مجھے صبا سے کوئی اختلاف نہیں
تحریر: ذوالفقار علی زلفی
دی بلوچستان پوسٹ
ہر فانی انسان اپنی زندگی میں مختلف ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے ـ یہ ارتقا فکری و مادی سطح پر ترقی یا تنزلی کی جانب ہوتی ہے ـ حرکت ایک ثابت شدہ حقیقت ہے ـ بقول ایک بلوچ شاعر “حرکت ہی زندگی ہے” ـ
صبا دشتیاری بھی ایک فانی انسان تھے ـ زندگی کے مختلف ادوار میں وہ مختلف فکری و سماجی تحریکات سے متاثر رہے اور ان کے ذریعے اپنی زندگی کو بدلنے کی کوشـش کرتے رہے۔
صبا دشتیاری ایک سیاہ فام بلوچ تھے ـ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو شاید میرے اس جملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ـ لیاری کے بلوچ دانش ور جناب ن.م دانش نے اپنے اردو شعری مجموعے “بچے، پھول اور تتلیاں” کے دیباچے میں لکھا “میں لیاری کا ایک سیاہ فام بلوچ ہوں” ـ صبا دشتیاری نے اس جملے کو بے رحم تنقید کا نشانہ بنا کر ن.م دانش کو نفسیاتی لحاظ سے احساس کمتری کا شکار قرار دے کر موقف اختیار کیا کہ بلوچ صرف بلوچ ہوتا ہے ، سیاہ فام کا سابقہ اضافی اور فضول ہے ـ صبا صاحب کے موقف کا احترام لیکن اس میں کوئی شک نہیں بلوچ سماجی نظام میں افریقی رنگت کا حامل ہونا سماجی قدر و قیمت کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے،ـ خود صبا دشتیاری سیاہ فام ہونے کی پیدائشی خصوصیت کے باعث نوجوانی میں احساسِ کمتری کا شکار رہے ہیں اور اس کمتری کے احساس کو برتری میں بدلنے کے لیے انہوں نے لکھنو تہذیب کو شعوری طور پر اپنا کر بلوچ شناخت کو تیاگ دینے کی کوشش کی ـ وہ اپنے اس سماج سے خود کو الگ کرنے کی کوشش کرتے رہے جو انہیں رنگت کی بنیاد پر کم نسل تصور کرتا تھا۔ـ
صبا دشتیاری جب پیشہِ معلمی کی مجبوریوں کے باعث کوئٹہ پہنچے اور وہاں ان کی ملاقات ماما عبداللہ جان جمالدینی جیسے ترقی پسند اکابرین سے ہوئی تو ان کی کایا پلٹ گئی ـ وہ جب دوبارہ کراچی آئے تو انہوں نے لکھنو تہذیب کا چولا اتار کر اپنی گُم گشتہ بلوچ شناخت کی بازیافت کی ـ انہوں نے بلوچی زبان و ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر زبان و ادب کی ترقی کو اپنا مشن بنا لیا ـ وہ رنگ و نسل کے مباحث سے فکری طور پر اوپر اٹھ چکے تھے ـ یہی وہ دور تھا جب انہوں نے کلاسیک ہندوستانی و بلوچی موسیقی سے روح کو نہلانے کا راستہ چُنا ـ وہ کلاسیک کتھک رقص کی جانب گئے اور اعضا کی شاعری پر توجہ دینی شروع کردی ۔
چونکہ وہ فکری طور پر مروجہ سماجی نظام سے بغاوت کا شعوری فیصلہ کرچکے تھے اس لیے انہوں نے نہ صرف رنگ و نسل کے تعصبات کو مسترد کردیا بلکہ وہ صنفی تقسیم کے مروجہ تصورات سے بھی اوپر اٹھ گئے۔ ـ
غلط طور پر سمجھا جاتا ہے وہ فلسفہِ “ویدانت” کے مقلد ہونے کی وجہ سے گوتم بدھ کے پرستار تھے ـ وہ گوتم بدھ کو مروجہ سماجی نظام کا باغی تصور کرتے تھے ـ ان کی نگاہ میں گوتم بدھ رنگ، نسل، صنف اور حرص و طمع سے پرے ایک ایسے انسان تھے جو “انسان” بننے کی کوششوں میں جُتے رہے ـ فکری طور پر صبا دشتیاری اپنی زندگی کی آخری سانس تک فلسفہِ مادیت کے حامی رہے ـ وہ کارل مارکس کے بھی مداح رہے لیکن انہوں نے کبھی بھی کمیونزم کی تبلیغ نہیں کی حالانکہ وہ متعدد سکہ بند کمیونسٹ دانش وروں کی نسبت مارکسزم کو زیادہ گہرائی سے سمجھتے اور اس کا مطالعہ کرتے رہتے تھے ـ ان کا ہدف ایک ہی تھا ـ بلوچی زبان و ادب کی ترقی ـ وہ اس معاملے میں مشنری انداز میں ان تھک کام کرتے تھے ـ اس میدان میں ان کے آئیڈیل سید ہاشمی تھے۔
ان کا مذاق اڑایا جاتا ـ کراچی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بعض بزعمِ خود اہلِ زبان کے منصب پر فروکش مکرانی ادیب ان کی زبان پر گرفت کرتے رہے ـ انہیں پاگل، جنونی اور مضحکہ خیز تک کہا گیا ـ بعض تو ان کی نرم مزاجی کو زنانہ پن کہنے سے بھی نہ چوکے مگر وہ گوتم بدھ کی مانند تزکیہِ نفس کی مسلسل مشق کے باعث بے نیاز رہے۔ ـ
وہ بلوچی لکھنے والوں کو قابلِ احترام گردانتے تھے ـ مرحوم بلوچ شاعر تاج محمد طائر جب کینسر سے لڑنے سول ہسپتال کراچی کے بستر پر تھے تو وہ صبا تھے جنہوں نے ان کی دن رات خدمت کی ـ کبھی پیر دباتے، کبھی سر اور کبھی ان کی آلائشیں صاف کرتے ـ بلوچستان یونیورسٹی کا پروفیسر ایک معمولی شاعر کی خدمت کرے ، یہ اس صورت میں ممکن ہے جب برتری کا ہر کاذب تصور پاش پاش ہوچکا ہو ـ ہسپتال کے ان روز و شب کے دو زندہ معتبر شاہدین میرے والد اور کامریڈ واحد بلوچ ہیں ـ اسی طرح رحیم بخش آزاد اور صاحب طرز ادیب بیگ محمد بیگل سے جب بھی ملتے ان کے پیر چھوتے ـ بقول استاد صبا میں ان کے پیر نہیں چھوتا میں تو بلوچی زبان کو عزت بخشتا ہوں جس کو یہ عزت دیتے ہیں۔
وہ نرم مزاج تھے ـ غصے اور تشدد سے دور ـ سیاسی لحاظ سے وہ ہمیشہ قوم پرستوں کے مخالف رہے گوکہ کبھی کھل کر اس کا اظہار نہ کیا ـ وہ پیپلز پارٹی لیاری کے جیالوں کے معترف تھے ـ ان کے بیشتر افسانوں کے کردار بھی یہی پرامید اور حرماں نصیب جیالے رہے لیکن دوسری جانب وہ بھٹو کی سیاسی پالیسیوں کے بھی ناقد رہے ـ تضاد ہے؟ ـ ہرگز نہیں ـ جنرل پرویز مشرف اگر نواب اکبر خان بگٹی کو قتل نہ کرتے تو شاید ان کی زندگی اسی ڈگر پر چلتی رہتی ـ مگر ……..
نواب اکبر خان بگٹی کے قتل نے ان کو ہلا دیا ـ وہ پرسکون کمروں میں بیٹھ کر قلم گھسیٹنے کے قائل پہلے بھی نہ تھے ـ ہوتے تو سید ہاشمی لائبریری کبھی بھی نہ بنتی ـ وہ عالمِ باعمل تھے ـ کارل مارکس کے معروف قول کے سخت حامی ـ سو وہ مشرف کے خلاف بھی میدان عمل میں پوری ایمان داری اور دیانت داری کے ساتھ آئے ـ وہ سود و زیاں سے بےنیاز تھے ـ اپنا سب کچھ وہ پہلے ہی بلوچی زبان و ادب کو تیاگ چکے تھے ـ ایک جان ہی تھی سو اس کی کیا قیمت۔ ـ
وہ پیپلز پارٹی کے لیاری نشین جیالوں سے ہمیشہ متاثر رہے ـ خاص طور پر سیاہ فام جیالیوں سے جو سڑکوں پر پولیس سے لڑتی رہی ہیں ـ جب وہ عملی سیاست میں آئے تو انہوں نے عین وہی انداز اختیار کیا جو جیالیوں کا تھا ـ نعرے بازی ، پیشہ ور وردی پوش قاتلوں کو گالیاں، عام افراد کا سا انداز ـ بلوچستان کے سیاسی دانش وروں کے لیے یہ رویہ عجیب ہوگا ـ ان کی نگاہ میں شاید یہ ایک دانش ور کا منصب نہ ہو لیکن جس پسِ منظر سے ان کا تعلق تھا، جن افراد کو وہ آئیڈیلائز کرتے تھے اس کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ قطعاً عجیب نہ تھا ـ وہ نوجوانوں کو اسٹڈی سرکلز دیتے از حد سنجیدہ نظر آتے ـ پرمغز علمی مکالمے کرتے ـ تاہم جب سڑکوں پر فوج کو للکارتے تو ان کے اندر کا وہ لیاری نشین مزاحمتی باہر نکلتا جو اپنے گھر کے سامنے پکوڑے بیچتی ہے، جس کے بیٹے کو پولیس اٹھا لے گئی، جو دن بھر گدھا گاڑی چلاتاہے ، جو منشیات فروش سے لڑتا ہے، جو حاملہ بے نظیر بھٹو کی ڈھال بنتی ـ صبا دشتیاری رکھ رکھاؤ کے قائل کب تھے؟ ـ
وہ نوجوانوں کی قیادت کے حامی تھے ـ وہ دانش وری کا منصب اس کو نہیں سمجھتے تھے کہ جی بس اب میں مینارہِ علم ہوں بس اب سب مجھ سے فیض مانگیں ـ بقول ان کے “نوجوان گرم خون ہے اور اسے گرم رہنا ہی چاہیے” ـ ان کے ہونہار شاگرد یکے بعد دیگرے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے، درجنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملیں ـ یہ ان کا سرمایہ تھا جسے پاکستان بے دردی سے لوٹ رہا تھا ـ ایسے میں حساس استاد کیا کرتے؟ صبر و تحمل کا درس دیتے؟ ـ وہ جہاں گوتم بدھ کے مداح تھے وہاں وہ گل خان نصیر کے بھی طرف دار تھے ـ وہ گل خان نصیر جس نے گرج کر کہا تھا “میں جنگ کروں گا” ـ وہ جیالوں کے بھی معترف تھے جو ایک دن کوڑے کھاتے اور دوسرے دن پھر اسی آمر سے لڑتے نظر آتے۔
انہوں نے اپنی پوری زندگی اپنے شرائط پر بامقصد گزاری ـ سو وہ اپنی موت کا اختیار کسی اور کو کیسے دیتے ـ موت بھی انہوں نے خود چُنی ـ وہ جس دھج سے مقتل کو گئے وہ شان سلامت ہے ـ اس شان کو خودکشی سے تعبیر کرنا صریح زیادتی یے ـ پھر تو چے گویرا، سپارٹکس اور سقراط سمیت دنیا بھر کے فکری و عملی سرمچاروں کو خودکش قرار دینا ہوگا۔ ـ
مجھے صبا دشتیاری سے کوئی اختلاف نہیں ہے ـ ایسا نہیں ہے کہ میں کسی اندھی عقیدہ پرستی کا شکار ہوں بالکل نہیں ، میں خود کو فکری لحاظ سے صبا ہی سمجھتا ہوں (گوکہ ان کے خاک پا کے برابر بھی نہیں ہوں) اس لیے خود سے اختلاف نہیں کرسکتا ـ صبا صاحب ہمتِ کفر کے داعی تھے سو ان سے لاکھ اختلاف کیجئے مگر اختلاف کی سطح بلند رکھیے، بس یہی ایک عقیدت مند کی گزارش ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں