن کے دامن تار تار ہیں
یہ مائیں جن کے دل اداس ہیں
یہ مائیں جو کچھ بھی نہیں جانتی
پھر بھی دردوں سے اُلجھ بیٹھی ہیں
یہ مائیں جن کو درد!دامن گیر ہوا ہے
یہ مائیں جو ماتم یار کرتی ہیں
اور خدا کو تلاش کرتی ہیں
نہ خدا ہے اور نہ یار
بس درد ہے اور درد ہے!
وہ مائیں جو دئیوں کی طرح جلتی ہیں،بھجھتی ہیں،سُلگتی ہیں اور پھر بُجھ جا تی ہیں
بلوچستان!بلوچ دھرتی بلوچ ماؤں کے دردوں اور آنسوؤں کا قبرستان ہے
اور ہر روز کوئی نہ کوئی بلوچ ماں اس بلوچ دھرتی میں اپنا دکھ،اپنے آنسو اور درد دفن کر رہی ہے
پر وہ لوٹ کر نہیں آتے جو ان ماؤں کو کملی کر کے چھڈ گئے ہیں
وہ لوٹ کر نہیں آتے جنہوں نے ان ماؤں کو سسئی سے بھی زیا دہ سفر کرایا ہے
وہ لوٹ کر نہیں آتے جن کی تصویریں بھی ہاتھوں میں مٹ رہی ہیں
وہ لوٹ کر نہیں آ رہے جن کی شبہ ان ماؤں سے بھولے جا رہی ہے جن ماؤں کی نیندیں ماری گئیں ہیں
وہ تو نہیں لوٹتے اور یہ مائیں سونے کے قریب تر ہیں
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے
پھر وہ لوٹ بھی آئیں تو کیا
اور نہ لوٹیں بھی تو کیا
اس لیے انہیں جلد لوٹنا چاہیے جو دلہا نہیں بن سکے
وہ جلد لوٹ آئیں
نہیں تو سورج ڈوب رہا ہے
ٹرین کی آخری سیٹی بج چکی ہے
اور مائیں
جانے کو ہیں
ابھی دئیا جل رہا ہے
ابھی لوُ باقی ہے
ابھی درد باقی ہے
ایسا نہ ہو دئیا بُجھ جائے
لوُ ٹھہر جائے
اور مائیں ہمیں جا تے جاتے یہ پیغام دے جائیں
”چشمِ نم سُلگی،بھجھی،اور پھر میں سو گئی“‘
پھر قبروں میں سوتی ماؤں کو کون جگائے گا؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں