نام نہاد اسلامی ریاست ۔ ایشرک بلوچ

642

نام نہاد اسلامی ریاست

ایشرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

روزانہ کے بنیادوں پر ہمیں سننے کو ملتا ہے کہ بلوچ شدت پسند، بلوچ عسکریت پسند، بلوچ انتہا پسند، بلوچ دہشتگرد تنظیمیں۔ کبھی کہتے ہیں انہیں ہندوستان کے خفیہ ایجنسی را کمک کرتا ہے، تو کبھی الزام اسرائیل پر لگاتے ہیں کہ موساد کہ اسپانسرڈ ہیں۔ یہاں تک کہ انہیں اسلام اور پاکستان مخالف قوتوں کی ہمدردی حاصل ہے۔
اس حقیقت سے تو دنیا اچھی طرح واقف ہے کہ یہ کون ہے، انکے کیا مقاصد ہیں۔ دنیا کے سامنے ہمیشہ سے واضح رہا ہے کہ بلوچستان کی آزادی کیلئے سرگرم تنظیمیں جینیواہ کنوینشن، ریڈکراس اور عالمی جنگی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی قومی جنگ لڑرہے ہیں۔ غیر فطری قابض ریاست کے یہ الزامات صرف ایک مخصوص مسلح ونگ پر نہیں بلکہ یہ ایک مقدس قوم کی تاریخ اور وجود کی توہین ہیں۔ کیونکہ بلوچ قوم انہیں سرمچار کہتا ہے۔ انہیں اپنے قومی بقا کے پاسبان، قوم کے محافظ، وطن کے سچے عاشق اور عظیم فرزند، اپنے مستقبل کے چراغ، آنے والی نسل کے راہشون و رہبر سمجھتا، مانتا اور قرار دیتا ہے۔

جہاں تک بیرونی کمک کی بات ہے تو کیا پاکستان یہ 74 سال اپنی مدد آپ بسر کرررہا ہے۔ کیا پاکستان کو بیرونی مدد حاصل نہیں۔ کیا چین اور امریکہ دین اسلام کے محافظ ہیں، جو ہتھیار پاکستان بلوچ تحریک کے خلاف استعمال کررہا ہے کیا وہ بیرونی قوتوں کی کمک نہیں ہے۔

اس سے قبل بلوچ قومی تحریک کے راہنما بارہا صاف الفاظ میں تصدیق کر چکے ہیں کہ تاحال ہمیں کوئی کمک حاصل نہیں۔ بلوچ تحریک آزادی کی طاقت و کمک بلوچ قوم ہے۔ بلوچ قوم اپنی مدد آپ یہ جنگ لڑرہا ہے۔ بقول شہید جنرل اسلم“ آج ہمیں بیرونی مدد حاصل ہوتی تو ہماری جنگ بھی عراق و شام کی شکل اختیار کر چکا ہوتا، شاید آج یہ صورتحال نہیں ہوتا“۔ یہ بات عیاں ہے کہ بلوچ راہنماٶں نے دنیا سے اپیل کی ہے کہ ہمیں کمک کریں ہماری اخلاقی و مالی مدد کریں، تاکہ ہم اس غیر فطری قابض ریاست سے چھٹکارہ حاصل کریں، ہم اپنی قومی بقا اور آزاد مستقبل کی جنگ لڑرہے ہیں اور دنیا کے مہذب ممالک بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا میں دہشتگردی پھیلانے کا اولین عنصر پاکستان ہے۔

قابض ریاست اپنے وجود کو بچانے کیلئے ہمیشہ سے مذہب کا سہارہ لیتا آرہا ہے۔ کبھی غزوہ ہند، کبھی پاکستان کے وجود کو نبی پاک کریمﷺ کا خواب بتا کر، کبھی بیت المقدس کے پاسبان تو کبھی اسلام کے محافظ۔ مذہبی آڈ میں بلوچوں پر اپنے مظالم کو بھی چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ “جی اسلام دشمن عناصر پاکستان کی ترقی کو برداشت نہیں کرتے”۔

تاریخ گواہ ہے کہ قرآن کے نام پر بلوچوں کو کیسے دھوکہ دیا گیا۔ بابو نوروز خان کو بلوچ فرزندوں کیساتھ قرآن پر قسم اٹھاتے ہوہے پہاڑوں سے اتارا گیا اور پھر انکے ساتھ جوکچھ کیا گیا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

بات رہی مذہب کی، تو ہم بلوچ ایک مہذب اور سیکولر قوم ہیں۔ ہم میں مختلف مذاہب پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ مگر ہماری شاخت بلوچ ہے۔ مذہب ہمارے اور خدا کے درمیان تعلقات کا زریعہ ہے۔ بلوچیت ہی ہمارا آئین ہے جو کہ کسی بھی رنگ، نسل، مذہب و فرقے سے اختلافات نہیں رکھتا بلکہ صاف و شفاف انسانیت کے بنیاد پر مبنی ہے ہیں۔ بلوچوں کے اس جنگ میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں اور نہ ہی مذہب کی خاطر لڑی جانے والی جنگ ہے۔ یہ بلوچ قوم کی آزادی، ہزاروں سال کی تاریخ رکھنے والی بلوچ ریاست کی بحالی، آنے والے نسلوں کی خوشحال مستقبل اور ایک پر امن نظام کیلئے لڑی جانے والی جنگ ہے۔

فرض کریں ایک پل کیلئے ہم یہ مان لیں کہ قابض پاکستان کا وجود اسلام ہے۔ پاکستان کلمہ اول لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے بنیاد پر بنا ہے۔ تو کیا یہاں ہمیں اسلامی قوانین نظر آتے ہیں؟ کیا یہاں شریعت کی پاسداری کی جاتی ہے؟ کیا یہاں حقیقی اسلام وجود رکھتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان خود اسلام کے نام پر ایک دھوکہ ہے۔ یہاں دھوکہ دہی کیلئے قرآن اور ظلم کے لیے اسلام کا سہارہ لیا جاتا ہے۔ جہاں مذہب کے نام پر انسانیت کا قتل ہو، زندہ انسانوں کو بیچ چوراہے پر جلایا جائے، جہاں بھائی کے ہاتھوں سگی بہن کا ریپ ممکن ہو، جہاں قبروں سے لاشوں کو نکال کر زیادتی کا نشانہ بنایا جائے، جہاں پندرہ سال کے معصوم بچیوں کا چالیس سال کے مرد کے ہاتھوں ریپ ہو اور اسے اسلامی ملک کا اسلامی عدالت ایک چھوٹی سی جرم قرار دے کر رہا کردے، جہاں معصوم بچیوں کے سامنے والدہ کو گاڈی سے اتار کر جنسی زیادتی کا شکار بنایا جائے، جہاں مذہب کے نام پر لوٹ پر ہو، جہاں کا نام نہاد شریعت ظالم کو ظلم اور مظلوم کو سہنا سکھائے، امیر کو امارت اور غریب کو غربت کا درس دے، جہاں نام نہاد مولوی طاقتور کیلیے عیاش پرستی کو حلال اور کمزور کے لیے سکون کی زندگی کو حرام قرار دے، جہاں مذہب کے نام پر سودے بازی ہو۔

بحیثیت ایک بلوچ فرزند میرا واضح موقف یہی ہے کہ ہمارا ایسے اسلام، اسلامی ریاست و شریعت سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں پھر یہی دہرانا چاہتا ہوں کہ ہم میں مختلف مذاہب پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں، مگر ہم سب کا اجتماعی شناخت بلوچ ہے۔ جسے کوئی نہیں مٹا سکتا، نہ ہی ہمیں مذہب و فرقے کے نام پر تقسیم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اب ہمیں مذہب کے نام پر جہدِ آزادی سے روکا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی بلوچ دین اسلام کا پیروکار ہے، تو وہ اس اسلام کی پاسداری کرتا ہے جو قرآن پاک میں ہے، اُن قوانین کی پاسداری کرتا ہے جنکا درس نبی پاک کریم ﷺ نے دیا تھا۔ وہ ایک خدا، آخری نبی پاکﷺ اور قرآن پاک پر ایمان لاتا ہے۔ باقی انکے مذہبی اختلافات، فرقہ و فقہ، سنی و شیعہ سے کوئی واسطہ نہیں۔ وہ ایک بلوچ ہے، بلوچ ہی اسکا شناخت ہے اور بلوچیت ہی انکا آئین۔ وہ دوسرے مذاہب کے پیروکار و ممالک اور اقوام کے ساتھ اپنے تعلقات کو مذہبی بنیادوں پر نہیں بلکہ صرف اور صرف قومی مفاد کے بنا پر دیکھتا ہے۔

قابض ریاست کا دوسرا اور سب سے بڑا پروپیگنڈا، جسکا وہ پچھلے کئی سالوں سے رَٹ لگا رہا ہے کہ یہ چند مٹھی بھر دہشگرد ہیں انہیں ہم جلد کچل دیں گے۔ یہ بلوچستان میں امن نہیں چاہتے۔ بلوچستان کے عوام ہمارے ساتھ ہیں اور باقی کچھ بلوچ ہم سے ناراض ہیں، انہیں ہم انکے حقوق فراہم کرکے منا لیں گے۔ اور یہ ناراضگی بھی بلوچ سرداروں کی وجہ سے ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ بلوچ عوام نے ہمیشہ سے ناپاک ریاست سے نفرت کیا انہیں اپنے سرزمین پر نہ کبھی برداشت کیا ہے اور نہ کبھی کریگا اور اس نفرت کے ٹھوس وجوہات ہیں۔ بلوچ نہ پاکستان سے ناراض ہیں اور نہ ہی حقوق چاہتے ہیں۔ 28 مارچ 1948 سے لے کر آج تک بلوچوں نے جو مزاحمت کی ہے، قربانیاں دی ہیں، ظلم و بربریت سہے ہیں، وہ حقوق کےلیئے نہیں، صرف اور صرف آزاد بلوچستان کیلئے۔ بلوچ قوم حقوق نہیں آزادی چاہتا ہے۔ بلوچ قوم اپنا سردار، نواب لیڈر راہنما راہشون شہید بالاچ مری کو مانتا ہے۔ جنہوں نے بلوچ قومی آزادی کی خاطر خون کا نزرانہ پیش کیا۔ اور جس سردار و نواب نے پاکستانی سیاست میں حصہ لیا ہے اور لے رہے وہ بلوچ قوم کے ہمدرد نہیں وہ قابض کے شریک دار ہیں۔ انکا کردار پاکستانی قبضہ گیریت کو استحکام بخشنے کے مترادف ہے۔ ہرگز یہ بلوچ قوم کے حقیقی نمائندے نہیں ہیں۔ نہ ہی انہیں عوامی اعتماد حاصل ہے۔ یہ خودساختہ سیاسی مشینری کے پاکستانی اسپانسرڈ سردار ہیں۔ بلوچ قومی مفادات سے انکا کوئی تعلق نہیں۔ بلوچ قوم کے رہبر وہی ہیں جو آج بالاچ کے مشن کو آگے لےجارہے، جو خود پہاڑوں میں بیٹھ کر جہدِ آزادی کے تحریک کو کمان کررہے ہیں۔ انہیں پورا عوامی اعتماد حاصل ہے، بلوچ عوام انکے ساتھ ہے۔

پچھلے بیس سالوں سے ہر حکومت کی طرف سے یہی بیانہ سامنے آتا ہے کہ پچھلے حکومتوں نے بلوچستان کے ساتھ نا انصافی کی ہے۔ بلوچستان کو حقوق نہیں ملے ہیں۔ اب ہم بلوچستان کی مدد کریں گے۔ ہم بلوچستان کو ترقی دیں گے۔ ہم انہیں صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کون ہوتے ہیں دینے والے۔۔۔۔

سیندک، ریکوڈک، گوادر سوئی، سونے چاندی، کوئلہ، کرومائیٹ تیل و گیس کے ذخائر پچھلے سات دہائیوں سے بلوچ وسائل کی لوٹ مار کررہے ہیں۔ حقیقتاً اگر آج پاکستان زندہ ہے تو بلوچستان کی وجہ سے، سوئی سیندک و گوادر کی وجہ سے۔ ہمارے وسائل لوٹ کر ہمیں ہی کہا جائے کہ ہم آپکو حقوق دیں گے، یہ بلوچوں کیلئے ہرگز قابل قبول نہیں۔ حقوق نہیں ہم اپنے ساحل وسائل کی حاکمیت اور آزاد ریاست چاہتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں