میں نے کوئٹہ لٹریری فیسٹیول میں کیا دیکھا
تحریر: نازش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ دنوں کوئٹہ لٹریری فیسٹیول جانے کا اتفاق ہوا جہاں بلوچستان سمیت دیگر ملکی بڑی شخصیات نے شرکت کی، اچھی اچھی باتیں ہوئیں، علم، ادب، تہذیب و تمدن کی پرچار دن بھر چلتا رہی، کہیں لوگ مستفید ہوئے ہونگے، لوگوں نے کم قیمت پر کتابیں بھی خریدی ہوگی، سب کچھ اچھا تھا، ایسی رونقیں ہونا بھی چاہیے جس سے نسل نو کو اپنی تاریخ، ادب تہذیب و تمدن کے ساتھ دیگر شعوری مواد سننے اور حاصل کرنے کا موقع ملے۔
کوئٹہ لٹریری فیسٹیول میں تمام تر معاملات حسب معمول ٹھیک ہی تھے بس چند چیزیں جو کہ قابل غور ہے شاید ان چیزوں پر بات کرنے سے مزید بہتر کیا جاسکتا ہے۔ کوئٹہ لٹریری فیسٹیول چونکہ بیٹمز میں ہونے کی وجہ سے خاصی بے تہذیبی کا شکار ہے۔ جہاں ادبی ذوق اور شغل مستی میں فرق کیے بغیر نوجوان دن بھر شوشا میں مصروف عمل رہے ان فضول حرکات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کے نوجوان ادب سے کتنا لگاو رکھتے ہیں۔
27 جون شام کے وقت احمد ابن سکینہ اور ادیل افضل کا کھتک ڈانس ایکسپو سنٹر میں منعقد ہونا تھا، کافی رش لگا ہوا تھا، ہم بھی کہیں حسرتیں لے کر بڑی مشکل سے پہنچ گئے جہاں (معذرت کے ساتھ) بے ذوق اور سب ہی امیر باپ کے بگڑے اولاد کا ہجوم پہلے سے ٹکٹ کے لیے لائن میں کھڑے تھے، سگریٹ پینا ہر کسی کی ذاتی عمل ہے لیکن اس قدر لیچر پائی کرنے کا حق حاصل کرنا شاید ناانصافی ہوگی کہ آنے جانے والوں کی تعظیم کو دھچکا دے کر قہقہے لگانا کہ آپ ایک ادبی میلے میں شرکت کرکے محض اپنی ذاتی فرسٹریشن ختم کرکے تسکین حاصل کر رہے ہیں جو آپکا جمہوری حق ہے تو خام خیالی ہوگی۔ ایکسپو سنٹر میں احمد ابن سکینہ کا کھتک ڈانس دیکھنے کے لیے خواتین کہیں مشکلات کا شکار رہی جہاں انتہائی معذرت کے ساتھ اوباش قسم کے لڑکے محض ہوٹنگ اور آوارہ گردی کی نیت سے دروازے سے حال کے اندر تک پڑاو ڈالا ہوئے تھے حالانکہ کھتک ڈانس کرنا وہ بھی اس قبائلی نظام میں جہاں ایک بلوچ اپنے فن کا مظاہرہ دکھا رہا ہوں اور آپ کو دولت کی ہوس نے اتنا کھوکھلا کردیا ہے کہ اس کہ محنت اور لگن کو بھی روندتے ہوئے مذاق بنا رہے ہوں۔
انتظامیہ اس معاملے میں خاصا کمزور دکھائی دے رہا تھا حتیٰ کہ پہلی صف میں بیٹھنے کے لئے یاری دوستی کا رشتہ خوب نبھانے کے لیے سفارش بھی جاری تھا۔
خیر بھائی آپ پہلے صف میں ہی بیٹھ جائیں کوئی مسئلہ نہیں کم از کم لائن میں کھڑی خاتون کا تو خیال رکھے جس نے بڑے مشکلات سے اس مہنگائی میں کرایہ کرکے بلوچستان کا ٹینلٹ دیکھنے کے لیے آ پہنچی ہے اور آپکی غیر مناسب رویے کی وجہ سے کئی خواتین اس ڈر سے واپس ہو رہی تھی کہ ان اوباش نوجوانوں کے بیچ میں بیٹھ کر شاید ہی ہمارا ادبی ذوق پوری ہوسکے واپس چلی جا رہی تھیں۔
لیکن لگتا یہی ہے کہ بڑے اسپونسرز سے فنڈز لینے ہیں ان کا پروموشن بھی کرنا ہے لیکن شرکت کرنے والے عوام اور خاص کر طلباء کے سیکھنے سکھانے کے بجائے دنیا کو دکھانا ہے کہ بلوچستان میں خوشی، امن و چین ہے ساتھ میں یہ بھی تاثر دینا ہے کہ بلوچستان میں بڑے ادبی میلے بھی ہوتے ہیں۔ میں اس سطح کا میلہ منعقد کرانے کے بعد انتظامیہ کو بجائے ڈونرز کو خوش کرنے کے نظم و ضبط کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
یہ بھی دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ آدھے سے زیادہ فنڈز یوٹیوبرز کو دیئے جائیں گے، پازیٹو امیج دکھاکر نجانے کن کو خوش کرانے کی چکروں میں پڑے ہیں۔ میری ذاتی خیال ہے کہ فیسٹیول ایسے نہیں ہوا کرتے۔ ادبی محفلوں کو بڑے شایان شان سے منانے کے لیے تمام تر منصوبہ بندی اور نظم و ضبط رکھنے کے لیے انتظامات کیے جاتے ہیں تاکہ عام عوام کو بہتر سہولیات میسر ہوں۔
باقی تو چھوڑیں فن کا مظاہرہ دکھانے والے خود اس بدنظمی کا شکار ہوئے جہاں انتظامیہ نے من پسند اسپیکرز کو تحائف دیئے جبکہ دیگر فنکار میں بیچارے ایک بوتل پانی کے لیے بھی منتیں کرتے رہیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ کو ان معاملات پر کڑی نظر رکھنی چاہیے جہاں بلوچستان بھر یا باہر سے تشریف فرما مہمانوں کو بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کریں کم از کم شکل و صورت پسندیدہ ہوں یا نہیں لیکن اس وطن کی حرمت کو نہ روندھے بلوچستان ان مظلوم عوام کا وطن ہے جہاں تمام تر عدم سہولیات کے باوجود بھی اپنے مہمانوں کو فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہترین طریقے سے مہمان نوازی کی جاتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں