مولانا کا سیاست اور مدرسے کے طالب کا ٹفن ۔ سفرخان بلوچ ( آسگال)

768

مولانا کا سیاست اور مدرسے کے طالب کا ٹفن

تحریر: سفرخان بلوچ ( آسگال)

دی بلوچستان پوسٹ

عموماً ہر چھوٹے یا بڑے محلے میں ایک دینی مدرسہ ہوتا ہے، جہاں دور دراز کے علاقوں سے سینکڑوں یا ہزاروں بچے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں، جن کا رہائش بھی وہیں ہوتا ہے، کھانا پینا بھی اسی مدرسے کے ذمہ ہوتا ہے۔ سالن تو اسی مدرسے میں بنتا ہے مگر روٹی کے لئے ہر روز دو مرتبہ اسی مدرسے کے طلباء کو دو دو کے گروپ میں تشکیل دے کر قریب کے آبادیوں میں بھیجا جاتا ہے۔

مدرسہ میں طلباء کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے مدرسے میں اکثر کھانے میں دال ہوتا ہے، جس سے طلباء تنگ آچکے ہوتے ہیں جس دن روٹی لینے کا ذمہ کسی کے سر آتا ہے تو وہ خود کو ایک قسم کا خوش نصیب تصور کرتا ہے۔ روٹی لینے کے وقت اکثر اس دو کے گروپ میں ایک ٹفن ہوتا ہے، جو ہر گھر میں روٹی لینے جاتے ہیں اسی گھر میں جو بھی سالن بنا ہوا ہو اس سے تھوڑا بہت مانگ کر اسی ٹفن میں ڈال دیا جاتا ہے، بھنڈی، گوبی،آلو، گوشت، مچھلی،یا جو کچھ بنایا گیا ہو وہ اسی ٹفن میں تھوڑا تھوڑا ڈالا جاتا ہے، آخر میں جاکر تب وہ ٹفن بھر جاتا ہے خدا کے علاوہ کسی کو کچھ معلوم بھی نہیں اس ٹفن میں جو سالن موجود ہے وہ کس نوعیت کی سالن ہے اور اس کا نام کیا ہے۔

مولانا ہدایت الرحمان کا سیاست اور اس طالب کے ٹفن میں کوئی خاص فرق موجود نہیں ہے،اگر وہ طالب ٹفن کھولنے کے بعد یہ نہیں جانتا کہ میں کیا کھا رہا ہے اور یہ کس چیز کی سالن ہے تو مولانا بھی کچھ اسی طرح کررہا ہے۔

مولانا ایک ہی وقت میں اعلان کرتا ہے کہ میں پہاڑوں پہ جاوں گا، وہیں دوسری طرف مولانا بلوچ آزادی پسندوں کی جانب سے فورسز پہ ہونے والے حملوں کی مذمت بھی کرتا ہے، مولانا ایک طرف اعلان کرتا ہے کہ اس پارلیمانی یا کرسی کی سیاست پہ میں لعنت بھیجتا ہوں وہیں مولانا الیکشن میں بھی حصہ لیتا ہے، مولانا ایک جانب کہتا ہے کہ پنجاب اور پنڈی سے آئے ہوئے ایف سی اہلکار ہماری ماوں اور بہنوں کی تذلیل کرتے ہیں، وہیں مولانا خود اسٹیج پہ چڑھ کر یا انٹرویو دیتے ہوئے انہی ماوں اور بہنوں کے بارے میں ایسے الفاظ بیان کرتا ہے جو اس ایف سی اہلکار کے کہاں سے آرہے ہو کہاں جارہے ہو سے بھی بدتر ہیں۔ کیونکہ وہ تو دشمن ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے مگر آپ تو خود کو دوست کہتے ہو۔

دراصل مولانا اس وقت خود کنفیوز ہے کہ وہ حق دو تحریک کا رہنما ہے یا جماعت اسلامی کا کیونکہ یہ دو الگ الگ تلوار ہیں جو ایک میان میں آ بھی نہیں سکتے ہیں۔ مولانا خود کو جماعت اسلامی کا رہنما سمجھتا ہے اور لوگوں نے مولانا کو اتنی عزت حق دو تحریک کی وجہ سے دی ہے۔ دراصل مولانا اب تک یہ سمجھنے سے خاصر ہے کہ لوگوں نے اس کا ساتھ کیوں دیا ہے۔ایک سال پہلے جب مولانا جماعت اسلامی کا رہنما تھا تو اس کو گوادر کے لوگ بھی نہیں جانتے تھے مولانا کو لوگ اب جانتے ہیں تو حق دو تحریک کی وجہ سے جانتے ہیں، وہی حق دو تحریک جس میں کرسی اور پارلیمنٹ کی بات نہیں ہوئی تھی جس میں بلوچ کے حقوق کی بات ہوئی تھی۔

سیاسی حوالے سے بلوچ کئی ایسے تجربات سے گزر چکے ہیں اب پاکستانی طرز سیاست جہاں صرف بلدیاتی مسائل کی بات ہو تو وہاں بلوچ اس بات سے آشنا ہیں کہ وہ اس کے درد کا دوا نہیں ہیں کیونکہ بلوچ جانتا ہے کہ بلوچوں کا مسئلہ پانی ،بجلی ، یا دیگر نہیں، بلوچوں کا مسئلہ قومی شناخت کا ہے اس پاکستانی طرز سیاست میں اگر خیربخش مری، عطاءاللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو کچھ نہیں کرسکے تو مولانا کس کھیت کے مولی ہیں اور کیا کرسکتے ہیں۔

جہاں تک مولانا کو جو شہرت ملی وہ اس وجہ سے ملی مولانا نے شروع شروع میں ایک ایسا منشور لوگوں کو دیا جس میں کرسی کے بجائے مزاحمت تھی، لوگ مولانا کے ساتھ اس لئے ملتے گئے کہ مولانا وہی مسائل پہ بات کررہا تھا جس پہ ہر کوئی بات کرنا چاہتا تھا مگر کر نہیں پارہا ہے تو انہیں مولانا کے ذریعے ایک راستہ ملا مگر ہوا وہی جو ہر وقت ہوتا ہے لوگوں کو ایک بار پھر مولانا نے مایوس کردیا ہے لوگ تصور کررہے تھے کہ مولانا کا سیاست جتنے بھی دیگر سیاسی پارٹیاں ہیں ان سے الگ ہوگا مگر مولانا تو پھر اسی راستے پہ جا نکلا فرق صرف اتنا ہوا کہ کام وہی ہے صرف چہرہ بدل گیا۔

تاريخ ہر کسی کو ایک موقع دیتا ہے. یہی موقع تاریخ نے مولانا کو دیا وہی موقع جہاں مولانا کا نام خیر بخش مری، اکبر بگٹی اور دیگر رہنما کے ساتھ لکھا جاسکتا تھا مگر مولانا خود اپنے پاوں پہ کلہاڑی مارنے پر تلے ہوئے ہیں تو بندہ کیا کرسکتا ہے۔ جسطرح مولانا کچھ لوگوں کو یکجاہ کرکے ان کو تحریک کا نام دے رہا ہے تو کیا واقعی میں یہ تاریخ ہے یا کہیں پہنچنے کے لئے راہ ہمواری ہے؟

ایک سوال یہاں اٹھتا ہے کس طرح مولانا جلسہ جلوس ریلیاں کرکے اس کو حق دو تحریک کا نام دے رہا ہے کیا بلوچوں نے پہلےیہ راستہ اپنایا نہیں ہے ؟ اگر اپنایا ہے تو اس کے نتائج کیا نکلے ہیں ؟ کوئی فائدہ بلوچوں کو پہنچا ہے کہ نہیں؟ بلوچستان میں اٹھاو پھینکو والی پالیسی میں جن جن لوگوں کے مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئے ہیں وہ کیا کر رہے تھے ان کا کیا ہوا؟ سؤالات اٹھ سکتے ہیں اگر پہلے جو کچھ لوگ کررہے تھے وہ مسخ شدہ لاش بن گئے آج مولانا وہی کررہا ہے. پاکستانی میڈیا میں ہیرو بنا ہوا ہے یہاں مشہور انڈئن ڈرامہ سیریل سی آئی ڈی کا ایک ڈائیلاگ یاد آرہا ہے کہ ،، کچھ تو گڑ بڑ ہے،، ۔

مجھے یاد ہے جب مولانا شروع شروع میں ان دھرنوں اور ریلیوں کے ذریعے نمودار ہوا تو مجھ سے کسی دوست نے پوچھا کہ آپ کیا رائے رکھتے ہو تو میں نےصاف صاف جواب دیا کہ یہاں بلوچ و بلوچستان کا کوئی تعلق نہیں یہ مولانا اور حمل کلمتی کی آپسی جنگ ہے اور مولانا آنے والے الیکشن میں اپنے لئے راہ ہموار کررہا ہے اور مولانا کا ٹارگٹ پارلیمنٹ کی کرسی ہے۔

رہی بات مولانا کے اس بات کی کہ میرا نظریاتی تعلق یہاں سے اور جدوجہد یہاں کررہا ہوں تو مولانا صاحب سے درخواست ہے کہ مولانا صاحب مدرسے کے طالب کی ٹفن والی سیاست کو ترک کریں یا ایک ہی ٹفن میں ایک سالن ڈالا کریں اس طرح ایک ٹفن میں گوبی، آلو، گوشت، مچھلی اور دیگر سالن ڈال کر کھاتے وقت آپ خود کنفیوژ ہونگے اور سامنے والے بھی کنفیوژ رہیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں