بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں جمعہ کے روز پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ کے موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر سراپا احتجاج تھے جن میں خواتین کی بڑی تعداد شامل تھی۔
شہباز شریف کے دورہ کے موقع پر شہر میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے ۔
اس موقع پر چیف سیکریٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی ، آئی جی پولیس، چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی نصیر خان کاشانی، ڈائریکٹر جنرل ادارہ ترقیات گوادر مجیب الرحمٰن قمبرانی، کمشنر مکران ڈویژن شبیر احمد مینگل، ڈپٹی کمشنر گوادر کپٹن ریٹائرڈ جمیل احمد اور وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدس بزنجو نے ایئر پورٹ پر انکا استقبال کیا۔
شہباز شریف کے دورہ گوادر کے موقع پر جی ڈی اے ہسپتال کو انڈس ہسپتال کراچی کو دینے کے مفاہمتی یادداشت اور ایران سے ضلع گوادر کو سو میگاواٹ اضافی بجلی کی فراہمی کے مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط کئے گئے ۔
شہباز شریف کے گوادر دورہ کے خلاف حق دو تحریک کی اپیل پر مقامی ماہیگروں سمیت لوگوں کی بڑی تعداد نے پورٹ کے احاطے میں شامیانہ لگا کر سڑک بند کردی۔
اس موقع ہدایت الرحمان بلوچ نے کہا کہ آج ہمارے احتجاج کا مقصد شہباز شریف کو یہ پیغام دینا ہے کہ یہاں کے لوگ اسلام آباد سے ناراض ہیں،ہمیں چند سولر نہیں اپنے لاپتہ لوگ چاہیں۔
انہوں نے کہا کہ گوادر میں لوگوں کے مسائل چوں کے توں ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد پر صوبائی حکومت بے بس ہے وفاق اس مسائل پر سنجیدگی دکھائے لوگوں کی گمشدگی پر لانگ مارچ ہوگا ۔
دوسری جانب گوادر سے تین جولائی 2015 کو پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے عظیم دوست محمد کے لواحقین کی اپیل پر ایک احتجاج کیا گیا جس میں گوادر سے تعلق رکھنے والے دیگر لاپتہ افراد کی لواحقین اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے مقامی رہنماؤں کے علاوہ خواتین ،بچوں کی بڑی تعداد شریک تھی ۔
اس موقع لاپتہ عظیم دوست کی بہن نے کہا کہ میرے بھائی کو بازیاب کیا جائے ہم بار بار یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر وہ مجرم ہیں تو عدالتوں میں پیش کیا جائے ۔
اس موقع پر دیگر مقررین نے بھی بلوچستان میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ارباب اختیار جتنے جبری گمشدگیوں کو طول دینگے یہ انہی کے لئے مسائل ہونگے ۔
انکا کہنا تھا کہ گوادر میں ترقی کا راز آج افشاں ہوا چند لوگ سخت سیکورٹی میں بند کمروں میں گوادر کے مستقبل کا فیصلہ کررہے تھے اسی وقت شہر میں ہزاروں خواتین ،بچے اور ماہیگر سراپا احتجاج تھے۔