وطن کی پری
تحریر: آئی کے بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
” کبھی اپنے ڈر کے اندر اتنے اندھے نا ہونا کہ اپنوں کی قربانی نظر نہ آئے” میں اکثر زندگی کو سمجھنے کیلئے شطرنج کا سہارا لیتا ہوں کیونکہ میرا ماننا ہے زندگی میں ہر لمحے کا ، اور شطرنج میں ہر مہرے کا اپنا اک الگ کردار ہوتا ہے، جو کبھی منزل تک ساتھ چلتے ہیں تو کبھی بیچ راستے میں ساتھ چھوڑتے ہوئے کچھ سیکھاتے ہیں۔ جس نے زندگی کے لمحوں کو ڈر،خوف،مایوسی اور احساس کمتری میں گزارا اسکو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، جس نے شطرنج کے مہروں کو جلدبازی میں چلایا اس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
درحقیقت زندگی میں کچھ لمحے اور شطرنج میں کچھ مہرے عام سے ہوتے ہیں لیکن اک ایسا وقت آتا ہے جب یہی عام، خاص بن جاتے ہیں.
کچھ یوں ہی حسبِ معمول شطرنج کھلینے لگا تو دوران کھیل دُشمن نےجلد بازی میں میرے اک چھوٹے پیادے(مہرے) کو چھوٹا اور عام سمجھ کر میرے قلعے کے اندر آنے اور بادشاہ کو یرغمال بنانے کی کوشش کی تو میرے چھوٹے اور عام پیادے نے اس کے بادشاہ کو مات دے دی.
اس وقت میں چیخ اٹھا، اس لیے نہیں کہ میں جیت گیا؛اس لیے کے اس چھوٹے سے پیادے میں مجھے وطن کی پری نظر آنے لگی کہ کس طرح اک عام سی عورت نے خود کو دھرتی ماں پہ (جو خود دو بچوں کی ماں تھی)قربان کرتے ہوئے پیچھے بیٹھے نام نہاد وطن کے خاص پاسبان، وطن کے خاص مہربان گھوڑے، وزیر کو حیران و پریشانی سے دوچار کرتے ہوئے وطن کے سارے مہروں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی.
وہ دن میں کبھی بھول ہی نہیں سکتا،جب لوگ اپنے اور اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے سوچ وچار کرتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کر رہے تھے تو وہاں ان سب لوگوں میں اک شخص( جو اک ڈاکٹر کی بیوی، دو بچوں کی ماں، اور ہزاروں بچوں کی استانی تھی) اپنے اور اپنے دو بچوں کیلئے نہیں بلکہ دشمن کو شکست دینے اور وطن کے رخشندہ مستقبل کیلے خود کو قربان کرتے ہوئے اس جہاں سے وادی انقلاب میں ہجرت کر گئی۔ وہ ہجرت کرنے والی کوئی اور نہیں بلکہ وطن کی پری شاری بلوچ تھی۔
شاری کے جانے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ سورج کے ڈھلنے سے شام نہیں ہوتی بلکہ صبح کی روشنی میں کوئی اپنا ڈھل جائے تو شام ہوتی ہے۔
پری کے جانے کے بعد عجیب و غریب باتیں میری سماعت تک پہنچتی تھیں۔ کچھ اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے شاری کو دہشتگر کا نام دے رہے تھے تو کچھ اپنی سیاسی دکان چمکانے کیلیے شاری کو اچھے لفظوں میں یاد کر رہے تھے۔ ایسی باتوں کو سننے کے بعد مجھے حضرت مولانا رومی کی وہ کہانی یاد آئی۔
” اک دفعہ ، ایک طوطا، اک طوطی، شاخ پر بیٹھے تھے تو انکو دور سے ایک آدمی آتا دکھائی دیا، طوطی، نے طوطے سے کہا کہ چلو اُڑ جاتے ہیں یہ ہمیں مار دے گا۔طوطا کہنے لگا کہ نہیں.. نہیں! دیکھو ذرا اُسکی دستار سے شرافت ٹپک رہی ھے یہ ہمیں کیوں مارے گا جب وہ آدمی قریب پہنچا تو تیر کمان نکالا اور طوطے کو مار دیا۔طوطی انصاف مانگنے بادشاہ کے دربار میں حاضر ہو گیا۔ شکاری کو طلب کیا گیا۔ شکاری نے اپنا جرم قبول کر لیا۔ بادشاہ نے طوطی کو سزا کا اختیار دیا کہ آپ کا جو دل چاہے _جیسا چاہے سزا دیں۔ طوطی نے کہا ، بادشاہ گستاخی معاف بس اسکو بول دیا جاۓ، اگر یہ شکاری ھے تو لباس شکاریوں والا پہنے ؛ شرافت کا لبادہ اتار دے۔
جس وطن کیلئے شاری نے قربانی دی وہاں ایسے بہت سارے دستار پہنے ہوئے شرافت کے لبادہ میں شکاری موجود ہیں۔جو چند پیسوں کے لالچ میں اپنی ماؤں،بہنوں اور اپنے نوجوانوں کا شکار کرتے ہیں ایسے شکاریوں نے کبھی اپنے وطن کے حقیقی پاسبانوں کو سینے سے لگا کر وطن کے اوپر ہونے والے ظلم و زیادتی کو محسُوس ہی نہیں کیا تو پِھر انہیں کہا معلوم کہ ظلم و زیادتی کے سائے تلے خواب دیکھنا اور قربانی دینا کیا ھوتی ھے۔
ماہر نفسیات اور ڈاکٹر سمجھتے ہیں کہ انسانی زندگی میں موجود ہر بیماری کا شفا ہمارے پاس ہے۔ ملا، پنڈت، پادری سمجھتے ہیں انسانی زندگی میں موجود ہر مسلئے، ہر پریشان کا سکون ہمارے ” جنتر منتر آچُھو’ میں ہیں۔ لیکن وطن کے پری “شاری” نے خود کو وطن پہ قربان کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ جو شفا وطن کی مٹی میں ہیں جو سکون وطن کے سنگیت(گانا) پہ رقص کرنے میں ہے وہ شفا ،وہ سکون دنیا جہاں کی کسی بھی ڈاکٹر ماہر نفسیات، ملا ، پنڈت اور پادری کے پاس نہیں۔
“منی ڑیھہِ پری، ڑیھہِ گلاب، گوادر ء بگر داں ڈی جی خان ءَ ما تلوسئَ پتئ وشبوئَ”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں