مولانا ہدایت الرحمن اور جماعت اسلامی
تحریر: اسد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
3 اکتوبر 2021 کو حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن نے تربت آنے اور یہاں بلیدہ سے کمسن شھید رامز خلیل کی میت کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا۔
3 اکتوبر سے پہلے غالباً 2 اکتوبر کو غلام اعظم دشتی کے ساتھ مل کر میں گلزار دوست اور دو دیگر دوستوں نے مولانا کی تربت آمد پر ان کے استقبال کے لیے مشورہ کیا اور طے کیا کہ ڈی بلوچ پوائنٹ پر ان کا شاندار استقبال ہوگا۔
ہمارے پاس صرف ایک دن تھا اور ایک دن میں طے شدہ فیصلے کے مطابق استقبال مشکل تو تھا لیکن ہم نے تمام سیاسی جماعتوں، سماجی کارکنوں، عام لوگوں سے رابطہ کیا اس کےلیے ہم نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا، گلزار دوست کے ویڈیو چلائے جس میں وہ لوگوں سے مولانا کے استقبال کے لیے اپیل کررہے ہیں۔
باہمی مشورہ سے یہ طے پایا کہ استقبال تربت سول سوسائٹی کے بجائے کیچ کے عوام کی طرف سے کیا جائے گا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت ہوسکے۔
یاد رہے کہ اس وقت نا تربت میں حق دو تحریک کا وجود تھا اور نہ ہی جماعت اسلامی غلام اعظم دشتی کے علاوہ استقبال کی مشاورت میں شامل تھا۔ غلام اعظم بھی سول سوسائٹی کی طرف سے ہمارے ساتھ تھے۔
اسی نشست اور اس کے بعد بھی میں نے غلام اعظم دشتی پر واضح کیا کہ یہ استقبال جماعت اسلامی کا نہیں اور نا ہی اسے جماعت اسلامی کے کھاتے میں جانے کی اجازت دیں گے، غلام اعظم دشتی نے ہمیں یقین دلائی کہ ایسا کسی صورت نہیں ہوگا۔
3 اکتوبر کی صبح میں ڈی بلوچ پہنچا تو اس وقت چند ایک لوگ وہاں موجود تھے ابھی تک عام لوگ نہیں آئے تھے مجھے گماں گزرا کہ لوگوں نے ہماری اپیل پر زیادہ ریسپونس نہیں دیا ہے اس لیے لوگ شرکت پر آمادہ نہیں ہیں، اس وقت غلام بھی نہیں آئے تھے۔
کچھ دیر بعد کچھ ساتھیوں نے کال کرکے ڈی بلوچ پر اپنی آمد کی اطلاع دی اس کے بعد لوگ آتے گئے تقریباً 10 بجے تک ڈی بلوچ پر جم غفیر تھا اب غلام اعظم بھی آگئے تھے۔ یہاں پہ ایک دفعہ پھر جماعت اسلامی کی جانب ہمارا شک گیا کہیں ایسا نہ ہو کہ جماعت اسلامی استقبال کو کیش کرے، مشورہ کے بعد ہم نے ایک دفعہ پھر غلام اعظم دشتی سے اپنے خدشات بیان کیے اور ان سے یقین دہانی چاہی۔
مولانا ہدایت الرحمن کی آمد سے 10 یا 15 منٹ پہلے تقریباً 10 گاڈیاں تربت کی طرف سے ڈی بلوچ پہنچیں جن پر جماعت اسلامی کے جھنڈے اور بینر وغیرہ لگے تھے۔ ایک دفعہ پھر ہم دوستوں کا مشورہ ہوا اور ہم نے غلام اعظم کو بلا کر اپنے خدشات جو اب یقین میں بدل گئے تھے آگاہ کیا اور ان پر واضح کیا کہ وہ جماعت اسلامی والوں کو بتادیں کہ یہ استقبال کسی ایک جماعت کا نہیں عام لوگوں کی طرف سے ہے ورنہ ہم سارے لوگوں کو لے کر واپس چلے جائیں گے۔
اس دوران جماعت اسلامی کے چند ایک لوگوں سے زبانی کلامی بدمزگی کے بعد آخر کار وہ اس پہ راضی ہوگئے کہ وہ 10 گاڈیوں پر چڑھائے جھنڈا اتار کر اندر سوئچ بورڈ پر رکھ دیں گے بڑی مشکل سے کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کی خاطر ہم نے اس پہ اپنے دوستوں کی رضامندی لی۔
جھنڈا جو کسی جماعت کی پہچان اور شناخت ہوتی ہے جیسا نام کسی انسان کی شناخت کا زریعہ ہوتا ہے اس لیے ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ عوامی مجمع کسی جماعت کی شناخت بنے اور جماعت اسلامی موقع سے فائدہ اٹھا کر اسے اپنی شناخت بنانے پر بہ ضد تھی، اگر کوئی اور جماعت ہوتی تب بھی امکان یہی تھا کہ کون پاگل گرم توے پر روٹی نہیں رکھے گی یہاں تو توا گرم تھا ہی اس پہ روٹی بھی بن کر پکے ہوئے تھے بس کھانے کے لیے جماعت اسلامی منتظر تھی۔
سو مولانا کا قافلہ گوادر سے ڈی بلوچ پہنچا گاڈی سے اترے تو ان کا تاریخی استقبال ہوا، لیکن اسی اثناء جماعت اسلامی کے دوست اپنا دوسرا کھیل کامیابی سے کھیلنا شروع ہوگئے اچانک فضا نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے جماعتی نعروں سے گونج اٹھا، یہ کیا تھا ہم دنگ رہ گئے، ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ کر جماعت اسلامی اپنا کام کر چکی تھی مگر دوسری بار نعرہ تکبیر سے پہلے دفعتاً ایک اور نعرہ بلند ہوا وش اتکے وش اتکے مولانا وش اتکے پھر کیا تھا سب کی زبان پر یہی نعرہ بلند تھا، جماعت اسلامی کے دوستوں کی نیت سمجھ کر ہم میں سے ایک دوست پہلے ہی چوکنا ہوگیا تھا کہ ہنگامی حالات میں ریسکیو کا طریقہ کیا ہے سو اس نے جماعتی دوستوں کو ایک دفعہ پھر چت کردیا۔
ہمارا قافلہ ڈی بلوچ سے تربت شھر کی جانب روانہ ہوا، سینکڑوں گاڈیاں اور اسی تعداد میں موٹرسائیکل لوگ والہانہ استقبال کے بعد تازہ دم ہوگئے تھے، جماعتی دوستوں کی موقع پرستی اپنی جگہ مگر راستے بھر میں سوچتا رہا کہ بلوچ نحیف آواز کو مولانا ہدایت الرحمن کی صورت ایک بلند آہنگ نصیب ہوئی ہے، ہم اسے بلوچ کا مستقبل اور بلوچستان کی لیڈر بناچکے تھے لیکن مولانا ہمارے خیالوں کے برعکس اب بھی جماعت اسلامی کا لیڈر تھا۔
قافلہ شھید فدا چوک پہنچا اور یہاں ایک عظیم الشان جلسہ مولانا کا منتظر تھا، سی ٹی ڈی کے زریعے قتل کرائے گئے کمسن شھید رامیز خلیل کی میت دو دن سے شھید فدا احمد کی قد آور تصویر کے سائے میں محو خواب تھا، مولانا نے کمسن رامیز کی میت کے سامنے کھڑے ہوکر ایک عظیم الشان اجتماع میں جوشیلے انداز میں ایک تاریخی خطاب کیا، لوگ اسے سننے آئے تھے ہش ہش کر اٹھے مولانا نے بلوچ بے بسی اور بلوچستان کی پسماندگی کو لے کر سب کو لتاڑ دیا ان سب کو جن کا نام کئی سالوں سے سننے کو کان منتظر تھے۔
بظاہر گوادر کے بعد تربت مولانا کا گراؤنڈ بننے کو تیار تھا مگر قوم پرستی کی خاک میں پلے بڑھے تربت اب بھی کچھ کچھ شکوک میں مبتلا تھا گوکہ یہاں بھی گوادر کی طرح نام نہاد قوم پرستوں نے عوام کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا تھا لیکن تربت اب بھی کسی ایسے شخص پر مکمل اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھا جن کی وابستگی ایک تنگ نظر مذہبی جماعت سے تھا۔
مولانا سے پہلے تربت میں سانحہ ڈنک، آپسر میں نوجوان طالب علم حیات بلوچ کی شھادت، آپسر ہی میں نورجان بلوچ کی ایف سی کے ہاتھوں شھادت، ہوشاپ میں بم دہماکہ سے دو معصوم بچوں کی شھادت اور کریمہ بلوچ کی شھادت کے بعد ان کی میت کی بے حرمتی کے باعث ایک عوامی ابھار موجود تھا۔
تربت نے ان تمام واقعات میں از خود ایک جاندار رد عمل دکھائی۔ سانحہ ڈنک کے بعد برمش تحریک نے کئی سالوں کے جمود کو توڑ کر لوگوں کو زبان عطا کی اور آل پارٹیز کیچ نے سانحہ ڈنک کے بعد برمش تحریک کی قیادت کرکے ایک امیج بنائی تھی۔
سول سوسائٹی نے کریمہ بلوچ کی شھادت کے بعد ان کے میت کی بے حرمتی اور پھر غائبانہ نماز جنازہ کی ادائیگی میں عوام کے جزبات کی پوری نمائندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن حق تھا کہ حق ادا نہ ہوا، پولیس نے کریمہ بلوچ کی غائبانہ نماز جنازہ میں جو اشتعال انگیز فضا پیدا کی لوگ اس سے پہلے ہی شاکی تھے۔
اس لیے تربت کو جماعت اسلامی کے لیڈر مولانا ہدایت الرحمن کے قیادت کی اس طرح ضرورت نہیں تھی لیکن بحرحال قیادت کا خلا اب بھی باقی تھا۔
اس کے بعد مولانا ہدایت الرحمن نے تربت کے کئی چکر لگائے، جلسے کیے، جوشیلی تقاریر کیں، بلوچ تھا، نسبت اسی زمین سے تھی، عوام کے جزبات سمجھ سکتا تھا سو کھل کر کھیلا، عوام نے خوب تالیاں بجائیں، ہم جیسے لوگ ہر محفل، ہر دیوان، ہر نشست اور دوستوں کی بھیٹک سے لے کر سوشل اور پرنٹ میڈیا تک ترجمان بنے رہے، ویسے بھی ہمارا کسی ازم سے کوئی ربط تھا نا تعلق بلوچ ازم اوڑھنا تھا نیشنلزم بچھونا اسی کمزوری پہ مات کھائے، دلنشین وعظ و نصائح کو زمین واسیوں کی ترجمانی سمجھ بیٹھے۔
30 اکتوبر 2021 کے دن مولانا کے لیے عوامی جرگہ تربت میں رکھا گیا غلام اعظم ہمارا دوست خود متحرک تھا ہمیں بھی ساتھ میں گھسیٹ لایا لیکن اب جماعت اسلامی کافی حد تک مولانا کے ساتھ سرگرم ہوچکا تھا۔
یہاں پر ایک بات واضح کریں کہ غلام اعظم دشتی کو کبھی ہم نے جماعتی کارکن کی نظر سے نہیں دیکھا، ایک ملنگ طبعیت انسان، اپنی خمیر میں ملائیت سے دور، اندر سے مکمل سماجی کارکن لیکن کچھ چیزیں انسان کے گلے پڑتی ہیں سو خاندانی جماعتی ان کے گلے پڑا ہے یوں ایک اچھا بھلا سماجی ورکر نہ چاہتے ہوئے بھی ایک رجعتی جماعت میں شامل ہے۔
30 اکتوبر سے غالباً کچھ روز قبل کچھ سنجیدہ فکر ساتھیوں کے ہمراہ مقامی چائے خانہ جسے ہم پی سی ہوٹل سمجھتے اور پکارتے ہیں بھلا ہم جیسے لوگوں کے لیے پی سی ہوٹل فاضل چائے خانہ کے علاوہ اور کہاں ہوسکتی ہے جہاں آزادی سے بیٹھ کر چائے نوشین جان کریں اور اپنی طبعیت کے مطابق سیاست، سماج، ادب جو جی میں آئے اس پر مغزماری کریں۔
سو دوستوں کی بھیٹک تھی چائے تھا اور اس بار ہمارا موضوع تھا حق دو تحریک، مولانا ہدایت الرحمن، میرے وہی دلائل، پرانے منطق مگر دوست الگ سے سوچ رہے تھے۔ وہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کو مولوی ہدایت الرحمن سمجھ رہے تھے جن کی ڈوریں جماعت اسلامی اور جماعت اسلامی کی ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جارہی تھیں۔ ان کے اپنے دلائل، تاریخی حوالے اور سیاسی مثالیں تھیں میں زمینی حقائق، موجودہ حالات، بلوچ لیڈرشپ کی کوتاہ فکری، قوم پرست جماعتوں کی پیٹ پرستی پر مولانا کو بلوچ و بلوچستان کے لیے غیبی آواز کہنے پر بہ ضد لیکن آخری بات پہ اتفاق یہ ہوا کہ مولانا کو مذید دیکھا جائے اس کی اندھی تقلید سے گریز کیا جائے اس کی بے جا حمایت سے اجتناب برتی جائے مگر میں عقل اور دل کے معرکے میں دل کا کہا ماننے پر مجبور تھا میں مولانا کو بلوچ مظالم، بلوچ سرزمین کی لوٹ مار، بلوچ وسائل کی بندر بانٹ اور پارلیمنٹ پرستوں کی سیاسی سوداگری کے زمانے میں ایک حقیقی آواز ایک ہمدرد رہنما اور برسوں مارکھاتی بلوچ سرزمین کا ایک ایسا فرزند سمجھ رہا تھا جس نے زیادتیوں کو قریب سے دیکھ کر تنگ آمد بہ جنگ آمد کا فارمولا اپنایا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ میرے نزدیک مولانا آج بھی جماعت اسلامی کے سوا اور کہیں استعمال نہیں ہورہا۔
اپنا خیال تو آج بھی یہ ہے کہ جماعت اسلامی اگر مداخلت نہ کرتی، بنیادی مسائل پر کھڑی ایک پاپولر عوامی تحریک کو سیاسی موقع پرستی کی بھینٹ نہ چڑھاتی اور اگر مولانا ہدایت الرحمن جماعت اسلامی کے ہاتھوں استعمال نہ ہوتے تو حق دو بلوچ اور بلوچستان کی تحریک بنتی۔ جماعت اسلامی نے قوم پرست بیانیہ کے حامل ایک پاپولر عوامی تحریک کی ابتدائی کامیابی سے گھبرا کر اسے متنازعہ بنادیا۔
جماعت اسلامی نے ہر پلیٹ فارم پر جتانے کی کوشش کی کہ یہ تحریک جماعت اسلامی کی تحریک ہے، مولانا بیچارہ اب نہ تین میں تھا نہ تیرہ میں اپنی طرف سے ہر جگہ ہر مقام پر وضاحت دیتا پھرا کہ حق دو تحریک کو جماعت اسلامی سے کوئی نسبت نہیں لیکن لاحاصل جماعت اسلامی لاھور سے کوئٹہ اور کراچی سے تربت تک حق دو تحریک کو اپنا سمجھ بیٹھی ہے۔
حق دو کے حوالے سے اگر کوئی بات کریں تو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ جماعت اسلامی کے کارکنان ہی وضاحت اور جواب دیتے پائے جائیں گے۔
جماعت اسلامی کو لے کر مولانا ہڑبڑاہٹ کے عالم میں آج بھی وضاحت دیتا پھررہا ہے کہ حق دو جماعت اسلامی نہیں لیکن مولانا کے موقف میں بھی جماعت اسلامی کا اثر زیادہ ہے ان کے وضاحت بھی مکمل وضاحت نہیں کرتے کہ مولانا کہنا کیا چاہتے ہیں۔
30 اکتوبر کو تربت میں ایک بڑا جلسہ تھا جسے عوامی جرگہ کہا گیا، سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی اس جرگے میں مدعو کیا گیا تھا مگر لوگوں کی شرکت اس میں خواہش کے برعکس کم تھی، آل پارٹیز کیچ با وجوہ جرگہ میں نہیں آئی۔
30 اکتوبر کے عوامی جرگہ سے پہلے پہلے مولانا ہدایت الرحمن اپنی مقبولیت اور عوامی پزیرائی کے باعث زبان و بیان میں کچھ سیاسی بنتے جارہے تھے، ایک عام روایتی پاکستانی سیاسی مزاج، مولانا کے پاس ایک تحریک تھی، نیشنل ازم کی بنیاد پر کھڑی تحریک اور اس کی پشت پر عوام کی طاقت۔ مگر مولانا کا مزاج اب قومی تحریک کے سربراہ جیسا نہیں تھا۔
نیشنل ازم کو بنیاد بنا کر ٹرالر مافیا کے خلاف جدوجہد سے عوام کی تزلیل نفس تک، عام بلوچ کو درپیش روز مرہ بنیادی مسائل، ریاستی جبر و تشدد، لاپتگان کی بازیابی، جبری گمشدگی کا خاتمہ، چیک پوسٹ و چوکیوں میں سیکیورٹی کے نام پر عزت نفس کی تاراجی جیسے قومی ایشوز اور بارڈر و ٹرالر جیسے معاشی معاملات تک حق دو تحریک سرزمین سے جڑے عام فرد کی امید بن گئی تھی مگر مولانا بتدریج ایک روایتی ملا کے روپ میں ڈھلے جارہے تھے، منبر پر بیٹھ کر روایتی قصہ سنانے والے ایک عام مولوی جسے بسا اوقات جوش خطابت میں زبان پر کنٹرول نہیں رہتا۔
ایک پاپولر عوامی زرمبشت حق دو تحریک کے سربراہ ہدایت الرحمن بلوچ بہرحال اندر سے جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت اللہ ہی تھے جو بطور ایک قومی رہبر عوام کی طرف سے دی گئی بے پناہ قومی تکریم و عزت اور محبت کو سہارنے کے بجائے آہستہ آہستہ باہر نکل رہے تھے۔
اب مولانا ہدایت الرحمن نے اچانک مکران کی شائستہ رو سیاسی فضا میں پی ٹی آئی طرز کی سیاست اپنانا شروع کیا، قومی ایشوز پر لب کشائی اب سیاسی جماعتوں کو لتاڑنے میں بدلنا شروع ہوئی تھی، گوادر میں بی این پی کے خلاف غیر سیاسی زبان کے استعمال سے شروع ہونے والی پی ٹی آئی کی گالم گلوچ طرزِ سیاست نے پنجگور میں حد کردی، مولانا نے پارلیمنٹ میں بیٹھے سیاسی رہنماؤں کو گدھا کہہ دیا، اسد بلوچ پنجگور کا منتخب عوامی نمائندہ، اسے بلوچیت سے خارج کردیا۔ گدھا، یہ اعزاز اتنا برا بھی نہیں تھا، خاموشی سے سب کچھ سہہ کر کام میں جتنے والا یہ جانور، فرق کیا ہے، پارلیمنٹ میں بیٹھ کر قومی مفادات پر سوداگری سے لے کر عزت نفس کی پامالی دیکھنے والے وزراء و مشرا، لاپتہ افراد کی گمشدگی کو جواز دینے قانون سازی میں مصروف رہنے والی مخلوق، بلوچ زمین پر جبر و استبداد میں ملوث ادارہ کے سربراہ کی توثیق میں اپنا حصہ ڈال کر قوم پرستی کا دعویدار لیڈر، سیندک، ریکوڈک، گوادر کون سا بلوچ وسائل ہے جن پر ان کی ناک کے نیچے ڈاکہ نہیں ڈالا گیا جن کا اسی زمین اور زمین پر بسی مخلوق کے نام پر سیاست کا دعویٰ ہے۔ اور موجودہ پارلیمنٹ کے اراکین، ان سے جو کہا جائے اس سے دوگنا کرنے کو تیار، سوچتا ہوں تو مولانا نے گدھے پر ظلم کیا، کبھی کبھی تو اپنے مالک پر دولتی رسید کرنے کی ہمت ہے اس میں مگر
اس سے پہلے پسنی میں مقامی صحافیوں کو مولانا کے اسٹیج سے ماں بہنوں کی گالیاں دی گئیں، پھر مولانا نے بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچ و پشتون طلبہ و طالبات کے خلاف جو زبان استعمال کی وہ گلے کا ایسا کانٹا بنا جسے اگلا جاسکتا تھا نہ نگلا۔ سردار اختر مینگل کی بیٹی کی شادی پر جو کہا گیا رہی سہی کسر اسی نے پوری کردی۔
پھر گالم گلوچ بدزبانی اس کے بعد معذرت روایت ہوئی، مخالف سیاست کار دشمن بن گئے اور اب مولانا قومی رہنما سے یکلخت ایک انتہا پسند مذہبی لیڈر نظر آنے لگے، گویا مولانا میں جماعت اسلامی کی روح یکدم باہر آگئی۔
حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن تنازعہ پہ تنازعہ کا شکار ہوتے گئے، پسنی میں مولانا پر سرنڈر شدہ افراد کی حمایت کا الزام لگا تو یہ کہہ کر دفاع کیا کہ جو بلوچ ساتھ آنا چاہیے اس پر کوئی روک نہیں کوئی سرنڈر کرے تو کیا بلوچ نہیں رہتا؟ پنجگور میں مولانا کس کے ہاں مہمان بنے، کس کے عشائیہ میں شرکت کی، ان کے اردگرد بندوق بردار کس کے جان نثار تھے؟ جب سوال اٹھا تو جواب وہی تھا کہ اگر کوئی بلوچ کھانا کھلائے اس میں قباحت کیا ہے۔
کوئٹہ میں حق دو کا سربراہ کون ہے، کس کا بندہ ہے، ایک متنازعہ شخص کو یہ عہدہ کس اعزاز میں دیا گیا؟ پہلے مگر انکار کیا گیا پھر کہا کہ جماعتی خاندان سے تعلق ہے محض پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر جن کے ساتھ تصاویر آئیں وہ پروپیگنڈہ تو نہیں تھا۔
بعد میں اسی شخص نے یونیورسٹی کی طالبات پر مولانا کے گالیوں کا دفاع کیا۔ وہی گالیاں دہرائیں جن کی مولانا نے معذرت کی تھی۔
تحریک میں درآئے کمزوریوں کو لے کر میں نے 6 دسمبر 2021 کو مولانا ہدایت الرحمن کے نام بلوچی میں ایک خط لکھا، اس کے بعد قوم پرستوں کے خلاف مولانا کے موقف کو لے کر آرٹیکل لکھا جس میں نام نہاد ہی سہی مگر لوگوں کو سیاسی طور پر ایجوکیٹ بنانے میں ان کے کئی سالوں کے کردار کا زکر کیا گیا تھا لیکن جواب ندارد۔
30 اکتوبر کو تربت میں منعقد جرگہ کی تیاریوں کے دوران دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی، غالباً آخری دن جب تیاریاں مکمل تھیں غلام اعظم دشتی نے بتایا کہ انتظامیہ مرکزی شھید فدا چوک پر جلسہ میں روٹے اٹکا رہی ہے، پھر بتایا کہ انتظامیہ نے شھر کے تمام دکانوں کو ہدایت دی ہے کہ جلسہ کےلیے کوئی ٹینٹ اور اسپیکر وغیرہ نہ دیا جائے، بحرحال صورت حال گھمبیر تھی لیکن اچانک اعلان ہوا کہ انتظامیہ کی خواہش پر جلسہ کا مقام تبدیل کرکے ماڈل اسکول گراؤنڈ رکھا گیا ہے۔
غلام اعظم دشتی اور حق دو تحریک کے چند کارکنان جگہ کی تبدیلی کے خلاف تھے، انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور پھر عین وقت پر جلسہ ماڈل اسکول کے بجائے ایڈوکیٹ گلی ہی کے سامنے ہوا۔
بعد میں عقد کھلا کہ حق دو تحریک کے ایک دو بڑے میاں صاحبان جلسہ گاہ کی تبدیلی میں ایک معتبر شخصیت سے معاملات طے کرچکے تھے، معاملات کیا تھے، پیسہ لینے کا الزام، کیا سچ کیا جھوٹ اگر نام لیے جائیں تو جبہ و دستار زمین بوس ہوں گے۔
جلسہ ہوا مگر آل پارٹیز کیچ دعوت کے باوجود مولانا کی سیاسی جماعتوں کے خلاف بدزبانی اور لیڈر شپ کو گدھا جیسے القابات کہنے سے بائیکاٹ کرچکا تھا اس لیے سیاسی جماعتوں کے کارکنان دور بیٹھے نظارہ کرتے رہے اور لیڈر شپ نظارہ دیکھنے بھی نہیں آیا۔
مولانا نے اسی جلسہ میں جب بلوچستان سے ایف سی نکالو مہم کا تاریخی اعلان کیا تو لوگ جھوم اٹھے، تالیاں بجیں سیٹیاں نکالیں، جلسہ ختم ہوا اور مولانا نے کمشنر مکران کی دعوت پر ان سے جاکر ملاقات کی۔
کمشنر مکران سے ملاقات میں مولانا نے مگر اچانک یوٹرن لے کر ایف سی کی تعریف کی اور چیک پوسٹوں کو محافظ کہا، ایف سی پر ہوئے ایک حالیہ حملہ کی کھل کر مخالفت کی، یہ وہی شخص تھا جو کچھ دیر قبل ایک عوامی جلسہ میں ایف سی کو بلوچستان سے نکالو مہم کا اعلان کرچکا تھا؟ یقین نہیں آرہا تھا مگر بے یقینی کی گنجائش بھی نہیں تھی۔
ملاقات کے بعد آفس کے باہر کمشنر مکران کے ساتھ پریس بریفنگ میں جب ایک سنیئر صحافی نے ایف سی کے حوالے سے عوامی جلسہ میں الگ اور بند کمروں میں الگ ان کے متضاد بیانات کو لے کر سوال پوچھا تو مولانا مولوی بن گئے، منہ قبلہ کی طرف کرکے سر موڑ دیا۔ جواب دیا تعریف ان چوکیوں اور چیک پوسٹ کی گئی جہاں ہمیں عزت دی جاتی ہے جو ہماری حفاظت کرتی ہیں۔
تو کیا آپ کو حیرت نہیں ہوئی؟
پھر اچانک ہوشاپ کا سانحہ ہوا، سی ٹی ڈی کے زریعے ایک گھریلو خاتون کی گرفتاری کا واقعہ، بظاہر تو سی ٹی ڈی ہی نے نورجان بلوچ کو ممکنہ خود کش حملہ کے پیش نظر گھر سے رات دو بجے گرفتار کیا مگر اہل علاقہ اسے سچ ماننے کو تیار نہیں تھے سو روڈ بلاک کردیا، ایم ایٹ شاہراہ ہوشاپ پر بند کردیا گیا کوئی جاسکتا تھا نہ آسکتا پہلا دن، دو سرا بالآخر سرکار کو نورجان کی گرفتاری کا اعتراف کرنا پڑا، الزامات مگر سنگین، بلوچ دوست وکلا نے کیس لڑا مگر سی پیک بدستور بند تھا، مولانا ہدایت الرحمن بھی ایک دن اظہار یکجہتی کے لیے ہوشاپ آگئے، اس دن ہم بھی وہیں تھے، ایک مکمل جزباتی ماحول میں مولانا نے لہو گرما دیا۔
اسی دوران کراچی سے 19 مئی کو تحصیل تمپ کے گاؤں نظرآباد سے تعلق رکھنے والی شاعرہ حبیبہ پیرجان بھی رات کو گھر سے لاپتہ کردیے گئے۔
فیملی نے پہلے دن نظر آباد میں احتجاج کیا پھر تربت آئے اور 20 مئی کو حق دو تحریک تربت کے ساتھ مل کر ایم ایٹ شاہراہ کو ڈی بلوچ پوائنٹ پر بند کردیا۔
حق دو تحریک کیچ احتجاج پر تھا مگر درحقیقت اسے مولانا کی حمایت حاصل نہ تھی، کیوں نہ تھی و اللہ عالم بہ ثواب۔ سرکار حبیبہ پیرجان کی گرفتاری پر خاموش تھی اور تربت میں احتجاج طول پکڑنے کا اندیشہ تھا، حق دو تحریک کیچ کے پاس ایک منظم احتجاج کے کیا آپشن تھے جس سے سرکار کو پریشرائز کیا جاسکے، اس پہ غور اور مشاورت کے بعد ایک بڑا اعلان کیا گیا۔
20 مئی کی شام ڈی بلوچ دھرنا گاہ سے حق دو کیچ نے پورے مکران میں غیر معینہ مدت کے لیے شٹرڈاؤن ہڑتال کی کال جاری کردی۔
احتجاج کا یہ سخت اعلان مولانا ہدایت الرحمن کے مزاج پر گراں گزرا، مولانا جو ٹرالنگ میں ملوث مافیا کے خلاف ہفتوں دھرنا دیتا رہا تھا ایک قومی ایشو پر، بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی جو براہ راست ننگ و ناموس کا مسلہ تھا مگر حق دو تحریک کیچ کے ساتھ نہ ہوسکا مولانا نے فورا اعلامیہ جاری کرکے مکران میں شٹرڈاؤن ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کیا، لاتعلقی کے اعلان پر اکتفا نہ کیا بلکہ حق دو تحریک کیچ کے بیان سے بھی اغماز برتا اور تاجروں سے دکانیں کھولنے کا کہا۔
جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت الرحمن نے کچھ منٹوں کے وقفے سے دو الگ الگ بیانات پر حق دو تحریک کو ایک نازک موڈ پہ لاکھڑا کیا تھا اب کیا ہوسکتا تھا، حق دو تحریک نے قومی ننگ و ناموسِ پر شٹرڈاؤن کی کال دی تھی اور جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری نے اس سے لاتعلقی ظاہر کی تھی، وہ شخص جو ٹرالنگ جیسے معاملات پر دھرنا دینے میں مشہور تھا ایک قومی ایشو پر کیوں کر پیچھے ہٹ رہا تھا حالانکہ دعوی بلوچ حمیت، قومی غیرت، تزلیل نفس وغیرہ وغیرہ کا کررہا تھا۔وہ جانے خدا جانے۔
وقت کے اس انتہائی حساس اور نازک موڈ پر جہاں معاملہ بلوچ قومی ننگ و ناموس کا تھا مگر حق دو تحریک مولانا ہدایت الرحمن کے مدمقابل آگیا جی ہاں حق دو تحریک کیچ نے دوسرا اعلامیہ جاری کردیا تھا، حق دو تحریک نے مولانا کے اعلامیہ کو پرے رکھ دیا اور اعلان کیا کہ کچھ بھی ہو اس اہم قومی ایشو پر کیچ میں بہ ہر صورت شٹرڈاؤن ہڑتال کی جائے گی اور شٹرڈاؤن ایک دن کی نہیں غیر اعلانیہ ہی ہوگی۔
21 مئی کو حق دو تحریک کیچ کے کارکنان نے شٹرڈاؤن کرکے دکھائی، حق دو تحریک کے کارکنان پورے شھر میں پھیل گئے، مولانا ہدایت الرحمن کے برعکس وسیم سفر جیسے معذور اس دن سڑکوں پر تھے، ٹائر جلائے، شٹر گرائے اور ہڑتال کامیاب کرائی۔
حق دو تحریک کیچ ڈٹ گئی تھی، اپنے فیصلے پر ڈٹ کر کھڑا رہا، نہ انتظامیہ کی سنی، نہ تاجر برادری کی اور نا ہی مولانا ہدایت الرحمن کو خاطر میں لائے، تربت میں مسلسل شٹرڈاؤن ہڑتال دوسرے اور تیسرے دن تک جاری رہی ڈی بلوچ پوائنٹ پر سیکڑوں کی تعداد میں خواتین، بچے اور مرد احتجاج کا حصہ بنے، رات تک مقامی لوگ کیمپ میں حق دو تحریک اور حبیبہ پیرجان کی فیملی کے ساتھ ثابت قدم ٹہرے رہے لیکن مولانا ہدایت الرحمن ایک دن ایک لمحے کو بھی ڈی بلوچ نہیں آئے۔
کراچی سے لاپتہ حبیبہ پیرجان کے بازیابی کی اطلاع آئی تو فیملی نے احتجاج نورجان بلوچ کی رہائی تک جاری رکھنے کا اختیار حق دو تحریک پر چھوڑ دیا، اسی دن عدالت نے نورجان بلوچ کی رہائی کے لیے بلوچ دوست وکلا کی درخواست منظور کی رات کو حق دو تحریک کیچ نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔
ایک غیر رسمی ملاقات میں مکران کے ایک اعلی سرکاری عہدہ دار مولانا ہدایت الرحمن سے زیادہ حق دو تحریک کیچ اور ان کی مقامی قیادت پر سوختہ تھا تو اس پہ تعجب نہیں ہوا۔
حق دو تحریک کس عقل کا شاخسانہ تھا کہاں منصوبہ کیا گیا نہیں معلوم نا لوگوں کو اس سے کوئی غرض ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں لوگ سسٹم اور خود پر گزارے حالات سے شاکی تھے، اس لیے جب ایک مولوی نے ان کی بات کی تو بلاچون و چرا پیچھے ہولیے۔
مولانا ہدایت جنہیں نیشنل ازم کی نعروں کے پیچھے جو تکریم ملا وہ مثالی رہا، تاریخ میں پہلی بار انہوں نے لاکھوں کے مجمع کی قیادت کی، ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے ان کے شانہ بشانہ ریلی نکالی لیکن کیا یہ سب ایک خود رو عمل کا حصہ تھا؟
حق دو تحریک کو کسی طور ایک خود رو تحریک نہیں کہا جا سکتا، اس کے پیچھے ظلم و ستم، مار دھاڈ، اغوا، مسخ لاشیں اور جبرا زبان بندی کا ایک پس منظر ہے، ایک تاریخی پس منظر جنہیں زبان چاہیے تھا اور وہ زبان مولانا ہدایت الرحمن نے ادا کرنے کی کوشش کی مگر جماعت اسلامی نے بدقسمتی سے ایک پاپولر عوامی تحریک کو محض اس بنیاد پر ہائی جیک کرکے متنازعہ بنادیا کہ اس کی سربراہی اس کے ایک کارکن کے پاس ہے۔
بدقسمتی سے مولانا ہدایت الرحمن نے بلوچ عوام کی طرف سے دی گئی عزت و تکریم اور چاہ و محبت کا بھرم نہیں رکھا اور جماعت اسلامی کے ہاتھوں یرغمال بنے۔
بلوچ عوام کی طاقت کے غرور میں مبتلا مولانا ہدایت الرحمن نے بالآخر محبت کا جواب اسی سرزمین کے باشندوں پر گالیوں اور بد گوئی کی صورت واپس کیا۔ اس نے نیشنل ازم کی بنیاد پر کھڑی ایک پاپولر تحریک کو بالآخر بلوچ مزاج اور قوم پرستی سے متصادم نیم شدت پسند مذہبی تنظیم کے ہاں گروی رکھنے کی کوشش کی۔
یہ نہیں کہ حق دو تحریک کمزور یا غیر اہم ہوئی ہے یا ان کے پاس عوام کی قوت نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بطور سربراہ مولانا کے پاس اب بھی عوامی طاقت موجود ہے لیکن انہوں نے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر بلوچ قوم پرستی کی بنیادوں پر کھڑی حق دو تحریک کو بحرحال متنازعہ بنادیا ہے۔
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے ایک خوب صورت موڈ دے کر چھوڈنا اچھا
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں